فالسی فیکشن ٹیسٹ کے سلسلے میں گیری ملر نے دو بڑی دلچسپ
باتیں لکھی ہیں ۔ لکھتا ہے:
محمدﷺ کا ایک چچا تھا ۔ اس کا نام ابو لہب تھا۔
ابولہب کو حضورﷺسے عداوت تھی ۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد قرآن ، اسلام اور
حضورﷺ کو جھٹلانا تھا۔ وہ محمدﷺ کا پیچھا کیا کرتا تھا ۔ جہاں بھی آپ ﷺ
جاتے تھے، وہ پیچھے پیچھے جاتا۔ آپ ﷺ کی ہر بات کو جھٹلاتا۔ اگر آپ ﷺ کہتے
کہ یہ چیز سفید ہے تو وہ جھٹ بول اٹھتا، نہیں یہ چیز کالی ہے۔ اگر آپ ﷺ
کہتے کہ دن ہے تو وہ کہتا ، نہیں رات ہے ۔قرآن میں ابو لہب کا ذکر بھی آیا
ہےکہ
وہ دوزخ کی آگ میں جلے گا۔ دوزخ کی آگ میں جلنااس کا مقدر ہے ۔ مطلب یہ کہ
وہ کبھی اسلام قبول نہیں کرے گا کافر ہی رہے گا۔
گیری ملر لکھتا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ابو لہب دس سال زندہ رہا۔
اس کے لیے قرآن کو جھٹلانا بہت آسان تھا۔ وہ مسلمانوں سے کہتا دوستو! میں
مسلمان ہونا چاہتا ہوں ، مجھے مسلمان بنا لو۔۔۔ جب وہ مسلمان بنا لیتے تو
کہتا لو بھئی ! تمہارا قرآن جھوٹا ثابت ہوگیا۔ اب بولو۔ لیکن ابو لہب نے
ایسا نہیں کیا حالانکہ اس کی زندگی کا مقصد ہی یہ تھاکہ وہ قرآن کو جھوٹا
ثابت کرے حضور ﷺ کو جھٹلائے۔
گیری ملر ایسی ہی ایک اور مثال دیتا ہے ۔ لکھتا ہے:
قوموں کی حیثیت سے انسانی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتاہے کہ بحیثیت
قوم ،یہودیوں کی نسبت عیسائی مسلمانوں سے بہتر سلوک روا رکھیں گے۔لہٰذا
یہودیوں کے لیے قرآن کو جھٹلانا بڑا آسان کام تھا۔
یہودی مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ۔ ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ۔ انھیں
اپناتے۔۔۔پھر کہتے مسلمانو! تمہارا قرآن غلط ہے۔ چونکہ ہم مسلمانوں سے
عیسائیوں کی نسبت بہتر تعلقات کے حامل ہیں لیکن یہودیوں نے ایسا نہیں کیا ۔
اور لگتاہے کہ مستقبل میں بھی ایسا نہیں کریں گے۔
گیری ملر نے تو بڑی رواداری سے بات کی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کا
مسلمانوں سے جو رویہ ہے وہ قرآن کو جھٹلانے کی بجائے اس کے دعوے کو شدت سے
تقویت دیتاہے۔
قرآن پڑھنے سے پہلے میں حیران ہوا کرتا تھا کہ یہ کیسی کتاب ہے کہ ہر فرقہ
وار اپنے نظریات کے جواز کے لیے قرآن کا حوالہ دیتا ہے حالانکہ ان کے
نظریات مختلف یا متضاد ہوتے ہیں ۔
عقل وشعور کو ماننے والے بھی قرآن کا حوالہ دیتے ہیں ۔ جذبے اور وجدان کو
ماننے والے بھی قرآن کا حوالہ دیتے ہیں ۔ تنگ خیال کٹر مسلمان بھی اپنے
مسلک کا جواز قرآن سے اخذ کرتے ہیں۔ وسعت قلب کو ماننے والے بھی قرآن کو
کوٹ (quote) کرتے ہیں۔
پرانی بات ہے ، ان دنوں میں سرکاری میڈیا کے ایک محکمے میں کام کرتا
تھا۔اوپر سے حکم آتا کہ قرآن سے فلاں بات کے جواز کے لیے آیت تلاش کرو اور
حکومت کے فلاں اقدام کے حق میں سکرپٹ لکھ کر اسے نشر کرو۔ حکم موصول ہونے
پر ہم مولوی صاحب کو بلا بھیجتے جو میڈیا کے سٹاف پر تھے ۔ مولوی صاحب بغیر
کسی تردد کے آیت ڈھونڈ کر مجھے اس کا ترجمہ لکھا دیتے اور میں سکرپٹ لکھ
دیتا۔ان دنوں مجھے کبھی احساس نہ ہوا تھا کہ ہم قرآن کو استعمال کر رہے ہیں
اور لاجک کے اصولوں کی خلاف ورزی کررہے ہیں.premisis سے نتیجہ نہیں نکالتے
بلکہ نتیجہ کے لیے premisis تلاش کرتے ہیں ۔ اسے لاجک میں " کارٹ بی فور دی
ہارس (Cart before the horse)" کہتے ہیں یعنی الٹی گنگا۔۔۔۔
ممتاز مفتی کی کتاب "تلاش " سے اقتباس
|