ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کینسر کے مریض کو ڈسپرین کھلارہے
ہیں اور اس کے جلد تندرست ہوجانے کی توقع کرہے ہیں۔مولانا فضل الرحمان ہاتھ
جوڑ رہے ہیں کہ خدا کے لیے لاقانونیت کا راستہ ترک کردیا جائے۔قوم پر رحم
کھایا جائے۔مولانا صاحب جس اندازمیں لاقانونیت کا خاتمہ چاہ رہے ہیں۔یہ
بالکل ڈسپرین سے کینسر کا علاج کرنے جیساہے۔جو لوگ قانون شکن ہیں۔ان کے لیے
منت سماجت کی کچھ اہمیت نہیں۔یہ لوگ اس قسم کی منت سماجت سے مذید شہ پاتے
ہیں۔مذید حوصلہ بڑھتاہے۔ ان کا دائرہ واردات پھیل رہا ہے۔اس قسم کا رجحان
معاشرے میں بڑھ جائے تو ایسی ریاست کو بنانا ری پبلک کا نام ملتاہے۔ ایسی
ریاست جہاں قانون شکن تگڑے ہوں اور قانون پر عمل کروانے والے کمزور۔قانون
شکن تو ہر قسم کے آلات حرب استعمال کرنے پر قادر ہوں اور قانون کے پہرے دار
کسی قسم کی سختی کی جرت نہ کرپائیں۔منت سماجت سے کام لیا جائے۔پھر ریاست پر
غیر اعلانیہ طور پرجنگل کا قانون نافذ ہوجاتاہے۔جہاں میرٹ صر ف اور صر ف
طاقت رکھنا ہوتاہے۔جائز۔ناجائز کا مسئلہ نہیں ہوتانہ ہی اچھے برے کا فرق
رہتاہے۔بنانا ری پبلک میں جیت صر ف طاقت ور کی ہوتی ہے چاہے وہ سراسر غلط
ہے۔ہار ہمیشہ کمزورکی ہوتی ہے چاہے صد فی صد حق پر ہو۔
دھرنا جوڑی کے بیانات میں پھرسے ہم آہنگی پائی جارہی ہے۔علامہ طاہر القادری
صاحب ہوں یا انے کے کزن عمران خاں صاحب دونوں کو یقین ہوچکا کہ ا ن کے
مشترکہ مخالف کو سزا ہونے والی ہے۔پہلے تحریک انصاف کے چیئرمین گویاہوئے
کہا کہ دونوں شریف اللہ کی پکڑ میں ہیں۔نیب فیصلے کا وقت قریب ہی حکمران
بوکھلا گئے۔لاہور میں رکنیت سازی مہم میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا
مذید کہنا تھا۔کہ29اپریل کو مینار پاکستان کے جلسے میں بتاؤ ں گا کہ کیوں
نکالا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے بھی نوازشریف
کے خلا ف فیصلہ آجانے کا عندیہ دیا ہے۔سینٹرل کور کمیٹی سے ٹیلی فونک خطاب
کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ نوازشریف دہشت گردوں کو پروموٹ کرنے والوں میں
سے ہیں۔ملک میں جو امن آیا ہے۔وہ فوجی اپریشنوں ضرب عضب اور ردالفساد کے
سبب آیاہے۔میں کل بھی کہتا تھاکہ نوازشریف سیکورٹی رسک اور غیر ملکی قوتوں
کے آلہ کار ہیں۔آج بھی ہمارا موقف یہی ہے۔نوازشریف کسی کے کہنے پر فوج اور
عدلیہ کو ٹارگٹ کررہے ہیں۔کرپشن ریفرنسز پر فیصلوں کی تاریخ جوں جوں قریب
آرہی ہے۔چیخوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دھرنا جوڑی کی سمت اور امیدیں ابھی تک نہیں بدل پائیں کچھ برس قبل بھی ان
کا واحد دشمن نوازشریف تھا۔آج بھی ان کا مخالف کوئی دوسرا نہیں۔دونوں قوم
