سب لوگ برابر نہیں ہوتے، سب کو ایک جیسا کہنا اچھے لوگوں
کے ساتھ زیادتی اور برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے، لُٹنے والا اور لوٹنے
والا، قاتل اور مقتول، ظالم اور مظلوم نیز دھوکہ دینے والا اور دھوکہ کھانے
والاکبھی بھی برابر نہیں ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بہت ساری غلط باتیں پڑھے لکھے لوگوں کی زبان پر بھی جاری
رہتی ہیں ، جن میں سے ایک یہی بات ہے کہ جی یہاں تو سب لوگ ہی برے اور
فراڈی ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، جہاں بر ے لوگ ہیں وہیں اچھے لوگ
بھی موجود ہیں۔ ہم اچھوں کو بروں کے ساتھ خلط ملط کرکے بروں کی حوصلہ
افزائی کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک کسان کے چھ بیٹے تھے، سب کے سب نمازی اور محنتی، بوڑھے
کسان نے اپنے بڑے بیٹے کو گھر کا سربراہ بنایا اور بقیہ بیٹوں سے اس کی
اطاعت و فرمانبرداری کا کہا، اگلے دن گاؤں کے دکاندار نے سب سے بڑے بیٹے کو
خاندان کا سربراہ بننے پر مبارکباد دی اور دکان پر اپنے ساتھ والی کرسی پر
بٹھایا اور گپ شپ میں اسے سگریٹ کے ایک دو کش بھی لگوائے، دوسرےدن بڑے بیٹے
نے پھر جا کر دکاندار کو سلام کیا اور سگریٹ کے ایک دو کش لگانے کا خود
تقاضا کیا ، تیسرے دن دکاندار نے اسے پورا سگریٹ مفت پلا دیا اور چوتھے دن
اسے کہا کہ اگر تم روزانہ میرے پانچ سگریٹ بکواؤ تو میں تمہیں ایک سگریٹ
مفت پلاؤں گا، جوان نے کچھ دیر سوچا اور اپنی جیب سے پانچ سگریٹ خریدے اور
ایک مفت کا سگریٹ لے کر گھر آگیا، گھر آکر اس نے اپنے بھائیوں کو سگریٹ
کے فوائد پر ایک لیکچر دیا اور وہ پانچ سگریٹ اپنے بھائیوں کو بیچ کر اپنے
پیسے پورے کر لئے۔ بھائی بھی تو بھائی ہونے کے ناطے اپنے بڑے بھائی پر
اندھا اعتماد کرتے تھے، انہوں نے یہی خیال کیا کہ یہ ہمارا بڑا بھائی ہمیں
کوئی غلط چیز تھوڑی لا کر دے گا۔
یہ سلسلہ چل نکلا تو ایک دن دکاندار نے کسان کے بڑے بیٹے سے کہا کہ اگر تم
سونا لاکر مرے پاس بیچو تو تمہارے پانچ بھائیوں کو بھی منافع ہوگا اور
تمہیں بھی پانچ گنا زیادہ منافع دوں گا۔ کسان کے بیٹے نے کہا کہ میرے پاس
تو سونا ہے ہی نہیں، دکاندار نے کہا کہ تمہارے گھر میں سونا موجود ہے ذرا
اپنی ماں سے پوچھو۔
جوان نے گھر آکر بھائیوں سے مشورہ کیا اور ماں سے معلومات لیں تو دکاندار
کی پیشین گوئی بالکل درست ثابت ہوئی، سب بچوں نے مل کر ماں کو سونا بیچنے
پر آمادہ کیا، ماں کا سونا بک گیا اور سب بچوں کو اپنے اپنے حصے کا منافع
بھی بروقت مل گیا ، سب سے بڑا بیٹا تو پانچ گنا منافع ملنے پر پھولے نہیں
سما رہا تھا، اب اس کا دکاندار سے یارانہ اور بھی بڑھ گیا، دکاندار نے ایک
دن اسے سمجھایا کہ ان زمینوں پر کب تک کاشتکاری کرو گے ، یہ زمینیں بیچو
اور پیسے کما کر کوئی کاروبار شروع کرو اور فوراً ارب پتی بن جاؤ، جوان نے
گھر آکر بھائیوں سے مشورہ کیا اور کاروبار کے فوائد پر لیکچر جھاڑا، بوڑھے
ماں باپ کڑھتے رہے لیکن بچوں نے زمینیں بیچ ڈالیں اور پیسے کما لئے، اب
دکاندار نے کہا کہ اتنے پیسوں کا تم کیسے کاروبار کرو گے تمہیں تو کاروبار
