برطانوی ملکہ الزبتھ اول کی قائم کردہ ایسٹ انڈیا کمپنی
نے 1600ء میں جب برصغیر کی سرزمین پر پاؤں رکھا تھا تو کسی کے ذہن و گمان
میں بھی نہیں تھا کہ سورت اور مدراس میں مسالہ جات کے تجارتی مراکز قائم
کرنے والی یہ بے ضرر سی کمپنی کسی دن پورے ہندوستان پر برطانوی راج کی راہ
ہموار کر دے گی اور مستقبل میں اس خطے کے لوگ معاشی، سیاسی، سماجی اور
معاشرتی لحاظ سے انگریزوں کی غلامی میں چلے جائیں گے۔ کاروبار کے لیے آنے
والی اس کمپنی نے 1689 میں علاقائی تسخیر شروع کر دی۔ یہ نوے برسوں پر محیط
عرصہ ہے کہ یہ کمپنی سرمایہ کاری اور کاروبار کے پس پردہ رہی۔ بعدازاں جنگ
پلاسی جیسی لڑائیاں چلتی رہیں اور آخر کار 1857ء کے بعد پورے ہندوستان پر
کنٹرول حاصل کر لیا گیا۔ ہندوستان پر مکمل قبضے تک یہ 257 برس بنتے ہیں۔
چین اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا کوئی موازنہ تو نہیں بنتا لیکن جب ایسٹ انڈیا
کمپنی نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو ان کا ایسے ہی سواگت کیا گیا
تھا، جیسا آج کل پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کا کیا جا رہا ہے۔ اس وقت
لوگ ایسے ہی اپنے مستقبل کے بارے میں خوش تھے کہ ہندوستان کے کسانوں کا مال
بین الاقوامی منڈیوں میں بکے گا۔ چین ہمارا دوست ہے لیکن یہ کس کو معلوم
ہیں کہ آج سے ایک سو برس بعد یا دو سو برس بعد چین کے ہمارے ساتھ تعلقات
کیسے ہوں گے؟ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم خود ترقی نہیں کر سکے اور اب
ہم اس دوراہے پر آ کھڑے ہوئے ہیں، جہاں ہمیں زندہ رہنے کے لیے یا تو امریکہ
یا پھر چین کی جھولی میں بیٹھنا پڑے گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ریڈ لائن کہاں ہے، جہاں ہمیں یہ پتا چلے گا کہ آپ
اپنے ہی گھر کے مالک ہیں یا محکوم ہو چکے ہیں، وہ حد کہاں ہے جب یہ پتا چلے
گا کہ چین سرمایہ کاری کر رہا ہے یا پھر پاکستان کو خرید چکا ہے؟ یہ ابھی
ابتدائی مرحلہ ہے، چینی سرمایہ کاری ابھی صرف شروع ہی ہوئی ہے اور ہماری
گوادر کی بندرگاہ عملی طور پر چین کے کنٹرول میں ہے۔ پاکستان کے مرکزی
اسٹاک مارکیٹ کے چالیس فیصد حصص ایک چینی کنسورشیم کو بیچنے کے تمام
معاملات طے پا چکے ہیں۔ جہاں جہاں چینی منصوبوں کا آغاز ہوا ہے، وہاں وہاں
ملازم بھی چینی رکھے جا رہے ہیں جبکہ کراچی اور راولپنڈی کے بازاروں میں
چینی اشیاء فروش بھی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
گاؤں میں چاچے بشیر کے بچوں نے بیس برس پہلے لاہور میں جوتیاں بنانے کا
کاروبار شروع کیا تو ان کے غریب گھر میں بھی رونق آئی، انہوں نے بھی اپنے
بچوں کے لیے دو کلو دودھ خریدنا شروع کیا اور ان کے صحن میں بھی چہل پہل
دکھائی دینے لگی۔ لیکن گزشتہ دو سال سے ان کا سارا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ ان
کی بچوں کی چہروں سے پریشانی کی جھریاں نہیں جاتیں، وجہ مارکیٹ میں چین سے
آنے والی سستی جوتیاں ہیں۔ لیکن چینی سرمایہ کاری اور وسیع ہوتے ہوئے اثر و
رسوخ کا یہ ابھی صرف ابتدائی مرحلہ ہے، اگر یہ سلسلہ ایسے ہی بڑھتا گیا تو
آج سے پچاس یا ایک سو برس بعد صورتحال کیا ہوگی؟
میں بھی چینی سرمایہ کاری سے خوش ہوں، ہمیں اس وقت اس کی اشد ضرورت ہے لیکن
یہ خدشہ بھی کھائے جاتا ہے کہ قراقرم کی دیوار کے پیچھے سے نکلنے والی یہی
قوم کسی دن ہمارے لیے وہ یاجوج ماجوج کی قوم ثابت نہ ہو جائے، جو اس خطے کا
