(۱۱؍رجب المرجب کویوم ولادت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے
موقع پر)
آپ اگرسوشل میڈیاکااستعمال کرتے ہیں توخلیفۂ راشد حضرت علی کرم اللہ
تعالیٰ وجہہ الکریم کی ذات ستودہ صفات سے منسوب بہت سارے اقوال وارشادات
اکثرآپ کی نگاہ سے گزرتے ہوں گے ۔کوئی بھی محتاط اور پڑھا لکھاانسان یہ
یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ جو اقوالِ زریں،ارشاداتِ صادقہ اورافکارِعالیہ
حضرت علی سے منسوب ہیں وہ واقعتاًان کے ہیں بھی یانہیں تاہم اس
پرغوروفکرکرنے سے ایک خیال چشمِ تصورمیں ضرورابھرآتاہے،وہ یہ کہ
آخرکیاوجہ ہے کہ علم وحکمت اور انوار و معارف کے زیادہ ترموتی حضرت علی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیوں منسوب ہیں؟حضرت علی حدیثِ نبوی کی روشنی میں
باب العلم ہیں اورجوشخصیت علم و فن کاباب ہو،اسے علم وحکمت کی کان ،فضل
وکمال کامنبع اورروحانیت وقدوسیت کامرجع ہوناہی چاہیے ۔ان اقوال اورارشادات
سے گزرتے ہوئے آپ یقیناًمحسوس کرتے ہوں گے کہ یہ کس قدر گہرے اور وسیع ہیں
۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کاایک ایک قول ،ایک ایک فکراورایک ایک ارشاد
مختصرومجمل سامتن ہے مگراس کی تشریح وتوضیح کی جائےتو ہزاروں صفحات بھی
ناکافی معلوم ہونے لگیں ،سوچ کے دریاخشک ہوتے دکھائی دیں اورفکرکے پنچھی
دورجااڑیں۔
انہی اقوال وافکارمیں سے ایک بڑا ہی معروف قول عرفت ربی بفسخ عزائمی ہے
یعنی میں نے اپنے رب کواپنے ارادوں کےٹوٹنے سے پہچانا۔ کہنے کو تویہ فقط
چارلفظی جملہ ہے مگرایک ایک حرف انوار و معارف کے لاکھوں موتیوں سے
شرابورہے۔مجھ جیسا ادنیٰ ،بے شعوراوراجہل انسان بھی اگراس پرلکھنے بیٹھے
تودفترکے دفتر’سیاہ‘کرڈالے،پھرسوچیے کہ جواہل علم ہیں ،اہل کمال ہیں اوراہل
شعورہیں ،وہ کتنی گہرائی سے اس پراپنے خیالات کااظہارکرسکتے ہیں۔یہ قول
ہمیں بتاتاہے کہ انسان کی حقیقت کیاہے اوراس کی قوتِ پروازکیاہے ۔یہ
بظاہرایک چھوٹاساقول ہے مگر در اصل یہ ایک تاریخ ہے ،ایک تہذیب اورایک
فلسفہ ۔ہم آپ اکثرمنصوبہ بندی کرتے ہیں مگرناکام ہوجاتے ہیں ،اپنی منزلوں
کی طرف قدم بڑھاتےہیں مگرراستے کے خس و خاشاک ہمارے قدموں میں زنجیربن جاتے
ہیں اور کنکر پتھرہمارے قدم لہولہوکردیتے ہیں۔بس یہی وہ لمحہ ہوتا ہے
جوہمارے ذہنوں کے دروازے پردستک دیتاہے اوربتاتاہے کہ تیری ساری منصوبہ
بندیاں ،سارے ارادے اورعزائم اس ذات باری کے دستِ قدرت میں ہیں جویہ
جانتاہے کہ ہمارے ارادوں اورمنصوبوں کوکامیابیوں سے آشناکرناہے یانہیں
کیوںکہ وہ ہماری کامیابی اورناکامی کی مصلحتوں اورحکمتوں سے واقف ہے،وہ اس
بات سےبخوبی آگاہ ہے کہ ہمیں کہاں عزت دینی ہے اورکہاں ذلت سے ہم
کنارکراناہے ،کہاں گراناہے اورکہاں اٹھاناہے ۔
لوگ اکثرشکوہ کرتےہیں کہ ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں مگروہ یہ نہیں جانتے
کہ دعائوں کی عدم قبولیت کارازکیاہے ،اس رازتک اگرانسان پہنچ جائے تووہ
انسان نہ رہے بلکہ معاذاللہ خدائی کادعوی دارہوجائے ۔ہم اٹھتے بیٹھتے یہ
کہتے نہیں تھکتے کہ اللہ پاک کارسازہے ،اس کے ہرکام میں حکمت ومصلحت ہے
مگرکبھی یہ نہیں سوچتے کہ دراصل یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسان کواپنی بے بسی
،بے کسی اورلاچاری کااحساس ہونے لگتا ہے اور خدائے رب العٰلمین کی برتری
کااحساس پورے وجودکوڈھانپ لیتاہے، بس سوچنے والا دماغ ہوناشرط ہے ۔حضرت علی
رضی اللہ عنہ بھی اپنے اس قول میں یہی سمجھانا چاہتے ہیں کہ اگرارادے
کامیابیوں کی سیڑھیاں نہ طے نہ کرسکیں تواس کامطلب یہ نہیں کہ سارے دروازے
بند ہوگئے ہیں،بلکہ اس ناکامی سے خداکی معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں اوریہ
معرفت ہم پر حقیقی احساس اورشعورکے بے شماردرواکردیتی ہے ۔ارادے جب ٹوٹ
جائیں ،منصوبے جب ناکام ہوجائیں ،پالیسیاں جب دھری کی دھری رہ جائیں توہمیں
احساس ہوناچاہیے کہ کوئی ذات توہے جوہمیں کنٹرول کررہی ہے ،کوئی توہے
جوہمیں اِس طرف نہیں اُس طرف لے جاناچاہتی ہے اور وہ ہمیں وہیں لے
جاناچاہتی ہے جہاں فلاح اپنی بانہیں پھیلائے ہمیں اپنی آغوش میں لینے کی
منتظرہے۔
اسلام نے مایوسی کوپہلے ہی کفرقراردے دیاہے ،اس کی وجہ یہی ہے کہ مایوسی
معرفت الٰہی کے سارے دروازے بندکردیتی ہے جب کہ مثبت سوچ وفکرہمیں
شکروصبرکی عادی بناتی ہے اوراسلام شکروصبرکاہی تودین ہے ۔گویااب معنی یہ
ہوئے کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اپنے اس چارلفظی
مختصرسے جملے میں اسلام کاپورافلسفہ سمیٹ دیا ہے ،مسلم امہ کی ساری
تقدیروتدبیراس کوزے میں بندکردی ہے ۔ہم اگر حسبِ بساط اس بلیغ ،پرمعنیٰ
اورپرفکرجملے پرغورکرتے چلے جائیں توشعوروادراک کے بے شمارموتی ہمارے سامنے
رولتے نظرآئیں ، بس شرط یہی ہے کہ سوچ مثبت ہو،حقیقت پسند ہو ، غیرجانب
دارہو،منطقی ہواوربے ہنگم خیالات سے پاک وصاف۔خلیفہ راشدحضرت علی رضی اللہ
عنہ کایہ قول مبارک وہ آئینہ ہے جس میں ہرمسلمان بلکہ ہر انسان اپنی فکر
کی زلف برہم سنوارسکتاہے اور مایوسیوں،ناکامیوں،نامرادیوں سے کوسوں دوررہ
کربہت خوش وخرم ،مطمئن اورشاندارزندگی گزارسکتاہے کیوں کہ اقوال علی رضی
اللہ عنہ رازحیات ہیں،کان حیات ہیں،شان حیات ہیں، منبع حیات ہیں، ماخذحیات
ہیں،معنی حیات ہیں اور اساس حیات۔ |