کا تجربہ ہی نہیں لہذا یہ پیسے اکٹھے مجھے دے دو میں اپنے کاروبار میں
لگاوں گا اور منافع تم سب بھائیوں کو ملے گا البتہ تمہیں شریکِ درجہ اول
ہونے کی وجہ سے پانچ گنا زیادہ دوں گا۔
جوان نے سر کھجایا ، تھوڑا بہت سوچا اور خوشی خوشی بھائیوں کو دکاندار کے
کاروبار میں شریک ہونے کے منصوبے سے آگاہ کیا، سب نے سابقہ تجربے اور
بھائی کے رشتے پر اعتماد کی وجہ سے ساری رقم بڑے بھائی کے قدموں میں لا کر
رکھ دی۔
اب بڑے بھائی نے وہ رقم اٹھائی اور جاکر دکاندار کی گود میں رکھ دی ،
دکاندار نے بہت گرمجوشی سے جوان کا استقبال کیا اور اسے دودھ پتی پلاکر
رخصت کیا، اگلے چند دنوں میں دکاندار نے اپنا سارا سامان سمیٹا اور وہاں سے
رفوچکر ہوگیا۔
اب عام لوگ تو کسان کے سارے بیٹوں کو ملامت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ
سارے بیوقوف ہیں لیکن اگر غوروفکر سے کام لیاجائے تو دراصل اس سارے مسئلے
کا اصل زمہ دار کسان کا وہ بڑا اور لالچی بیٹا تھا جو کسان کے گھر کا
سربراہ تھا اور جس نے سگریٹ کے ایک کش کے لئے اپنے بھائیوں کے اعتماد کو
بیچ ڈالا تھا۔
آج اسلامی دنیا کا یہی حال ہے، خانہ کعبہ مسلمانوں کاقبلہ ہے، حرمین
شریفین سے امت مسلمہ کا قلبی لگاو ہے، دینی، سیاسی، جغرایافیائی اور منطقی
حوالے سے سعودی عرب مسلمانوں کا بڑا، رہبر اور قائد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
سعودی عرب جو کچھ کرتا ہے دیگر اسلامی ممالک اسے بسرو چشم قبول کرتے ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے سعودی عرب ایک بڑے اسلامی بلاک کا قائد ہے ، اسلامی
دنیا کے اکتالیس ممالک کی فوج سعودی عرب کے پرچم تلے آج بھی متحد ہے ۔
ایسے میں اگر سعودی عرب عالمی سرمایہ داروں اور دکانداروں کے کہنے پر
اسلامی ممالک کو جہادی کلچر میں لپیٹ کر منشیات، ہیروئن، افیون، چرس،
کلاشنکوف اور دہشت گرد سپلائی کرتا ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ سارے اسلامی
ممالک ایک جیسے ہیں بلکہ سعودی عرب کا کردار سب سے منفرد اور جداگانہ ہے ۔
خصوصاً جب سے سعودی شہزادے نہیں میڈیا میں برملا اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے
کہ ہم نے وہابی ازم کو بھی امریکہ و مغرب کے مفاد کے لئے عام کیا ہے اس کے
بعد مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنے اپنے حکمرانوں کو بیدار
کرنا چاہیے کہ وہ سعودی عرب پر اندھا اعتماد کرنے کی وجہ سے کہیں دیگر
اسلامی مناطق سےبھی ہاتھ نہ دھو ڈالیں۔
آج صورتحال ایسی نہیں ہے کہ سب اسلامی ممالک بے حس ہو چکے ہیں، سب لوگ
برابر نہیں ہوتے، سب کو ایک جیسا کہنا اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور برے
لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے، بلکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ اکثر ممالک ایک بڑا
بھائی سمجھتے ہوئے سعودی عرب پر اندھا اعتماد کئےبیٹھے ہیں اور اب مسلمان
دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یاتو اپنی ملتوں اور حکومتوں کو سعودی عرب
کا اصل چہر ہ دکھائیں اور یا پھر اس اندھے اعتماد کی قیمت چکانے کے لئے
تیار رہیں۔
|