پانی تک پی جائے گی۔ سوال یہ کہ اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے کیا مقاصد تھے
اور آج چین کے کیا مقاصد ہیں؟ تو ظاہر ہے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بھی اپنے
مفادات تھے اور آج کے چین کے بھی اپنے مفادات ہیں۔ برطانوی راج نے، نہری
نظام، ریل گاڑیوں کے ٹریک اور سڑکیں اس وجہ سے نہیں بنائی تھیں کہ انہیں
محکوم ہندوستانی عوام کا غم کھائے جا رہا تھا بلکہ یہ سب کچھ ان کی
اسٹریٹیجک ضرورت تھا۔
اب دنیا میں ”خود غرض قوم ” کے نام سے مشہور چین کی سرمایہ کاری، سڑکیں، پل
اور ٹرین کی لائنیں اس وجہ سے نہیں کہ وہ پاکستانیوں کی محبت میں مبتلا ہے
بلکہ یہ ان کی اپنی اسٹریٹیجک ضرورت ہے۔ میں پاکستان کی ترقی کا مخالف نہیں
ہوں لیکن مجھے کبھی کبھار اپنے سیاسی لیڈروں کی دور اندیشی پر شک پڑتا ہے،
میٹرک پاس ایم پی ایز اور ایم این ایز کی اسٹریٹیجک سوچ پر شک پڑتا ہے۔
برطانوی شہزادہ چارلس دوئم نے 1661ء میں پرتگالی شہزادی سے شادی کی تو
انہیں جہیز میں ممبئی ملا اور انہوں نے یہ علاقہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو
سالانہ دس پاؤنڈ کرائے پر دے دیا تھا۔ آج پاکستانی حکمران بھی ’آزادی کے
جہیز میں ملنے والے ان علاقوں کو چینی کمپنیوں‘ کے حوالے کر رہے ہیں کیوں
کہ وہ خود ان کا انتظام سنبھالنے کی سکت نہیں رکھتے۔
یہ خیال بدگمانی ہے لیکن مجھے یہ بدگمانی ستاتی ہے کہ کہیں تین یا چار سو
سال بعد ہماری نسلیں یہ نصاب نہ پڑھ رہی ہوں کہ چین نے سی پیک کے ذریعے
پاکستان میں قدم جمانے شروع کیے۔ میرے خیال سے ہمیں پاکستان کے اس اہم
تاریخی موڑ پر سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہییں۔ پہلی عالمی
جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ میں علاقائی تقسیم کے حوالے سے برطانوی وزیر خارجہ
لارڈ جارج کرزن نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا، جو آج کئی ملکوں کی خارجہ
پالیسی کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عربوں کے پس پردہ‘ برطانوی معاشی
مفادات کا خیال رکھا جائے گا، ’’یہ عرب ریاستیں برطانوی رہنمائی اور انتظام
میں چلیں گی اور ان کو کنٹرول کوئی پیدائشی مسلمان (محمڈن) اور اگر ممکن
ہوا تو کوئی عرب ٹیم کرے گی۔ ‘‘
پاکستان اور چین کی دوستانہ تاریخ کو دیکھتے ہوئے فی الحال یہ کہا جا سکتا
ہے کہ لڑائی یا جنگ کا کوئی امکان ہی نہیں ہے لیکن بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری
اور بڑھتے ہوئے چینی اثرو رسوخ سے مستقبل میں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ
پاکستان کا حکمران تو کوئی پاکستانی ہی رہے گا لیکن تحفظ چینی مفادات کا
کیا جائے گا اور انتظام بھی پس پردہ چینی ہی چلائیں گے۔ امریکی ماہر
سماجیات سی رائٹ ملز نے 1956 میں ”دا پاور ایلیٹ“ نامی کتاب لکھتے ہوئے ایک
نئی تھیوری ”پاور ایلیٹ“ دنیا کے سامنے رکھی تھی۔ اس کے مطابق کسی بھی ملک
میں اہم فوجی افسران، سرمایہ کار اور سیاستدان ہوتے ہیں۔ باقی عام شہری
کوئی معنی نہیں رکھتے انہیں یہی تین طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں۔ چین بھی
امریکہ کی طرح پاکستان میں انہی تین طبقوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہے۔
پاکستانی فوج، سیاستدان، سرمایہ دار اور میڈیا، چین سبھی پر اثرانداز ہو
رہا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس ملک میں بابے بشیر کے غریب بیٹوں جیسے
لاکھوں بے آواز پاکستانیوں کے مفادات کا خیال کون رکھے گا؟ |