کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کے بہتے خون میں روز بروز
تلاطم آتا جارہاہے ۔ہر روز اخبارات و الیکٹرانک میڈیا میں مذمتی بیانات آتے
ہیں ، ہر روز کہیں نہ کہیں مسلمانوں پر ظلم کے خلاف مظاہرہ ہو رہا ہوتا ہے
، ہر روز پُتلے جلائے جاتے ہیں مگر ظلم ہے کہ بڑھتا چلا جارہا ہے، لہو کی
طغیانی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ۔ جس قدر عالم اسلام کا احتجاج
بڑھتا چلا جارہاہے اس سے زیادہ تیزی سے مسلمانوں کے قتل عام میں اضافہ ہو
رہاہے ۔ گزشتہ چند دنوں میں پہلے اسرائیلی فوجیوں نے اپنی آزادی کے لیے
مارچ کرنے والے فلسطینیوں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے 20فلسطینیوں کو
شہیداور تقریباً 200کو زخمی کر دیا۔پھر اس کے فوراً بعد انڈیا نے بھی
اسرائیل کی پیروی کرتے ہوئے مقبوضہ وادی میں 20کشمیریوں کوشہید کر دیااور
سینکڑوں زخمی ہوئے ۔ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر دنیا بھر میں مسلمانوں نے
مظاہرے کیے ، احتجاجی جلوس نکالے ، پُتلے جائے گئے ، حکومتی سطح پر مذمتی
بیانات داغے گئے ۔ اقوام متحدہ سے تحقیقات کے مطالبے کیے گئے اور ظلم کی اس
طویل اندھیری رات میں بھی بعض نادان مسلمان ، سیاستدان اور حکمران ایسے ہوں
گے جو امریکہ سے ثالثی یا مداخلت کی اُمید لگائے بیٹھے ہوں گے ۔ مگر اگلے
ہی دن امریکی فوج نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے قندوز میں حافظ قرآن بچوں سمیت
150بے گناہ مسلمانوں کو سفاکانہ طریقے سے شہید کر دیا اور سینکڑوں زخمی
ہوئے ۔ قندوز کے اس واقعہ میں شہید اور زخمی ہونے والوں میں کثیر تعداد ان
معصوم بچوں کی تھی جو حفظ قرآن مکمل کرنے کے بعد تقریب دستار بندی میں شرکت
کے لیے اپنے والدین کے ساتھ آئے تھے ۔ ظلم ، سفاکیت اور درندگی کی اس انتہا
سے سب سے بڑا جو پیغام پورے عالم اسلام کو دیا گیا وہ یہی تھا کہ اسلام اور
عالم اسلام کے خلاف امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا کی جو شیطانی تکون وجود میں
آئی تھی وہ اب عملی طور پر متحرک ہو چکی ہے ۔لیکن اس کے باوجود بھی کئی
مسلمان حکمران ایسے ہیں جو امریکہ سے اپنے مسائل کے حل کی اُمید رکھتے ہیں
،کئی عرب ممالک اسرائیل سے پینگھیں بڑھا رہے ہیں اور کئی مسلمان لیڈر ایسے
ہیں جو سلامتی کونسل سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ہو سکتا ہے سلامتی
کونسل تحقیقات کر بھی لے تو کیا ہوگا ؟، کیا ظلم رُک جائے گا ؟ کیا مظلوم
کشمیریوں پر بھارت ظلم کرنا چھوڑ دے گا ؟ کیا فلسطینیوں کو آزادی مل جائے
گی اور کیا افغانستان پر امریکی جارحیت کا باب بند ہو جائے گا ؟
ممکن ہے کچھ لوگ مغرب سے مایوس ہو کر یہ کہتے ہوں کہ مسلمان ممالک کو آپس
میں متحد ہونا چاہیے ، OIC، عرب لیگ وغیرہ کو متحرک کیا جانا چاہیے وغیرہ ۔
لیکن یہ سب کرے گا کون؟ جبکہ حالت یہ ہے کہ اسلام کا مرکز جسے کہتے ہیں وہ
سعودی عرب خود یہود و ہنود کا سب سے بڑا اتحادی بنا ہوا ہے ۔تازہ فلسطینی
شہادتوں پر ولی عہد محمد بن سلیمان نے جو کہا ہے وہ پورے عالم اسلام کی
آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے ۔ اُس نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی طرح
اسرائیلیوں کو بھی اپنی زمین پر رہنے کا حق ہے ۔ جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ
فلسطینیوں کا احتجاج بلا جواز اور بے معنی ہے۔ باالفاظ دیگر محمد بن سلیمان
کے مطابق سارا قصور فلسطینیوں کا ہے جو اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کر
رہے تھے ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں نے معاہدوں کی خلاف وزری کرتے