کو نوازشریف کا بھیانک چہرہ دکھاتے دکھاتے اپنی عزت خاک میں ملا بیٹھے۔جو
توجہ عوام نے انہیں اول اول بخشی تھی۔باقی نہیں رہی۔قوم سترسال سے فوج۔پی
پی او رمسلم لیگ (ن)کی تکون کی حکمرانی سے متنفر تھے۔تینوں فریق باربار
اقتدار پر قابض رہے ہیں۔دھرنا جوڑی کی چکنی چپڑی باتوں کو بڑی توجہ
ملی۔تکون کے تینوں کونوں کے حمایتی ایک دوسرے سے بد ترین مخالفت رکھتے
ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے حمایتی فوجی حکومتوں کو تما م تر برائی کا سبب
قراردیتے ہیں۔فوجی حکمران نوازشریف او ربھٹو کو شیطانی محور تصور کرتے
رہے۔پی پی کے حمایتی مسلم لیگ (ن) کو اپنے راستے کا پتھر سمجھتے ہیں۔عوام
الناس ریاست میں پائی جانے والی تمام تر خرابیوں کی ذمہ دار اس تکون کو
قرار دیتی ہے۔جو بالکل جائزہے۔جب بھی کوئی چوتھاسامنے آیا اسے بھرپور توجہ
ملی۔اس چوتھے پرعوام الناس نے ر ایک بار تو پورابھروسہ کیا۔جانے کیا بات ہے
کہ کوئی چوتھاجم نہیں پارہا۔عمران خاں آج کے وہی چوتھے ہیں۔جتنی توجہ انہیں
عوام کی طرف سے ملی بے مثل تھی۔مگر جوں جوں خاں صاحب کی اصل ڈوریوں کا پتہ
چلتاگیا۔قوم اس نئے چوتھے پر تبری بھیجتی گھروں میں دبک گئی۔چیختے چلاتے
علامہ صاحب بھی جب بار بار میدان چھوڑکرجاتے دکھائی دیے۔تو اس چوتھے کو بھی
عوام نے خدا حافظ کہہ ڈالا۔
اہل قیادت کو کو برداشت نہ کرنا پنانا ری پبلک کی پہچان ہوتی ہے۔اس ریاست
میں جب تک چو راور مجرم حکومت کرتے ہیں۔ ڈوریاں ہلانے والے چپ سادے رہتے
ہیں۔جوں ہی کسی اچھے حکمران کی باری آئی۔یہ ڈوریاں ہلانے والے کسی فریب کار
کوو میدان میں اتار دیتے ہیں۔علامہ صاحب کو عدلیہ پر تنقید پر سیخ پا تو
ہورہے ہیں مگر کیا انہیں عوام الناس کی رائے بھی اس عدلیہ سے متعلق معلوم
ہے۔انہیں سوشل میڈیا پر اس عدلیہ سے متعلق عوامی رائے ضروری دیکھ لینی
چاہیے۔اس ہ عدلیہ میں انسان نہیں بعض نجومی بیٹھے ہوئے ہیں۔جو کیس کی سماعت
ختم ہونے سے قبل ہی کسی کو بطور مجرم مخاطب کرنے لگتے ہیں۔ان کی سزاؤں کی
تجویز بتادیتے ہیں۔ان سزاؤں کے اثرا ت سے آگا ہ کرنا بھی ان نجومیوں کاشغل
ہے۔یہ جو علامہ صاحب اور عمران خاں صاحب فیصلہ قریب آنے کی پشین گوئی کررہے
ہیں۔یہ بلاوجہ نہیں۔یہ اسی طرف سے بھجوائی کوئی پرچی ہے۔جدھر سے یہ
رضاکاران متحرک کیے گئے۔یہ دونوں چوتھے ایسی پشین گوئیوں کے سبب اپنا
اعتماد گنواچکے ہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین نے تو جزباتی ہوکر ڈوریاں ہلانے
والوں کو کئی بار ناراض بھی کردیا۔ان کی حالیہ جلد بازی میڈیا کو یہ خبر
لیک کردینا تھا کہ نوازشریف کو 10اپریل کو سزا سنائی جارہی ہے۔ان کی اس جلد
بازی کے سبب اب یہ سز اکم ازکم 10اپریل کو سنانا ممکن نہیں رہا۔ |