قندوز کے شہید حفاظ کا لہو رنگ لائے گا

گزشتہ ہفتے افغانستان کے شہر قندوز میں ایک مدرسے میں جاری حفاظ کرام کی دستار بندی کی تقریب پر افغان ہیلی کاپٹروں سے کی گئی شیلنگ سے سو کے قریب ننھے بچے جو کہ حافظ تھے شہید ہوگئے جبکہ چار سو کے قریب افراد زخمی ہیں اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے کیونکہ اس قسم کے واقعات ،کاروائیوں سے کبھی بھی نہ تو افغانسان میں امن ہوگا اور نہ ہی دنیا میں ۔اس عمل کے رد عمل میں اب امریکیوں ،افغان فورسز اور افغانیوں کو طالبان کی جانب سے کسی بھی ممکنہ کاروائی کے لئے عملی طورپر تیار رہنا چاہیئے ۔بدقسمتی سے افغانستان میں موجود 28 ممالک کی نیٹو فورسز طالبان کی جدوجہد آذادی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں وہ فوری طور پر پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام لگا دیتے ہیں ۔ایک طرف تو امریکہ پاکستان سے یہ چاہتا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں اپنا کردار اد ا کرے تاکہ امریکہ اور ا س کی نیٹوفورسز کی افغانستان کی دلدل سے باعزت جان خلاصی ہولیکن دوسری جانب بے قصور ،نہتے مسلمان حفاظ بچوں پر بمباری کرکے وہ خود ہی تمام تر امن کی کوششوں کو سبوتاژ کردیتا ہے ۔افغانستان کا سربراہ اشرف غنی ایک کٹ پتلی حکمران ہے اس کی فوج ،فضائیہ امریکہ کے زیر اثر ،زیر تربیت ہے ۔انہیں جیسا وہ چاہتا ہے استعمال کرتا ہے ۔اگر پشاو رمیں اے پی ایس پر کیے گئے دہشت گردی کے حملے کی مذمت تمام تر ملکی وغیر ملکی میڈیا ،حکومتیں کرسکتی ہیں تو قندوز ،باجوڑ ودیگر مدارس پر حملے بھی قابل مذمت اور دہشت گردی ہیں لیکن اس کا تعین کون کرے ۔میں جب ان معصوم بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھتا ہوں جنہیں قندوز میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو مجھے امت مسلمہ کی بے حسی پر رونا آتا ہے کہ کہاں ہیں مسلمان ممالک ان کے حکمران ان کی 28 ممالک کی فوج ،ہمارے سیاستدان ،میڈیا کیوں سب نے چپ سادھ لی ۔کیوں کہ سب نے مصلحتوں ،مفادات کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ۔آج امت مسلمہ کا خون ارزاں ہوچکا ہے ۔ہماری نااتفاقی ،حب مال ،حوس اقتدار کے باعث ہمیں گاجر مولی کی طرح فلسطین ،کشمیر ،افغانستان ،شام،عراق ،یمن ،مصر ،لیبیا ،برما ،ہندوستان میں شہید کیا جارہا ہے لیکن مجال ہے کہ ماسوائے ترکی کے کسی جانب سے کوئی گرجدار ،ٹھوس امت مسلمہ کے کسی حکمران کی للکار سنائی دی ہو۔آج امت مسلمہ کی جہادی تنظیموں کے ساتھ فلاحی کام کرنے والوں پر پابندی عائد کی جارہی ہے لیکن امریکہ اور اس کی فوج جوکہ عالمگیر دہشت گری پھیلانے کا چیمپئن ہے کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا آج امریکہ کی ظالمانہ کاروائیوں کے باعث دنیا کا امن تباہ ہوگیا ۔دنیا گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ۔قندوز کے واقعہ کے بعد افغانستان اور پاکستان میں افغان ،امریکی حکومتوں کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے ۔افغانی جو کہ ایک غیور قوم ہیں کبھی بھی اپنے معصوم بچوں کی شہادت کو فراموش نہیں کریں گے ۔