اس عنوان کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ مودی جی
کےگجرات میں پھینکنے کو فیکنا کہتے ہیں۔اشوک کی لاٹ اور اس پر بنے شیر
ہندوستان کا قومی نشان ہیں ۔بظاہر یہ تین نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں چار
ہیں ۔ ایک درمیان میں دوسرا دائیں تیسرا بائیں اور چوتھا پیچھے جو دکھائی
نہیں دیتا۔ جمہوری نظام سیاست میں درمیانہ شیر مقننہ ہے اور اس کے دائیں
بائیں عدلیہ اور انتظامیہ پیچھے کی جانب چوتھا ستون یعنی ذرائع ابلاغ ہوتا
ہے۔مرکزی حکومت کی نااہلی کے سبب مقننہ کا شیر فی الحال ایک کنارے کردیاگیا
ہے اور عدلیہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔ وہ آئے دن سرکار کو جلی کٹی
سناتا رہتا ہے۔ ابھی حال میں عآپ ارکان اسمبلی کے معاملے میں حکومت کے
اشارے پر ناچنے والے الیکشن کمیشن کو رسوا ہونا پڑا۔ عدلیہ کا دماغ خراب
کرنے ذمہ داری مرکزی حکومت پر ہے ۔ برسراقتدار بی جے پی کے کارکن اور وکیل
اشونی اپادھیائے بھی اپنی حکومت سے حلالہ اور تعدد ازدواج کے خلاف قانون
وضع کرنے کی درخواست کرنے کے بجائے سپریم کورٹ سےاس کوغیر جمہوری و غیر
قانونی عمل قرار دینے کی دہائی دیتے ہیں ۔
جہاں تک پیچھے چھپے چوتھے شیر کا تعلق ہے وہ ایک زمانے میں واچ ڈاگ ہوا
کرتا تھا ۔ اپنی بھونک سے اتینوں شیروں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو عوام
کے سامنے اجاگر کیا کرتا لیکن آج کل وہ سیاستدانوں کے روٹیوں پر پلتا ہے ۔
کبھی ان کے آگے دم ہلاتا ہے تو کبھی اپنے آقاوں کےتلوے چاٹتا ہے۔
ہندوستان میں پہلےفرضی خبریں آٹے میں نمک کے برابرپرچون میں بنتی تھی لیکن
بی جے پی نے تھوک کا کارخانہ لگوادیا اور اب حقیقی خبروں کی مقدار نمک سے
بھی کم ہوگئی ہے۔فرضی خبروں کےمعاملے میں سب سے زیادہ بدنامی جے این یو کے
ویڈیو کی ہوئی جو سمرتی ایرانی کے دفتر میں بنائی گئی تھی ۔ اس وقت وہ
انسانی وسائل کی وزیر تھیں ۔
اس ویڈیومیں جے این یو کے اندر کنہیا کمار کے مظاہرے کے پیچھے کشمیر میں
لگائے گئے آزادی کے نعروں کو چسپاں کردیا گیا تھا لیکن جب یہی حربہ خود بی
جے پی کے خلاف استعمال ہونے لگا تو اسی سمرتی ایرانی نے اطلاعات و نشریات
کے وزیر کی حیثیت سےاس کو قابو میں کرنے کے لیے ایسا سخت قانون بنایا کہ
مودی جی کے پسینہ چھوٹ گیا۔انہوں نے اس کو فوراً واپس لے لیا ۔ ویسے پردھان
سیوک کو اس بل پر نہیں بلکہ اس کے وقت اور لہجہ پر اعتراض ہے۔ ان کے خیال
میں دلتوں کی بے چینی اور امتحانی پرچوں کے افشاء ہونے کو ذرائع ابلاغ کے
(درست یا غلط )استعمال سے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔
اس جلد بازی کی بظاہردو وجوہات نظر آتی ہیں اول تو سیاست کے تالاب میں
صحافی مگرمچھوں کے ساتھ کھلا پلا کر تو گزارا کیا جاسکتا ہے لیکن ان سے
پنگا لے کر زندہ رہنا مشکل ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی نامی کاغذی شیر کے
لیے ذرائع ابلاغ کی مدد کے بغیر عوام کو ورغلا کر انتخاب جیتنا ناممکن ہے ۔
اس لیے کمال سرعت سے قانون مسترد کیا گیا ۔ کاش کہ ایسا ہی کچھ طلاق ثلاثہ
بل کے ساتھ بھی ہوتا ؟ لیکن ایسی دانشمندی کا مظاہرہ بھلا زعفرانیوں سے
کیونکر ممکن ہے ؟ گھر کے بھیدی اور سابق بی جے پی وزیر اطلاعات و نشریات
ارون شوری خیال ہے صحافیوں کا گلا گھونٹنے والے اور بھی قوانین بنائے جائیں
گے ۔ انہوں نے الزام لگایا ہےکہ سب سے زیادہ فیک نیوز خود حکومت بناتی ہے۔
