آشوب چشم
یہ مرض بھی وافر مقدار میں ہمارے شعراء میں پایا جاتا ہے۔ اس میں شاعر یا
شاعرہ کے پردہ چشم پر عقل پہ پڑے ہوئے پردے کی مانند ایک اضافی پردہ پڑ
جاتا ہے چنانچہ اسکی دیکھنے کی صلاحیت بھی سوچنے کی صلاحیت کی طرح ضعف کا
شکار ہو جاتی ہے اور اکثر چیزیں اسے دھندلی یا الٹ پلٹ نظر آنے لگتی ہیں
اور بعض شدید مریضوں میں تذکیر و تانیث کی تمیز بھی بدتمیزی کی صورت دھار
لیتی ہے
بقول شاعر
اس عشق میں ہر نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
اب اس قسم کی صورتحال تب بھی پیش آ سکتی ہے جب نقشے کی بجائے محترم شاعر کو
بیگم نے یا اکتائے ہوئے سامعین نے شاخ شجر سے الٹا لٹکا دیا ہو۔ یا پھر یہ
بھی ہو سکتا ہے کہ محترم کوچہ جاناں سے تازہ تازہ بے آبرو ہو کر چچا غالب
کی طرح نکلے ہوں اور محبوب کے برادران کے ہاتھوں اجتماعی پھینٹ کے بعد چودہ
طبق روشن کروا کے ابھی حالت غیر میں ہوں۔
ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موصوف نے عشق وغیرہ لڑایا ہی ہائی ماڈرن
کلاس میں ہو جہاں لڑکے پونیاں اور کانوں میں بالیاں پہنتے ہیں اور لڑکیاں
جینز پہن کر موٹر سائکل چلاتی ہیں۔ جن کے بارے میں انور مسعود نے لکھا ہے
مرد ہونی چاہئے خاتون ہونا چاہیے
اب گرامر کا یہی کانون ہونا چاہئے
آنکھوں کے شاعرانہ امراض میں ایک مرض طوطا چشمی بھی ہے۔ اس میں شاعر محترم
نئے نئے محبوبوں کی آرزو میں گھلتا رہتا ہے اور پرانے محبوبوں سے آنکھیں
پھیرتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو غالباً یہ مرض سب سے زیادہ پھیلا ہوا
ہے۔ مصطفےٰ کھر اور سلمی آغا سے معزرت۔۔۔۔۔۔۔۔ چشم پوشی بھی اسی مرض کی
ذیلی شاخ ہے۔
آشوب چشم میں مبتلا شعرا کی آنکھوں سے ہر وقت آنسوؤں کی نہریں بہتی ہیں جو
کہ عام طور پر کثرت گناہ کی بجائے حسرت گناہ کی وجہ سے جاری ہوتی ہیں۔
چنانچہ جغرافیے کی کتابوں میں واضح لکھا ہوا ہے کہ ہمارے ہاں دنیا کا سب سے
بڑا نہری نظام موجود ہے۔۔۔۔۔۔
آنکھ کے شاعرانہ امراض اتنے زیادہ ہیں کہ اکثر پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس مرض
کی کونسی شاخ پہ شاعر محترم وارد ہوئے ہیں
بقول جیدی
میں نے کلیوں کی تمنا کی تھی
آنکھ میں موتیا اتر آیا
چنانچہ کوئی تمنا کرتے وقت خیال رکھیں کہ کہیں آپ شاعر وغیرہ یا اس سے ملتی
جلتی شے تو نہیں۔۔۔۔۔۔اور اظہار تمنا سے پہلے اچھی طرح تسلی کر لیں کہ زیر
غور ممکنہ یا غیر ممکنہ محبوب کے خاندان میں کوئی پہلوان یا پلسیا تو نہیں
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی الله بھلا کرے گا
امراض چشم کا تزکرہ ہمارے ہاں کی کرپشن کا طرح کافی طویل ہے لہٰذا باقی
اگلی قسط میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |