جانے وطن عزیز پر کس نحوست کا سایہ ہے کہ چہرے تو بد ل
جاتے ہیں۔مگر قسمت نہیں بدل پارہی۔حالات میں فرق نہیں آرہا۔ ایک ایسا دھڑا
قوم پر مسلط ہوچکاجو کسی طور حالات کو پرامن نہیں رکھنا چاہتا۔اسے بد امنی
راس آتی ہے۔خلفشار اور افراتفری سے اس کے مفادات جڑے ہیں۔اور غیر یقینی کے
دور دورے سے ہی اس کا الوسیدھا ہوتاہے۔حالات بدلیں بھی تو کیسے یہ دھڑا ہر
اس شخص اور گروہ کو سپورٹ کرتا ہے جو لاقانونیت کی بقا میں مدد دے۔اسے ہر
اس شخص اور گروہ سے بیر ہے جو یہاں قانون اور ضابطے کی حکمرانی چاہتاہو۔اس
مسلط دھڑے کو پچھلے کچھ عرصے سے مشکلات کا سامنا ہے۔اس کی تدبیریں ناکام
ہورہی ہیں۔اس کے پیادے پٹ رہے ہیں۔اور اسے مطلوبہ نتائج نہیں مل پارہے۔جس
طرح سے جے آئی ٹی سربراہ کی درگت نیب کور ٹ میں بن رہی ہے۔یہ بھی ڈوریاں
ہلانے والوں کے لیے اشتعال انگیزی سے کم نہیں۔خواجہ حارث اور نیب
پراسیکیوٹر کے درمیان شدید تلخی دیکھنے کو ملی۔پراسیکیوٹر کو خواجہ حارث پر
یہ اعتراض تھاکہ وہ جے آئی ٹی سربراہ پر جرح کو طول دے رہے ہیں۔اس طوالت نے
سربراہ جے آئی ٹی سے کئی غلطیاں اگلوائی ہیں۔نیب پراسیکیوٹر کی کوشش ہے کہ
یہ معاملہ مذید طول نہ پکڑے۔نیب وکیل نے خواجہ حارث سے جب یہ کہا کہ وہ
قطری کو کیوں نہیں پیش کرتے تو سابق وزیر اعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ سوال
تو کرنے دیں۔قطری کو بھی بلا لیں گے۔
جے آئی ٹی سربراہ کی بوکھلاہٹیں ملکی منظرنامے کی عکاسی کررہی ہیں۔یوں لگتا
ہے جیسے کچھ گناہ نہ ہونے کے باوجود کچھ لوگوں کو جیل بھجوانے کی خواہش
موجودہے۔یہ طے کرلیا گیاکہ اگلے پانچ سال کچھ لوگوں کو کسی بھی طریقے سے
سیاست سے آؤٹ کرنا ہے۔یہ بھی طے کرلیا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کو کسی بھی
طریقے سے فرنٹ سیٹ پر براجمان کردینا ہے۔یہ فیصلہ اسی دھڑے کا ہے جو پچھلے
ستر سالوں سے پاکستانیوں پر مسلط ہے۔جو یہاں من مانیاں کرنا چاہتاہے۔چاہتا
ہے کہ یہاں صرف وہی کچھ ہو جو وہ چاہے۔جس طرح سے یکا یکی پی پی متحرک ہوئی
ہے۔لگتاہے ایک بار پھر زرداری صاحب کو عہدوں کی بے توقیری کے لیے موقع ملنے
والا ہے۔اب پھر ریاستی عہدوں پر زرداری ٹولہ حکم چلائی کرے گا۔پی پی کی سب
سے بڑی حریف۔بلکہ سوتن تحریک انصا ف ہاتھ پاؤں تو بڑے مار رہی ہے۔مگر بد
قسمتی آڑے آجاتی ہے۔وہ آج بھی وہی کھڑی ہے۔جہاں پانچ سال پہلے تھی۔بلکہ اگر
کہا جائے کہ وہ اس پوزیشن سے بھی پیچھے چلی گئی تو بے جانہ ہوگا۔پانچ سال