ہوئے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے ۔اسی طرح کشمیر کے معاملے میں بھی
اکثر مسلمان ممالک کا رویہ یہی ہے ۔ وہ مسئلہ کشمیر کو بھارت کا اندرونی
معاملہ قرار دے کر کنارہ کش ہو جاتے ہیں ۔لے دے کر ایک پاکستان تھا جس کے
پرچم میں لپیٹ کر کشمیر ی اپنے شہداء کو دفناتے ہیں اُس کی مسئلہ کشمیر پر
سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ اُس نے محض خانہ پُری کے لیے کشمیر کمیٹی کے نام
سے ایک نام نہاد ادارہ تو قائم کر رکھا ہے مگر کمیٹی اور فنڈنگ کابنیادی
مقصد مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب پیش رفت کرنا نہیں بلکہ سیاسی ایڈجسٹمنٹ
کرکے حکومتی اتحادیوں کو خوش کرناہے ۔اب رہا افغانستان تو اگر افغان
گورنمنٹ خود امریکہ یا انڈیا کے ساتھ مل کر اپنے شہریوں پر بمباری کرے گی
تو وہاں OIC، عرب لیگ یا دوسرے اسلامی ممالک کیا کریں گے ؟
ہم افغان حکومت کو کٹھ پتلی حکومت کہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک
صدی قبل اسلامی دنیا کو تقسیم کرتے وقت تمام اسلامی ممالک پر جن لوگوں کو
بٹھایا گیا تھا وہ بھی سب کے سب اسی طرح کے کٹھ پتلی ہی تھے ۔صاف لفظوں میں
افغانستان آج جس پراسس سے گزر رہا ہے ایک صدی قبل تمام اسلامی ممالک اسی
پراسس سے گزر چکے ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ آج قندوز میں جب مدرسے پر بمباری
کی جارہی تھی تو عین اُسی دوران پاکستان سے ملالہ یوسفزئی عالمی سطح کے
پروٹوکول میں رخصت ہو رہی تھی۔ عالمی قوتیں ایک طرف ملالہ کی پروموٹر اس
لیے بنی ہوئی ہیں کہ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُس نے بچوں کی تعلیم کے لیے آواز
اُٹھائی تھی لیکن دوسری طرف انہیں قوتوں کو افغانستان میں معصوم بچوں کی
تعلیم گوارا نہ تھی لہٰذا ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فضائی حملہ کر کے 100سے
زائد بچوں کو شہید کر دیا ۔یہ دہرا معیار اُسی ابلیسی ایجنڈے کا ہی تو حصہ
ہے کہ
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرعرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملاکو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
مغرب کو ایسی تعلیم اور ایسے مسلمان گوارا نہیں جو مسلمانوں کو مغربی غلامی
سے نکال کر حقیقی آزادی کی طرف لے جائیں ۔بلکہ اُسے ملالہ یوسفزئی جیسے لوگ
اور ملالہ یوسفزئی والی تعلیم چاہیے جو نام نہاد آزادی کے نام پر مسلمان
معاشروں کو مغرب کی ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھے ۔ امریکہ
افغانستان میں آیا اسی لیے تھا اور وہ تب تک وہاں سے جائے گا نہیں جب تک
وہاں بھی ملالاؤں کی ایک کھیپ تیار نہ ہو جائے ۔ کل یہ ملالائیں جب حکومت
میں ہوں گی( یا ہوں گے) تو لوگ کٹھ پتلی کی اصطلاح بھول جائیں گے اور وہی
نام نہاد آزادی کا جشن منائیں گے جیسے دیگر تمام اسلامی ممالک میں ہر سال
منایا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ آزادی فلسطین اور کشمیر کی
غلامی سے بھی بدتر غلامی ہے ۔ کیونکہ کشمیر اور فلسطین کے لوگ کم از کم
غلامی کی لعنت سے نفرت تو کرتے ہیں جبکہ مغرب کی ذہنی غلامی میں جکڑے ہوئے
یہ لوگ غلامی کا احساس تک کھو بیٹھے ہیں ۔یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ اُمت
مسلمہ میں خون کی بہتی ندیاں دریاؤں میں بدل رہی ہیں ۔ جس دن اُمت میں یہ
احساس دوبارہ بیدار ہو گیا اُس دن نہ یہ کٹھ پتلی رہیں گے ، نہ کسی مسلمان
کا خون بہہ گا اور نہ کشمیر و فلسطین سمیت دنیا بھر کے مسلمان کسی کے غلام
رہیں گے ۔
|