روح کانب اٹھتی ہے ۔ماؤں کی چیخ و پکار ہر طرف تھیں فضاء
ان ماؤ ں کے بین سے گونج رہی تھی سسکیاں آہیں ایک عجب بھیانک منظر میں
تبدیل ہوگئی تھیں۔کچھ دیر پہلے ہی تو خوشی کے پل تھے مدرسہ میں ننھے حافاظِ
قرآن کی دستار بندی کی تقریب ہو رہی تھیں ہاں اس تقریب میں طالبان بھی نئے
حافظوں کے ساتھ موجود تھے۔کہ کچھ ہی دیر میں جیٹ جہازوں اور ہیلی کاپٹروں
نے مدرسہ پر حملہ کردیا اور سو سے زیادہ بچے اپنی پگڑویوں کو اپنا کفن بنا
کر رخصت ہوگئے۔کتنی ہی ماؤں کی کوکھ چلی ۔لیکن دنیا خاموش ہے ۔تعصب کی پٹی
انکھوں پر باندھ کر کوئی خاموش بیٹھا ہے کوئی لفظی احتجاج کررہا ہے کوئی
فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ہم دراصل انتظار کررہے ہیں کہ کب ایسا
بھیانک واقعہ ہمارے ساتھ پیش آتا ہے اور کب ہم اس قیامت سے گزریں گے۔
امریکہ نے دہشت اور سفاکیت کا ارتکاب کرتے ہوئے افغانستان کے صوبہ قندوز کے
شہر دشت ارچی کے دینی مدرسہ پر، جب قرآن شریف حفظ کرنے والے معصوم بچوں کی
دستار بندی کی تقریب ہو رہی تھی، کہ دوران ایک جامع مسجد پر وحشیانہ بمباری
کر کے سیکڑوں حفاظِ قرآن ،دینی طالبعلموں کو شہید کر دیا۔بمباری پٹھان
بازار کے علاقے میں واقع مدرسہ عاشمیہ عمریہ پرکی گئی۔افغان حکومت کے
ترجمان کے مطابق یہ حملہ ٹاپ طالبان کمانڈرز کے لئے تھا اس حملے میں تیس
طالبان فائٹر اور نو کمانڈر مارے گئے ،یہ علاقہ طالبان کا گڑھ تھا اور بم
طالبان ٹرینگ سنٹر پہ برسایاگیا ۔جبکہ الجیزہ کو ڈسٹرکٹ افشیل نے بتایا کہ
حملہ دشت اراچی کے مدرسہ یہ ہوا جو شمالی صوبہ قندوز میں ہے اور اس حملے
میں درجنوں شہری اور بچے جان بحق ہوئے ۔بہت سے بے گناہ لوگ اور حافظ بچے جن
کی عمریں گیارہ بارہ برس تھیں سب کے سب اس خوفناک قیامت کی نظر ہو
گئے۔وزارت دفاع کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے فوجی ہیلی کاپٹروں پر
طیارہ شکن اسلحے سے فائرنگ کی اور بعد میں جان بوجھ کر عام شہریوں پر
گولیاں برسائیں۔اسپتال لائے گئے افراد کے زخموں سے پتا چلتا ہے کہ وہ فضائی
حملے میں زخمی نہیں ہوئے بلکہ انہیں زمین پر گولیاں ماری گئیں۔جبکہ ایک
طالبان ترجمان نے افغان فوج کے دعوے کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ اس
مقام پر طالبان موجود نہیں تھے اور حملے میں نشانہ بننے والے بیشتر افراد
مدرسے کے بچے تھے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق عینی
شاہدین کا کہنا ہے کہ جلسے میں سیکڑوں افراد شریک تھے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں، امریکا نے افغانستان میں کونسی سے جگہ چھوڑی ہے کہ
جس پربمباری نہ کی ہو۔اس وحشیانہ کاروائی پر ہم لب بستہ ہیں ہمارے نزدیک ان
معصوم بچوں کی کیا حثیت کہ ایسے لاوارث تو روز مرتے ہیں۔نہتے افغان بچوں کی