پہلے عام آدمی عمران خاں سے امیدیں جوڑے بیٹھا تھا۔اسے مسیحا اور نجات
دہندہ تصور کیا جارہاتھا۔موجودہ پانچ سال مسیحا اور نجات دہندہ کا ٹائٹل
چھین کر لے گئے۔اب مقبولیت میڈیا میں تو بہت ہے۔مگر عام آدمی لاحول
پڑھتاگھروں کا رخ کررہا ہے۔ایک جہاں کا گند سمیٹے خاں صاحب ملک میں احتساب
اور درستگی لانے کی بات کریں گے تو یقین کرنا کیوں کر آسان ہوگا۔
جے آئی ٹی سربراہ کی نے انتہا احتیاط کے باوجود جو فاش غلطیاں اعتراف کی
جارہی ہیں۔اس سے سابق وزیر اعظم نوازشریف کا بیانیہ مضبوط ہورہا ہے۔ اپنے
خلاف متعصبانہ رویہ رکھے جانے کاواویلا کرتے رہے ہیں۔انہیں احتساب کے نام
پر اپنے خلاف انتقامی کاروائیاں کی جانے کا گلہ ہے۔وقت ثابت کررہا ہے کہ ان
کی شکایت بلا وجہ نہ تھی۔ نیب کورٹ میں آج وہ منظر نامہ بن رہاہے جو سابق
وزیر اعظم کے لیے آسانیاں بنا سکتاہے۔نیب میں چلنے والے تمام ریفرنسز جے
آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں۔جے آئی ٹی سرپراہ کی طرف سے سابق
وزیر اعظم کے لندن فلیٹ، آف شور کمپنیوں اور دییگر کئی معاملات میں قصور
وار نہ ہونے کا اعتراف کیا جاچکا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہہ دینا کہ نوازشریف
کی تنخواہ وصولی ؎ ثابت نہیں ہوپائی بہت بڑی پیش رفت ہے۔یہ اعتراف گیم
چینجر بن سکتاہے۔۔عدالت عظمی ٰاسی تنخواہ کو چھپانے پر ایک منتخب وزیر اعظم
کو نااہل کرکے اقتدار سے فارغ کرچکی۔اگر جے آئی ٹی کے سربراہ بھی کہہ دیں
کے تنخواہ لینا ثابت نہیں ہوا۔تو پھر سابق وزیر اعظم کا وہ بیان درست سمجھا
جاسکتاہے کہ جب تنخواہ لی ہی نہیں تو ظاہر کیا کرتا۔نوازشریف کو احتساب کے
نام پر زبردست ذہنی اذیت سے دوچار کیا جارہا ہے۔مطلب کسی نہ کسی طریقہ سے
ان سے سرنڈر کروانا ہے۔سابق وزیر اعظم اپنی بے پناہ ہمت کے سبب ڈٹے ہوئے
ہیں۔ان کی اپیلیں جن کے منظور ہونے سے انہیں قانونی معاملا ت میں کچھ
آسانیاں مل سکتی تھی۔ایک ایک کرکے سبھی مسترد کردی گئیں۔حتی کہ پچھلے دنوں
جب ان کی زوجہ محترمہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھیں۔انہوں نے عیادت کے
لیے جانا تھا۔ان کی کچھ دنوں کی پیشی سے رخصت کی درخواست بھی مسترد کردی
گئی۔نیب کورٹ میں معاملات سابق ویزاعظم کے حق میں جارہے ہیں۔ان کے خلاف کچھ
مواد ڈھونڈنے کے لیے دوبارہ لی گئی مہلت بھی تھوڑی بچی ہے۔مگرنیب کورٹ میں
ریفرنسز کا جو حشر ہورہا ہے۔اس سے یہی لگ رہا ہے کہ نوازشریف کو نشان عبرت
بنانے کا یہ بندوبست بھی آد ھا ادھورہ ثابت ہواہے۔ |