افغانستان کے صدر اشرف غنی کا کردار نہایت مجرمانہ ہے ۔اس نے جب پاکستان میں بقول اوریا مقبول جان کے جب نقیب اﷲ محسود کے انصاف کے لئے پشتونوں نے لانگ مارچ نکالاتو افغان صدر نے دس منٹ میں ٹویٹر پر ایک طوفان برپا کردیا ۔بے شمار ٹویٹ کرکے اس مسئلہ کو پشتون ورسز پنجاب بنانے کی کوشش کی مگر جب افغان فورسز نے قندوز میں مسجد پر بمباری کرکے سو سے زائد پٹھان بچوں کو شہید کردیا توا س بے حس، غلام انسان کے منہ سے ایک لفظ بھی مذمت کا نہ نکلا جتنی فکر افغان صدر کو پاکستان کے معاملات کی ہے اس کی آدھی اپنے ملک پر لگائے توا چھا ہوگا۔قندوز دستار بندی کے ایک عینی شاہد جس کے گاؤں کے سات بچے اس واقعہ میں شہید ہوئے نے انٹرویو میں بتایا کہ جیسے ہی تقاریر ختم ہوئیں اور دستار بندی کا عمل شروع ہوا تو اچانک فضا میں ہیلی کاپٹر آگئے اور بم برسانا شروع کردیئے ۔معصو م بچے ذبح شدہ مرغیوں کی طرح پھڑپھڑا رہے تھے وہ مکمل طور پر خاک وخون میں نہاگئے ۔ایک ماں جس کے دو بچے حافظ بلا ل ،حافظ بشیر اس تقریب کا حصہ تھے اپنے معصوم پھول جیسے بچوں کا دروازے پر کھڑے انتظار کرتی رہی لیکن اسے بچوں کی لاشوں کا تحفہ ملا۔حیران کن امر یہ ہے کہ ایک ملالہ کے لئے آواز اٹھانے والا دجالی میڈیا ،مغربی ممالک کہاں ہیں ،کہاں ہیں وہ موم بتی والی موٹی آنٹیاں ،کہاں ہیں وہ انسانی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں ،کہاں ہیں پچپن کے قریب اسلامی ممالک اور ان کے پونے دو ارب کے قریب مسلمان ،کہاں ہے واحد اسلامی ایٹمی طاقت بدقسمتی سے ہماری خاموشی ،بزدلی ،دشمن کے حوصلے بلند اور امت مسلمہ کے حوصلے مذید پست کرنے کا موجب بن رہی ہے جس کے باعث کشمیر ،فلسطین ،شام ،افغانستان وغیر ہ میں مسلمانوں کے قتل عام میں مزید تیزی آگئی ہے۔کیونکہ ہماری مساجد ،مدارس ،احیاء اسلام کے سب سے بڑے معاون ومدد گارہیں اس لئے یہود ونصاریٰ اسلام کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے ہماری مسجدوں ،مدارس ،مراکز کے خلاف منظم سازشوں میں مصروف ہیں ۔ان سازشوں کا تدارک ہم اتحاد کی صورت میں رہ کر ہی کرسکتے ہیں ۔اسلام تو رہنے کے لئے ہے اور ایک دن یہ ہر کچے پکے گھر میں پہنچ کر رہے گا لیکن ہم مسلمانوں کو اپنے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہم نے مصلحتوں کی جو چادر اوڑھ رکھی ہے وہ ہمیں کہاں لے کر جارہی ہے ہم نے اگر ظالم کا ہاتھ نہ روکا مظلوم کی مدد نہ کی تو کل کو ہمیں بھی اس دنیا اور آخرت میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔امت مسلمہ کو چاہیئے کہ وہ اس نازک موقع پر جب ہر طرف مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ۔ان کا شیرازہ بکھیرا جارہا ہے ۔انہیں آپس کی جنگ وجدل ،فرقہ واریت ،تفرقہ بازی میں الجھا کر اپنے مکروہ ،مذموم مقاصد حاصل کیے جارہے ہیں ۔ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوجائیں اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور آپس میں تفرقہ بازی سے پرہیز کریں ۔
 

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.