شہادت اس لئے بے معنی ہیں کے انہیں امریکیوں نے مارا ہے ۔ امریکہ کی جی
حضوری کرتے ہوئے افغان ایئر فورسز کی جانب سے کی جانیوالی اس بمباری میں وہ
مدرسہ کسی مذبح کا منظر پیش کر رہا تھا جہاں ہر جانب خون، انسانی اعضا اور
کٹی پھٹی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ جلے ہوئے جسم ،کٹی پھٹی لاشیں ،تصویروں
اور ویڈیوز کی صورت دنیا کے سامنے آتی اور انسانیت کے حامل ہر شخص کے دماغ
میں ُچبھتی رہیں۔مخالفین سے اتنا بھیانک سلوک ،بے خطا شہریوں پر اتنے
ہولناک مظالم ،آخر دنیا کب تک بے حس بنی رہے گی اور نظریں چراتی رہے
گی۔انسانیت کی بھیانک تصویر پیش کرتے افغانی مسلمانوں کے درندہ صفت دشمن
اپنے نوکیلے ناخنوں سے لاشے نوچ لیتے ہیں ۔قندوز مدرسہ پرحملہ دنیا کے امن
اور تعلیم پر حملہ ہے معصوم کلیوں کو کچل کرظلم کی انتہا کر دی
گئی۔افغانستان میں یہ آگ اور خون کا کھیل نجانے کب تک جاری رہے گا۔سنہ 2017
میں اقوام متحدہ نے حکومت کی حامی فوج کی جانب سے کیے جا نے والے فضائی
حملوں میں 631 ہلاکتوں اور زخمیوں کی تصدیق کی تھی۔یہ تعداد 2016 میں سات
فیصد زیادہ ہوئی۔ جس کے بعد اس قسم کے نقصانات میں نو فیصد کمی آئی
ہے۔افغانی کہتے ہیں جب تک امریکی فوجیں ہماری سرزمین سے نہیں نکلتیں جنگ
جاری رہے گی۔امریکہ افغانستا ن میں مکمل طور پر شکست کھا چکا لیکن اس شکست
کو تسلیم کرنا اُس کے لئے مشکل ہے۔امریکہ نے اس ملک میں ہر قسم کا انسانیت
دشمن اسلحہ استعمال کر کے دیکھ لیا۔مگر ان سفاک قوتوں کو اس بہادر قوم کے
سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ دو سال قبل افغان فورسز کی بھاری نفری قندوز صوبے
میں افغان طالبان کے زیر اثر علاقوں میں تعینات کی گئی تھی جس کے بعد سے
طالبان اور سیکورٹی فورسز میں خونریز جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
میر افسر اپنے کالم لکھتے ہیں کہ’’ـ صرف سوشل میڈیا پر تو قندوز کے ظلم کو
خوب اُجاگر کیا گیا۔جہاں تک پاکستانی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا معاملہ
ہے تو اسلامی میڈیا نے تو اس ظلم کی خبر کو مناسب جگہ دی مگر سیکولر
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے اس کو کور نہیں کیا۔ بلکہ پرنٹ میڈیا کے ایک
سکولر اخبار نے تو امریکا کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے ۱۵۰؍ حافاظِ قرآن کی
شہادت کی خبر کو اس طرح لگایا ’’طالبان کمانڈر سمیت ۶۰ ؍افراد ہلاک‘‘
اور یقینا ایساہی ہم نے کون سا مذمتی بیان جاری کردیا،ہم تو فقط امریکہ سے
اپنی ’’پکی دوستی ‘‘ نبھارہے ہیں،وہی دوستی جس میں ہر دو ہفتے بعد ڈومور کی
صدا ہماری حکومت کی نیندیں اُڑا دیتی ہے۔ کیاہم وہ وقت بھول گئے جب ہماری
