پشتون تحفظ موومنٹ

افغانستان سے متصل پاکستان کی زمینی پٹی کا نام و فاقی منتظم شدہ علاقہ یا فاٹا ہے ۔ اگر دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو اس علاقے کی شکل چاند سے مشابہت رکھتی ہے ۔ فاٹا کے مشرق میں صوبہ خیبر پختونخواہ اور جنوب میں بلوچستان جبکہ مغرب میں افغانستان کے علاقے کنہار اور ننہار جبکہ شمال میں پکتیا، کوست واقع ہیں ۔سرحد کے دونوں جانب زیادہ تر پشتو بولنے والے قبائل بستے ہیں ۔ ان قبائل کی اپنی ایک تہذیب اور زندگی گزارنے کااپنا ایک الگ طریقہ ہے ۔ امریکی فوج کی افغانستان میں یلغار، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی جنگ اور ان علاقوں میں طالبان کی مبینہ موجودگی کی وجہ سے پاک فوج کو کم و بیش دس فوجی آپریشن کرنا پڑے جن میں اس علاقے کے کم و بیش ہر خاندان کو نقصان اٹھانا پڑا ۔اس جنگ کی وجہ سے اس علاقے کا زمینی راستہ بھی ملک کے دوسرے علاقوں سے تقریبا کٹ گیا ۔

پاکستان کی آزادی کے وقت یہ قبائلی علاقے پاکستان میں ضم کر دیئے گئے تاہم ان علاقوں میں قبائلی نظام کو برقرار رکھا جائے ۔ قیام ِ پاکستان کے بعد سے لے کر آج اس علاقے میں کسی سیاسی جماعت نے خاطر خواہ کام نہیں کیا۔یہی وجہ سے اس علاقے کے عوام قومی دھارے میں شامل نہ ہو سکے ۔

ایک مخصوص وقت تک اگر ایک طبقہ یا علاقہ کے لوگوں کو بنیادی سہولیات اور ان کے قانونی جائز حقوق نہ دے جائیں تو ان کے اندر غم و غصہ بھر جاتا ہے ۔ یہی غم و غصہ بعد میں لوگوں کو ہتھیار اٹھا دینے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ اگرچہ تحفظ پختون تحریک کا آغاز حالیہ برس میں ہوا ہے تاہم اس کی جڑیں کافی گہری اور تاریخ سے جا ملتی ہیں۔ نقیب اﷲ محسود کے بہیمانہ قتل سے شروع ہونے والی اس تحریک کے بارے میں جاننے کے لیئے ضروری ہے کہ اس تحریک کی جانب سے حکومت کو پیش کیے جانے والے مطالبات پر نظر ڈالی جائے ۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے بنیادی مطالبات مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔نقیب اﷲ محسود کے مبینہ قاتل راؤ انوار کو پکڑا جائے ۔ اس پر مقدمہ چلایا جائے اور قانون کے مطابق اس کو سزا دی جائے ۔
۲۔لاپتہ افراد کو ڈھونڈا جائے اور ان میں سے جو بھی مجرم ثابت ہو ں ان پر مقدمہ چلا کر انھیں سزا دی جائے ۔
۳۔فاٹا میں فوجی چوکیوں میں کمی کی جائے اور زمینی بارودی سرنگوں کو ختم کیا جائے ۔
۴۔فاٹا میں ایف سی آر کے قانوں کو ختم کر کے ملک کے دیگر علاقوں کا قانون نافذ کیا جائے ۔
فاٹا پاکستان کا وہ حصہ ہے جو دہشت گردی سے براہ راست اور سب سے زیادہ متاثر ہوا۔پاک فوج نے بحالت مجبوری اس علاقہ میں فوجی آپریشن کیے اور حتی الامکان کوشش کی گئی کہ ان متاثرہ خاندانوں کی دوبارہ سے آباد کاری کو ممکن بنایا جائے ۔

پاکستان کے آرمی چیف نے بھی بیان دیا تھا کہ ہم اپنے ہی لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرسکتے ۔

پاک فوج ان تھک محنت اور کوشش کے بعد اس علاقہ میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے ۔ کئی مسلح راہنماؤں نے ہتھیار پھینک کر اس ملک کے ساتھ رہنے اور پاک فوج کو اپنے تعاون کی یقین دھانی کروائی ہے ۔ مقامی راہنما بھی چاہتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں بھی باقی صوبوں کی طرح ترقی ہو اور یہاں کے عوام بھی ملکی دھارے میں شامل ہو سکیں ۔

پشتون تحفظ موومنٹ خالصتاً ایک پاکستانی تحریک ہے لیکن بھارت افغانستان کے ذریعے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ وہ تحریک ہے جس کا آغاز ایک دھرنے سے ہوا جو نقیب اﷲ محسود کے قاتل کو کیفر کردار تک نہ پہنچا سکنے کی صورت میں ایک احتجاج تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دھرنا، ایک تحریک میں تبدیل ہو گیا جس کا مقصد فاٹا کے عوام کو ان کا قانونی اور جائز حق کے لیے جدوجہد ہے۔اس تحریک کے لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پیغام کو عام کیا اور اس سلسلے میں بے حد کامیاب بھی رہے کہ لوگ ان کا ساتھ دینے لگے لیکن رفتہ رفتہ اس تحریک اور جائز حق کے حصول کے لیے چلائی گئی تحریک کے لیے بعض جعلی اکائنٹ بھی شامل ہو گئے جو پاکستان دشمن قوتوں کا شاخسانہ ہے ۔ ان اکاؤنٹس میں زیادہ تر آزاد بلوچستان کی باتیں کی جاتیں جو لوگوں میں نفرت کے جذبات کو ابھار رہے ہیں ۔پشتونوں کوبھی دشمنوں کی اس چال کو سمجھنا چاہیے۔

بھائی کو بھائی سے لڑوا دینا ملک دشمن عناصر کا ایک اہم منصوبہ ہے ۔اس تحریک کی آڑ میں کی جانے والی ہر سازش کو ناکام بنانا ، نہ صرف ہر پشتون بلکہ ہر پاکستانی کا فرض ہے ۔ پاکستانی قوم نے مل کر دہشت گردوں کو شکست دی ، اب ان شاء اﷲ ہم سب مل کر ملک کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنا دیں گے۔

فاٹا کے مسائل کو جتنی جلدی ممکن ہو حل کیا جانا چاہیے ۔اگر ہم متحد رہیں گے تورفتہ رفتہ مسائل بھی حل ہو جائیں گے لیکن اگر ہم آپس ہی میں لڑ پڑے تو مسائل جوں کے توں رہیں گے اور ہم بحیثیت قوم کمزور ہو جائیں گے ۔ فوجی چھاؤنیوں اور بارودی سرنگوں کو ختم کر دینا ملکی دفاعی حساب سے اچھا نہیں ہے ۔ تاہم ان بارودی سرنگوں کو سرحد ی علاقہ تک محدود کر دیا جانا چاہیے ۔ دوسری بڑی پیش رفت پاک فوج اور عوا م میں رابطوں کو بڑھا کر کی جا سکتی ہے ۔

اس مسئلہ کا ایک واضح حل اس علاقہ کو صوبہ خبیر پختونخواہ کا حصہ بنا دینا اور ایک مقامی انتظامیہ کے قیام میں مضمر ہے جو اس علاقے کی بہبود کے لیے کام کرے ۔ لیکن بدقسمتی سے جمہوری حکومت اس علاقہ کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی پارٹیوں کا ملکی مفاد پر متفق نہ ہو نا بھی ہے۔اس علاقے میں بھی فیڈرل کرائم ریگولیشنز کو ختم کر کے باقی ملک کی طرح کا قانون نافذ کیا جانا چاہیے ۔

حالات کا تقاضا ہے کہ ان پختونوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے فوج اور سیاست دانوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ عوامی راہنماؤں کو چاہیے کہ فاٹا کا دورہ کریں، عوام سے مل کر ان کی داد رسی کریں ۔اس علاقہ میں بھی سکول اور دفاتر قائم کئے جائیں جبکہ اداروں کو چاہیے کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کو ممکن بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں ۔

Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164513 views i write what i feel .. View More