نیا بلوچستان اور سردار یار محمد رند

بلوچستان کا نام سنتے ہی ہمارے زہنوں میں ایک پسماندہ اور دہشتگردی سے مُتاثرہ علاقے کا نقشہ اُبھرتا ہے، سسکیوں اور آہوں کا نہ تمنے والا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے، جاہلت اور بے روزگاری کا نقشہ کھینچ جاتا ہے۔

ہم بچپن سے سُنتے آرہے ہیں کہ بلوچستان کی پسماندگی اور ابتر حالات کے ذمہ دار بلوچستان پر قابض سردار نواب اور وڈیرے ہیں ۔ہمیں بتایا جاتا رہا ہے کہ بلوچستان کہ نواب سردار وں نے بلوچستان کی سرزمین کے حقوق غصب کیے ہیں۔

ایک انتہائی سنگین مذاق اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ جس بلوچستان کو اﷲ نے سدُنیا کا بہترین ساحل دیا ہے جس بلوچستان کو اﷲ نے دُنیا جہاں کے ہر معدنیات سے نوازا ہے مگر وہاں کے ؂ عوام کو دووقت کی روٹی میسر نہیں، تن پر پہننے کیلیے سال میں ایک جوڑے سے زیادہ کی طاقت نہیں ۔نوجوان بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے کبھی پہاڑوں پر چڑھنے کیلیے مجبور ہوئے کبھی خودکُشیوں کیلیے۔جس بلوچستان کو پاکستان کا اکسیجن سمجھا جاتا ہے وہاں کے عوام کا درپدر ہونا کوئی عجیب بات اس لیے نہیں لگتی کیونکہ بلوچستان پر مسلط اشرافیہ جو 70سالوں سے حکمرانی کرتے آئے ہیں سب نے اپنی زات سے آگے کا سوچاہی نہیں اور یہاں کے وسائل پر مسلط لوگوں نے ہمیشہ عوام کو تعلیم اور بُنیادی سہولتوں سے کوسوں دور رکھا تاکہ یہ لوگ ہمیشہ ان کے محتاج رہے اور جو لوگ بھی یہاں کا حکمران بنے اُن کا سب سے بہترین پینترا یہی رہا کہ عوام کو شعور اور تعلیم سے دور رکھنا ہی اُن کے شاہانہ طرز زندگی کو دوام بخشے گی۔

مگر اس کے ساتھ ہی اگر ہم تصویر کے دوسرے رُخ کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک روشن اور دہشت گردی سے پاک صوبہے کی اُمید جاگتا نظر آتاہے کیونکہ بلوچستان کی سرزمین نے ہمیشہ اپنے کھوکھ سے ایسے عظیم شخصیات کو جنم دیا ہے کہ جن کی وجود سے ایک اُمید جاگ اُٹھتی ہے۔جی بلاشُبہ ہم آج ایک ایسے شخصیت کی بات کررہے ہیں جو بلوچستان کے سب سے بڑے سردار ہیں اور جو ایک محب وطن پاکستانی ہے، جی ہم بات کررہے ہیں سردار یار محمد رند کی، کہ جو ایک اُمید سحر ہے جو بلوچستان کے عوام کے دلوں کے بے تاج بادشاہ ہیں کہ جن سے بلوچستان کے نوجوان ، بُزرگ سب دیوانہ وار محبت کرتے ہیں ، کہ جن میں بلوچستان کی عوام اپنی احساس محرومیوں کا خاتمہ دیکھتی ہے۔

سردار یار محمد رند بلوچستان کے وہ سردار ہیں جنہوں نے ہمیشہ وطن عزیز پاکستان کیلیے اپنی صلاحیتیں وقف کی۔ اس کی حالیہ مثال ان کا بلوچ بیلٹ میں جانا اور وہاں پر پاکستان زندہ آباد کیلیے وہاں کے عوام کو نکالنا تھا۔اس سے پہلے بلوچستان کے بلوچ بیلٹ کے اکثر علاقوں میں پاکستان کا نام لینا گُناہ سمجھا جاتا تھا۔عوام کی اور قوم کی محبت کا عالم یہ تھا کہ جب انہوں نے بلوچستان کے ایک روشن وژنری سردار کو اپنے بیچ میں دیکھا تو لوگ دیوانہ وار باہر نکلے اور پاکستان زندہ آباد اور پاکستان سے اپنی محبت قائم رکھنے کا بھرپور اظہار کیا۔جوکہ سردار رند کا پاکستان اور بلوچستان کے اوپر احسان کے برابر سمجھا جاسکتا ہے۔