قوم نے اے پی ایس کے ننھے پھولوں کا ماتم منایا تھا یہ بھی تو معصوم ننھی
کلیاں تھی جنھیں بن کھلے مسل دیا گیا ۔رہی اقوام متحدہ تو اُس نے ایک بار
پھر گھسے پیٹے انداز میں اس سانحہ کے خلاف اپنا مذمتی بیان جاری کیا۔اقوام
متحدہ نے کہا ہے کہ وہ شمالی افغانستان میں طالبان کے زیر قبضہ شہر قندوز
میں افغان فضائیہ کی کارروائی میں شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی
پریشان کن خبروں کی تحقیقات کررہی ہے۔
ان کی یہ پریشانی ہر ظلم کے ڈھائے جانے پر ہوتی ہے ۔اب وہ ظلم کشمیر میں ہو
رہا ہو،شام میں ،فلسطین میں یا جہاں کہیں بھی مسلمان ظلم کی بھٹی میں
جھونکے جارہے ہیں وہاں ،لیکن افسوس صد افسوس اقوامِ متحدہ کہ یہ بیان لفظوں
کی ہیرا پھیری کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہیں۔
امریکہ کی پاکستان سے دشمنی پاک چائنا کوریڈور کے اعلان کے بعد سے ہی کھل
کے سامنے آگئی ہے۔اور اس ضمن میں امریکہ خود آگے آ کر کچھ نہیں کر سکتا تو
اس نے بھارت کو اپنا آشیرباد دے دیا ۔پاکستا ن اب بھی چاہے تو اپنا قومی
تشخص دوبارہ حاصل کر سکتا ہے اور اپنے افغانی بھائیوں کی مدد کر سکتا ہے۔
پاکستان امریکا کی نیٹو سپلائی بند کر کے اس کو اپنے بحری اور زمینی راستے
استعمال نہ کرنے دے۔ بلکہ امریکا سے افغان جنگ کے دوران نیٹو سپلائی کی وجہ
سے ۱۵۰؍ ارب ڈالر کے نقصان کا بھی مطالبہ کرے۔یہ بات بھی غور طلب ہے کہ
امریکی صدر ٹرمپ کی نئی حکمت عملی کے اعلان کے بعد سے افغانستان میں فضائی
حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔امریکہ جو دنیا میں امن کا ٹھیکدار بنے میں کوئی
قصر نہیں رہنا دیتا، جو امن کا ایسا عاشق ہے کہ امن کے نام پر جنگ مسلط
کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا وہی امریکہ جوخود کوانسانی حقو ق کے نعرے
لگانیوالاکہتاہے، جو اس نعرے کی آڑ میں کسی ملک کو ہدف بنالے توتجارتی
پابندیوں سے فضائی حملوں تک سب کچھ کر گزرتا ہے۔اُسی امریکہ نے آج معصوموں
کی جان لے لی۔
سوال یہ ہے کہ کوئی کسی سے زندہ رہنے کا حق کیسے چھین سکتا ہے۔لیکن ننھے
شہزادوں کا خون ناحق بہااور اُن سے اُن کی سانسیں چھین لیں گئی۔یہ وہ معصوم
بچے ہیں جو بلا تقصیر ہی مارے گئے،روزِقیامت اپنے خون کا حساب مانگے
گے۔افغانستان کی زمین خون سے نہا کر اور بھیانک تباہی سے گزر کر ہماری دنیا
کے تضادات ،منافقت اور بے حسی کا پردہ چاکررہی ہے۔جنازے اُٹھائے گئے اور ہم
خاموش رہے۔انصاف اگر بلا تخصیص نا ملا تو یہ قیامت برپا ہوتی رہے گی۔یاد
رکھئے گا کل جب ہمارے اپنے گھروں سے یہ جنازے اُٹھے گے تب بھی دنیا خاموش
تماشائی بنی رہے گی کیوں کے یہ اُن کا مسئلہ نہیں ہوگا جیسے قندوز میں مرنے
والے معصوم بچوں کا مرنا آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔ |