انسان نے شعور کی بنیاد پر
مخلوقات کو چار درجوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ (1) انسان (2) حیوانات (3)
نباتات (4) جمادات یہ درجہ بندی اپنی جگہ درست ہے لیکن انسان کا یہ خیال
درست نہیں کہ اس کے سوا جو کچھ ہے بے شعور‘ بے جان اور مردہ ہے۔ خاص طور پر
ہماری مادی کائنات۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن
مجید میں فرمایا ہے کہ شجر و حجر ہمیں سجدہ کرتے ہیں اور بعض پتھر ایسے ہیں
جو خوفِ خدا سے گر جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پتھروں کو بھی ایک درجے
میں شعور حق حاصل ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ خوفِ خدا کو محسوس نہ کرتے۔ اس کے
معنی یہ ہیں کہ جن پتھروں کو بے جان مردہ اور بے شعور سمجھا جاتا ہے وہ بھی
زندہ ہیں اور اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ ان کا ایک خالق اور مالک ہے۔
مادی کائنات کے باشعور ہونے کا دوسرا بڑا ثبوت سیرت طیبہ سے فراہم ہوتا ہے۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں وادی مکہ کے اس پتھر
کو پہچانتا ہوں جو بعثت سے قبل بھی مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ روایات میں آیا
ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کنکروں کو ہاتھ میں لیتے تو وہ
تسبیح پڑھنے لگتے اور ان کی تسبیح صحابہ کرام کو سنائی دیتی۔ سیرت طیبہ کا
یہ واقعہ بھی مشور ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں
کھجور کے ایک تنے کا سہارا لے کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے لیکن پھر آپ
کے خطبے کے لیے منبر تیار ہوگیا۔ کھجور کا تنا رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے قرب اور آپ کے لمس پاک سے جدائی برداشت نہ کرسکا اور رونے لگا۔
صحابہ نے کھجور کے تنے سے آتی ہوئی رونے کی آواز صاف سنی۔ حضور اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھا تو کھجور کے تنے پر شفقت کے ساتھ ہاتھ پھیرا۔
جس کی تاثیر سے کھجور کے تنے نے رونا بند کردیا۔ روایات میں یہ بھی آیا ہے
کہ صحابہ کرام نے چولہے پر چڑھی ہوئی دیگچی میں چاولوں کو تسبیح کرتے سنا
ہے۔ میر تقی میر کا شعر ہے۔
آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر منہ نظر آتے ہیں
دیواروں کے بیچ زیربحث موضوع کے تناظر میں
اس شعر کے معنی یہ ہیں کہ دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان ہوں تو یہ
مادی کائنات بھی ہمیں شعور سے آراستہ نظر آئے گی اور سنائی دے گی۔ اہم بات
یہ ہے کہ یہ شعور ‘ مجرد اور بے نام شعور نہیں ہے،بلکہ یہ شعور‘ شعورِ حق
ہے۔
قرآن پاک اور روایات میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات کا ذکر ملتا ہے
جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو مختلف مخلوقات کی زبانوں
کا علم عطا کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ آپ چیونٹیوں کی زبان بھی جانتے تھے۔
انہیں اس زبان پر اتنا عبور تھا کہ وہ چیونٹیوں کے ساتھ ان کی زبان میں
مکالمہ کرسکتے تھے۔ہماری داستانوں میں پرندے ”شعورِ برتر“ کی علامت کے طور
پر ظاہر ہوئے ہیں۔ کوئی درماندہ مسافر رات بسر کرنے کے لیے درخت کے نیچے
آرام کے لیے لیٹتا ہے کہ درخت پہ چکوہ اور چکوی آکر بیٹھ جاتے ہیں اور باہم
گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ ان کی گفتگو مسافر سے متعلق راز آشکار کرنے والی ہے۔
مسافر پرندوں کی زبان سمجھتا ہے اور وہ پرندوں کی گفتگو سے فائدہ اٹھاتا
ہے۔پیڑ پودوں پر جاپان اور دنیا کے بعض ملکوں میں جو تازہ ترین تحقیق ہوئی
ہے اس نے پیڑ پودوں کے بارے میں مروج تصورات کو بدل دیا ہے۔ تحقیق سے ثابت
ہوا ہے کہ پیڑ پودے احساسات رکھتے ہیں۔ وہ خوش ہوتے ہیں۔ دکھ درد محسوس
کرتے ہیں۔ انسانوں سے ناراض ہوتے ہیں۔ اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں۔ انہیں
خوف محسوس ہوتا ہے۔ وہ بیمار ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو بیماری کی پیشگی
اطلاع دیتے ہیں۔ وہ سینکڑوں میل دور موجود پودوں کو بیماریوں کے ممکنہ حملے
سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان کی پیغام رسانی کامل اور حیرت انگیز ہوتی ہے۔ ان
حقائق کو دیکھا جائے تو حیوانات کو حیوانات کہنا مشکل ہے اس لیے کہ حیوانات‘
حیوانات سے کچھ زیادہ ہیں۔ نباتات نباتات سے کچھ سوا ہیں۔ یہاں تک کہ
جمادات بھی جمادات سے بڑھے ہوئے ہیں۔ حالات و واقعات کا یہ تناظر پوری مادی
کائنات کو دھڑکتے ہوئے دل کی طرح ہمارے سامنے لاتا ہے اور انسان کو دوسری
مخلوقات اور کائنات کے سلسلے میں حد درجہ حساس بناتا ہے۔انسانوں کے شعور پر
جب تک حقیقی مذہب کا غلبہ تھا انسانوں کے نزدیک انسان کیا حیوانات ‘ نباتات
اور جمادات تک قابلِ قدر تھے۔ لیکن حقیقی مذہبیت کی پسپائی اور زندگی و
کائنات کی مادی تعبیر نے حیوانات‘ نباتات اور جمادات کو کیا انسانوں کو بھی
صاحب توقیر نہیں رہنے دیا۔ ایک وقت تھا کہ انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا
خلیفہ تھا۔ کعبےسے زیادہ محترم تھا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا پر تو تھا۔
زمین کیا پوری کائنات اس کے وجود سے معنی اخذ کرتی تھی اور ایک وقت یہ ہے
کہ وہ محض ایک صارف ہے۔ ایک ووٹر ہے۔ ایک ٹیکس دہندہ یا نادہندہ ہے۔ اس کے
سوا اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ جس دنیا میں انسان ہی کی اہمیت
نہیں ہوگی اس دنیا میں حیوانات ‘ نباتات اور جمادات کو کون پوچھے گا؟انسان
حیوانات ‘ نباتات اور مادی کائنات کو کسی درجے میں شعور کا حامل فرض کرلے
تو ان تمام چیزوں کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت بدل کر رہ جاتی ہے۔ اگر
انسان کا مجموعی ماحول شعور سے عاری ہے تو انسان اس پوری کائنات میں تنہا
ہے۔ لیکن اگر یہ کائنات زندہ ہے۔ حساس ہے اور ایک درجے میں شعور کی حامل ہے
تو پھر اس کائنات میں پھلوں سے لے کر ستاروں تک انسان کے لاکھوں دوست اور
ہمراز ہیں۔ اس بات کو سب سے زیادہ شاعر اور بچے سمجھتے ہیں۔ چنانچہ شاعر
پوری کائنات کو علامتوں ‘ تشبیہوں اور استعاروں میں ڈھال دیتے ہیں اور بچے
چیزوں اور پوری کائنات سے اس طرح باتیں کرتے ہیں جس طرح زندہ وجود سے باتیں
کی جاتی ہیں۔ یہ صورتحال خود شعور حق کی علامت ہے |