شوری نہیں مانتے کہ سمرتی نے یہ اقدام وزیراعظم کی توثیق کے بغیر کیا ہوگا
لیکن مودی جی کو اپنی غلطی کا احساس بہت جلد ہوگیا اور حسب سابق مائل بہ
اصلاح ہوگئے ۔
مودی جی کو’ گھوم جاو پردھان سیوک‘ کے لقب سے نوازہ جانا چاہیے اول تو
انہوں کانگریس کی اس تمام مخالفت سے رجوع کرلیا جو وہ حزب اختلاف کے زمانے
میں کیا کرتے تھے لیکن بعد میں اپنے ہی فیصلے بدلنے لگے ۔ نوٹ بندی اور جی
ایس ٹی کے زمانے میں تو فیصلوں کی تبدیلی کا سیلاب آیا ہوا تھا ۔ اس کی
وجہ یہ ہے کہ ناتجربہ کار وزیرخزانہ اور اور وزیراعظم بغیر سوچے سمجھے اوٹ
پٹانگ احکامات صادر کردیا کرتے تھے اور جب منہ کی کھاتے تو اسے بدل دیتے
۔ایسا ہی کچھ فیک نیوز کے معاملے میں بھی ہوا ۔حکومت کی کذب بیانی کی سب سے
بڑی مثال عراق میں داعش کے ہاتھوں مرنے والے ہندوستانیوں کی خبر ہے ۔ ان
چار سالوں میں ۶ مرتبہ وزیر خارجہ سشما سوراج نے پارلیمان کے اندر اور باہر
یقین دہانی کرائی کہ وہ سارے مزدور محفوظ ہیں اور جلد ہی لوٹنے والے ہیں۔
یہاں تک کہ جب ڈی این اے ٹسٹ ہورہا تھا اس وقت بھی وہ جھوٹ بولتی رہیں اور
پھر اچانک اعلان کردیا کہ وہ سب لوگ مرچکے ہیں ۔ یہ خبر مہلوکین کے اہل
خانہ کو براہ راست نہیں دی گئی بلکہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ ملی۔
عراق میں مرنے والوں کے اہل خانہ کا زخم ابھی ہرا ہی تھا کہ ان پر نمک ملنے
کا کام سشما سوراج کے نائب وی کے سنگھ نے کردیا ۔ وہ ان مزدوروں کی باقیات
لے کر موصل سے چندی گڑھ پہنچے تو ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پسماندگان کو
سرکاری امداد دی جائے گی ؟ یہ سن کروہ چراغ پا ہوگئے۔ انہوں نے کہا یہ بسکٹ
بانٹنے کی بات نہیں انسانی زندگی کا سوال ہے۔ میں اپنے ساتھ پٹارہ لے کر
نہیں آیا ہوں جو امداد کا اعلان کردوں ۔ نوکری دیئے جانے پر بھی اسی لب و
لہجے میں بولے یہ فٹ بال کا کھیل نہیں ہے۔ اس کے بعد ہلاک ہونے والوں کے
خاندان والوں کو پروچن سنانے لگے کہ آپ لوگ سیاست چھوڑئیے اور جاکر آخری
رسومات ادا کیجیے۔ سنگھ صاحب یاد رکھیں کہ اس بار انتخاب میں عوام ان کا
انتم سنسکار کرے گی کیونکہ صوبائی حکومت نے پانچ لاکھ کی امداد اورہر
خاندان کے ایک فرد کو ملازمت دینے کا وعدہ کردیا۔ حکومت کے لیے یہ آسمان
سے تارے توڑ کرلانے والی بات نہیں ہے۔
وی کے سنگھ اپنی بدزبانی کے لیے پہلے سے مشہور ہیں ۔ اس سے قبل فریدآباد
میں دودلت نوجوان کی زندہ جلا دیا گیا لیکن جب اس کے بارے میں ان سے
استفسار ہوا تو وہ بولے اگر سڑک پر کسی کتے کو پتھر مارا جائے تو اس کے لیے
بھی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ انہیں تہذیب سکھانے کے لیے بی جے پی
نے نیکر پہنا کر سنگھ کی شاکھا میں بھیجا اور وہاں سے وہ اییت سنسکرتی سیکھ
کر آئے۔ دراصل اس معاملے میں بی جے پی کی ساری رسوائی اس کے اپنے ہاتھوں
کی کمائی ہے۔ یہ سانحہ کانگریس کی حکومت کے دوران ہوا اور بی جے پی کے
اقتدار سنبھالنے کے بعد منظر عام پر آیا ۔ بی جے پی کو چاہیے تھا کہ دروغ
گوئی کا سہارا لینے کے بجائے اس کو تسلیم کرکے یہ کہتی کہ کانگریس حکومت
ہندوستانیوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی مگر ہم کریں گے لیکن ا یہ احمق اس
کی پردہ پوشی کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے گئے اور جب سچ سامنے آیا تو
چاروں خانے چت ہوگئے ۔ اسے دیکھ کر ایسا لگا کہ گویا فیک نیوز کی فیکٹری
میں دھماکہ ہوگیا۔ |