عوام کی سردار رند سے بے لوث معاملات کا جائزہ لینے کیلیے ہمیں اُن کے اپنے عوام کے لیے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینا ضروری ہوگا۔

سردار یار محمد رند نے روایتی سرداروں اور وڈیروں کے برعکس اپنے قوم کو باشعور بنانے کیلیے اقدامات کیے ۔ ضلع بولان میں اعلی معیار کی تعلیم کیلیے کہیں سکولز بنائے ایک ریذیڈنشل سکول کو اپنے ذاتی خرچ سے قائم کیا جس میں بلوچستان کے غریب طلباء کو سکالرشپ کے ساتھ جدید علوم سے آراستہ کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ سردار رند جب وفاقی منسٹر تھے تب انہوں نے ایک یونیورسٹی منظور کی تھی جسے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پست پشت ڈالا گیا مگر سردار رند اپنے وژن سے پیچھے نہیں ہٹے اور مسلسل جدوجہد سے سردار چاکر خان یونیورسٹی کے نام سے بلوچستان کے عوام کیلیے ایک زبردست تحفہ دیا۔

سردار یار محمد رند کے وژنری سوچ کا آندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں پر بھی وہ بات کرتے ہیں تو بلوچستان کے عوام کو ایک ہی بات کرتے ہیں کہ بندوقوں اور پہاروں میں جانے سے بلوچستان کی تقدیر نہیں بدلے گی بلکہ تقدیر بدلنے کے لیے اور یہاں کی محرومیوں کے آزالے کے لیے بلوچستان کے عوام کو تعلیم کی طرف سارا توجہ کرنا ہوگا۔

سردار یار محمد رند نے تعلیم کے علاوہ اپنے عوام کیلئے صاف پانی کی فراہمی کے لیے بے پناہ کام کیا ہے۔ خُشک سالی سے مُتاثرہ کسانوں کیلئے کئی منصوبے بنائے جس سے کسان خوشحال ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے علاقے میں صحت کے شعبے میں اپنے عوام کی کافی خدمت کی ہے۔

سردار یار محمد رند کے قوم کے کچھ باسیوں سے جب میں ملا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے بچوں کو سردار یار محمد رند نے باقئدہ تعلیم دینے کیلیے ہمیں ماہانہ وظائف کا اجراء کیا ہے ۔ اُن لوگوں نے بتایا کہ جب ہمارے ہاں کوئی بیمار ہوتا ہے تو ہمیں اپنے گھر والوں کے علاج کیلیے مکمل مدد فراہم کی جاتی ہے۔

سردار یار محمد رند جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر بھی ہیں اُن کے پاکستان تحریک انصاف میں آنے کے بعد یہاں کے عوام نے بہت بڑی تبدیلیاں دیکھی ۔ پاکستان کا نام لینے سے کترانے والے لوگوں نے سردار رند کی قیادت میں پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگائے ہرعلاقے میں جاکر وہاں کے عوام کو تعلیم کے ذریعے اپنے حقوق کے حصول کے لیے جذبہ اور حوصلہ دیا۔ سرادریار محمد رند کی دن رات کی محنت اور کاوشوں سے بلوچستان سے پہلا چیئرمین سینت منتخب ہوا ۔ سردار یار محمد رند ہی کی کاوشوں سے پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کی سب سے بری جماعت بن چُکی ہے۔ اگر سردار یار محمد رند کی قائدانہ صلاحیتوں پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ بلوچستان کی تاریخ میں واحد شخصیت ہیں جن سے یہاں کے پختون بلوچ ہزارہ اور پنجابی یکساں محبت کرتے ہیں اور سردار یار محمد رند کو بلوچستان کی تبدیلی اور حقوق کے منصفانہ تقسیم کا علمبردار سمجھتے ہیں۔سردار یار محمد رند دراصل اپنی شائستہ اور خندہ پیشانی کی وجہ سے بھی بلوچستان کے عوام کے دلوں کے بے تاج بادشاہ ہیں۔عمران خان کے حالیہ دور کوئٹہ میں بلوچستان کے لیے شوکت خانم ہسپتال کا اعلان بھی سردار یار محمد رند کے دیرینہ کاشوں کا نتیجہ ہے یہی وجوہات ہیں کہ بلوچستان کے عوام تعلیم یافتہ،روشن اور دہشت گردی سے پاک بلوچستان بنانے کیلئے آنے والے الیکشن میں سردار رند کو اپنے وزیراعلیٰ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

Malak Jahangir Kakar
About the Author: Malak Jahangir Kakar Read More Articles by Malak Jahangir Kakar: 3 Articles with 2693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.