اناﷲ و انا الیہ راجعون۔ابھی یہ پھول جیسے پیارے پیارے
کمسن بچے جنہوں نے خالقِ کائنات کے اُس عظیم، مقدس کلام پاک کوخوش الحانی
کے ساتھ حفظ کرکے اسنادات اورعطائے خلعت ، دستار بندی اور گلپوشی کے ذریعہ
خوشیاں مناہی رہے تھے کہ اُ ن ظالم درندہ صفت وحشی افغان فوجیوں نے ہیلی
کاپٹروں کے ذریعہ فضائی حملہ کرکے مسجد و ہاشمیہ عمریہ نامی مدرسہ کو مذبح
خانہ میں تبدیل کردیا۔ عینی شاہدین کے مطابق مدرسہ اور مسجد میں ہر طرف
خون، انسانی اعضاء اور کٹی پھٹی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ صوبے قندوز کے دشت
ارچی کی مسجد اور مدرسہ میں ان ننھے منے معصوم فارغین حفاظ کرام اور علماء
و فضلاء کا سالانہ جلسہ ہورہا تھا کہ افغان فوج کے ذرائع نے الزام لگایا کہ
یہاں طالبان جنگجو خفیہ میٹنگ کررہے تھے اور تمام مہلوکین طالبان کے جنگجو
تھے۔ افغان وزارت دفاع کے ترجمان کے مطابق حملے میں افغان طالبان کے ’’ریڈ
یونٹ‘‘ اور ’’کوئٹہ شوری کا ضلعی کمانڈر‘‘ بھی شامل تھا۔ جبکہ ذرائع ابلاغ
کے مطابق طالبان اس تقریب میں انکے جنگجو موجود ہونے کی تردید کی ہے ۔ایک
عینی شاہد کے مطابق دن کے 12بجے فضاء میں طیارے پرواز کررہے تھے جس پر بچوں
نے چلانا شروع کردیا کہ’’ وہ بم گرائیں گے تاہم بڑوں نے انہیں تسلی دی اور
کہا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا لیکن پھر ایک ہی لمحے میں مسجد پر بمباری
ہوگئی‘‘۔ دیکھتے ہی دیکھتے آن واحد میں معصوم حفاظ و علماء کے ساتھ انکے
والدین ، سرپرست، دیگرمعصوم بچوں اور عام شہریوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور
کئی زخموں سے تڑپ رہے تھے۔ یہ معصوم ، بے قصور حفاظ و علماء جنکی دستار
بندی اور گلپوشی تو تاقیامت ہوتی رہیگی لیکن ان ظالم اور درندہ صفت افغانی
حکام اور فوج کے خلاف جس طرح عالمی سطح پر مذمت ہونی چاہیے تھی ، کہیں سے
بھی کسی مسلم حکمراں اور نہ عالمی قائدین جو انسانیت کی سلامتی کی فکر کرتے
ہیں اس دردناک واقعہ کو انجام دینے والوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔اگر اس
تقریب میں طالبان کے جنگجو شریک بھی تھے تو یہ ایک ایسی نورانی محفل تھی جس
میں کسی صورت فضائی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے تھی ۔ہم طالبان کی دہشت
گردانہ سرگرمیوں کے سخت مخالف ہیں ۔ طالبان نے جس طرح ماضی میں مسلم اداروں
، شخصتیوں اور معصوم و بے گناہ بچوں کو نشانہ بنایا ہے اس کی مخالفت کرتے
رہے ہیں اور آئندہ بھی اگر طالبان نے ایسی وحشیانہ دہشت گرد حملے کئے تو
اسکی مخالف کرینگے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صدر افغان اشرف غنی لون اور چیف
ایکزیکٹیو عبداﷲ عبداﷲ نے مسجد اور مدرسہ پر فوجی کارروائی پر خاموشی
اختیار کئے ہوئے ہیں ، کیا انہیں نہیں معلوم کہ فارغین حفاظ و علماء کی اس
تقریب کو نشانہ بنانا انکی دنیا و آخرت کی تباہی کا باعث بنے گا ۔اگر واقعی
صدر افغان اشرف غنی لون اور عبداﷲ عبداﷲ مسلمان ہیں توان معصوم حفاظ و علما
کی تقریب کو نشانہ بنانے والے فوجی حکام اور ذمہ داروں کو فوراً معزول کرکے
انہیں سخت سے سخت سزا دیں ورنہ وہ بھی اﷲ کے قہر و غضب کا شکار ہوسکتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان کے ترجمان نے دعوی کیا ہے کہ اس حملے میں
100سے زائد شہر ی بشمول کمسن و معصوم حفاظ و علماء مارے گئے جبکہ زخمیوں کی
تعداد 300سے زائد بتائی جارہی ہے، کیونکہ اس تقریب میں شرکت کرنے والے عام
شہریوں کی تعداد کم وبیش دوہزار بتائی جارہی ہے۔ افغانستان میں تعینات
امریکی فوج کا کہنا ہیکہ قندوز میں ہونے والے حملے میں امریکی فضائیہ شامل
نہیں تھی۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی حکمت عملی کے اعلان کے
بعد سے افغانستان میں فضائی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پشاور ، پاکستان کے
فوجی اسکول پر طالبان نے حملہ کیا تھا تو اس وقت انگریزی پڑھنے لکھنے والے
معصوم بچے(اس واقعہ کے ذمہ دار طالبان بھی ظالم اور واصل جہنم ہونگے)
انسانیت کے لئے معصوم دکھائی دیئے لیکن آج جبکہ افغانستان کے اس مدرسہ میں
پڑھنے والے ننھے منے معصوم شہید شہزادے جنہوں نے کلام اﷲ کو زبانی یاد کرکے
اور قرآن و احادیث کا علم حاصل کرکے اسنادات حاصل کررہے تھے تو ایسے موقع
پر ظلم و بربریت کا شکار کردیئے گئے اس واقعہ پر انسانیت کے علمبردار وں پر
سکوت طاری ہے۔ کاش مسلم حکمراں اس واقعہ کے خلاف افغان حکومت سے جواب طلب
کرتے اور ذمہ دار عہدیداروں کے خلاف فوراً کارروائی کرنے پر دباؤ ڈالتے۰۰۰
افغانستان میں ایک طرف افغان فوج اور امریکی فوج طالبان کے نام پر عام
شہریوں کو نشانہ بناتی ہے تو دوسری جانب طالبان عام شہریوں کوہلاک کرتے
ہیں۔افغانستان میں گذشتہ ماہ مارچ کے دوران تشدد کی کارروائیوں میں 121
شہری ہلاک جبکہ 322 زخمی ہوئے۔ افغان سویلین پراٹیکشن ایڈووکیسی گروپ‘ (سی
پی اے جی) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ مارچ کے دوران
تشدد کی کارروائیوں میں 121 شہری ہلاک جبکہ 322 زخمی ہوئے،مہلک ترین حملہ
21 ؍مارچ کو ہوا جب ایک خودکش بم حملہ آور نے شہریوں کو ہدف بنایا،جو کابل
کے علاقے ’کرت سخی‘ پر ’نوروز‘ کی خوشیاں منا کر واپس ہو رہے تھے،جس میں 33
افراد ہلاک جبکہ 65 زخمی ہوئے،حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی،ایک اور
خودکش حملہ 23؍ مارچ کو جنوبی صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں اس
وقت ہوا تھا جب وہاں کھیلوں کی ایک تقریب جاری تھی،جس میں 14 افراد ہلاک
جبکہ 42 زخمی ہوئے،اس حملے کی کسی گروپ نے ذمے داری قبول نہیں کی۔سی پی اے
جی‘ نے افغان قومی سکیورٹی اور دفاعی افواج پر بھی الزام لگایا کہ 17؍ مارچ
کو مشرقی صوبہ ننگرہار کے ضلع چپرھار میں ایک فوجی کارروائی کے دوران 8شہری
ہلاک ہوئے۔حالیہ دِنوں جاری ہونیوالی ایک رپورٹ میں،انسانی حقوق سے وابستہ
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر نے کہا کہ 10 فی صد کمی کے باوجود شہری
متاثرین جن میں ہلاکتیں اور زخمی دونوں شامل ہیں ان کی 2017ء کے دوران کل
تعداد 10,000 سے بھی زائد ہے۔رپورٹ میں ہلاکتوں کی 65 فیصد تعداد حکومت
مخالف عناصر کی بتائی جاتی ہیں،جبکہ اِن میں سے 20 فیصد حکومت کے حامی
افراد ہیں۔اس طرح دو طرفہ کارروائی میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہورہی ہے ۔
ان دو طرفہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے افغانستان کے عوام جس ڈر و
خوف کے سایہ میں زندگی گزاررہے ہیں اس کا شاید ظالم و جابرحکمرانوں اور
دہشت گردوں کو علم نہیں۔؟
فلسطین کے مسئلہ پر شاہ سلمان اور ٹرمپ کے درمیان بات چیت
فلسطینیوں کا مسئلہیہودی قابضین کی ظلم و بربریت کی وجہ سے طول پکڑتا
جارہاہے اور سمجھا جاتا ہیکہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان بات چیت کا
مسئلہ کسی نہ کسی بہانے طول پکڑتا ہی رہے تاکہ اس سے اسرائیل اپنی طاقت میں
اضافہ کرتے ہوئے مزید فلسطینی علاقوں پر یہودی آبادیاں بساتا رہے۔ سعودی
عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مشرق
وسطیٰ میں امن مساعی کے لئے عالمی کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سعودی
عرب ، فلسطین کی آزاد ریاست کی حیثیت سے حماعت کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق شاہ سلمان نے امریکی صدر سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے مسئلہ
فلسطین اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہاکہ
فلسطین کے حوالے سے سعودی عرب اپنے موقف پر قائم ہے اور وہ یہ کہ ہم
فلسطینیوں کے آزاد ریاست حاصل کرنے کے قانونی حق کی حمایت کرتے ہیں جن کا
دارالحکومت مقبوضہ بیت المقدس ہو۔ شاہ سلمان اور ٹرمپ کے درمیان بات چیت
ایک ایسے وقت ہوئی جب کہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا امریکی
جریدے اٹلانٹک کو دیئے گئے انٹرویوپر تبصرے اور تنقید ہورہی ہے۔ اپنے
انٹرویو میں محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ
اپنی سرزمین پر پرامن طور پر رہے۔ اسی انٹرویو میں محمد بن سلمان نے یہ بھی
کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو یہ حق حاصل ہے کہ
ان کے پاس اپنی سرزمین ہو۔شاہ سلمان نے صدر ٹرمپ سے عراق اور شام میں دہشت
گرد تنظیموں سے جنگ کی اہمیت پر بھی بات چیت کی۔ اس دوران شاہ سلمان نے شام
کے بحران کا حل تلاش کرنے کی ضرورت پربھی زور دیا جبکہ انہوں نے یمن کے
مسئلہ پر وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کو سراہتے ہوئے اس مسئلے کا سیاسی
حل تلاش کرنے اور یمنی عوام کو انسانی امداد کی فراہمی کے لئے سعودی کی
کوششوں پر روشنی ڈالی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہیکہ
سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نیکہا کہ اسرائیلیوں کو اپنی سرزمین پر
رہنے کا حق حاصل ہے۔معمول کے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے امن معاہدے کو
یقینی بنانا ہوگا، دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ
اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ ہے کیونکہ سعودی عرب اب بھی ایک خودمختاد
فلسطینی ریاست کا حامی ہے۔امریکی میگزین دی اٹلانٹک کے ساتھ ایک انٹرویو
میں شہزادہ سلمان بن محمد نے اس متنازع خطے پر اسرائیلی اور فلسطینی دعوؤں
کو برابر قرار دیاہے ۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان فی
الحال کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں
گذشتہ چند سالوں میں بہتری آئی ہے۔دونوں ممالک کی نظر میں ایران دشمن اور
امریکہ اہم اتحادی ملک ہے جبکہ دونوں ممالک کو مسلح اسلامی شدت پسندی سے
بھی خطرہ لاحق ہے۔تاہم دونوں ممالک یعنی سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان
بہتر تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ ہے کیونکہ
سعودی عرب اب بھی ایک خودمختاد فلسطینی ریاست کا حامی ہے۔ان سے جب پوچھا
گیا کہ کیا یہودی لوگوں کو اپنے قدیمی آبائی علاقوں میں کم از کم جزوی طور
پر ایک خودمختار ریاست کا حق ہے تو ان کا کہنا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ
تمام لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک پرامن ریاست میں رہیں۔ان کا مزید
کہنا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو اپنی اپنی زمین
کا حق حاصل ہے۔ مگر ہمیں نارمل تعلقات اور سب کے لیے استحکام کیلئے ایک امن
معاہدے کو یقینی بنانا ہوگا۔2002 سے سعودی عرب ، فلسطینی عرب مسئلے کا
دائمی حل دو ریاستوں پر مبنیکا طرفدار ہے۔مگر اب تک کسی بھی اہم سعودی
شخصیت نے اسرائیل کے وجود کا حق تسلیم نہیں کیا تھا۔اگر شہزادہ سلمان اپنے
والد کے بعد سعودی تخت سنبھالتے ہیں تو وہ اسلام کے دو اہم ترین شہروں کے
محافظ بھی بن جائیں گے۔انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ انھیں اسرائیلیوں
اور فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ رہنے پر کوئی مذہبی اعتراض نہیں جب تک کہ
یروشلم کی مسجد القدس محفوظ ہو۔مبصرین کے خیال میں ریاض اور تہران کے
درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین فاصلے کم کر سکتی
ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہیکہ سعودی عرب ان دنوں ایران کی بڑھتی ہوئی
طاقت کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتاہے اور اس
سلسلہ میں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک طرح سے پہل کرچکے ہیں
اب دیکھنا ہیکہ شہزادہ کی پہل کا اسرائیل کس طرح جواب دیتا ہے جبکہ عالمی
سطح پر اسلامی ممالک جو فلسطین کے مسئلہ پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے
خلاف آواز اٹھاتے رہے ۔ اسرائیل جس طرح بے قصور عام فلسطینیوں کو نشانہ
بناتے ہوئے ظلم و بربریت ڈھاتا ہے اس کے خلاف سوائے بیان بازی کے کچھ نہیں
ہوتا ۔عالمِ اسلام کی جانب سے کروڑوں کی امداد فلسطینی عوام کو دی جاتی ہے
لیکن یہ صحیح طرح سے ان تک پہنچ بھی پاتی ہے یا نہیں اسے دیکھنے والے کوئی
نہیں۰۰۰ |