نااہل قرار دئے گئے سابق وزیر اعظم کی پارٹی کی حکومت نے
جانے سے قبل ٹیکس چوروں کو مکمل تحفظ دینے کے اقدامات شروع کردیے ہیں،
اورماہرین اقتصادیات کادعویٰ ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے جو ٹیکس
ایمنسٹی متعارف کرائی ہے اس کامقصد بھی ملک کی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل
کرنے والوں کو یہ لوٹی ہوئی دولت معمولی سا ٹیکس اداکرکے وطن واپس لاکر اسے
قانونی شکل دینے کاموقع دینا ہے۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا پریس
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہناتھا کہ ٹیکس گزاروں کی محدود تعداد معاشی
مسائل پیدا کر رہی ہے اور ٹیکس ادا نہ کرنے سے قومی خزانے پر اضافی بوجھ
پڑتا ہے تاہم اس پیکج سے انکم ٹیکس کے دائرہ کار میں اضافہ ہوگا،ٹیکس ادا
کرنا پوری دنیا میں شہریوں کا سب سے بڑا ذمہ ہوتا ہے، جن افراد کی تنخواہ
زیادہ ہوتی ہے وہ ٹیکس زیادہ اور جن کی کم ہو ان سے کم ٹیکس لیا جا تا ہے
لیکن بدقسمتی سے 12 فیصدسے کم لوگوں نے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کیے جبکہ انکم
ٹیکس ادا نہ کرنا قومی جرم ہے۔انہوں نے کہا کہ مجبوراً ٹیکس ریفارمز کی
ضرورت تھی,انکم ٹیکس ریٹ کو بھی آسان بنانے کی ضرورت تھی,ڈائریکٹ ٹیکسٹیشن
نہ ہو تو اِن ڈائریکٹ کرنی پڑتی ہے,ملک بھر میں صرف 7 لاکھ لوگ ٹیکس ادا
کرتے ہیں،ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لئے حکومت نے انکم ٹیکس کی شرح کو کم کرنے
کا فیصلہ کیا ہے تاہم ٹیکس کی شرح کو مرحلہ وار کم کیا جائے گا۔انہوں نے
کہا کہ 12 لاکھ سالانہ آمدن والے شہری انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے،12 سے
24 لاکھ روپے سالانہ آمدن والوں پر 5 فیصد ٹیکس عائد ہوگا، 24 سے 48 لاکھ
سالانہ آمدن پر 10 فیصد ٹیکس ہوگا جبکہ 48 لاکھ سے زائد سالانہ آمدن پر 15
فیصد ٹیکس ہوگا،ٹیکس ایمنسٹی کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں
لانا ہے،جن لوگوں کے اثاثے بیرون ملک ہیں وہ 2 فیصد جرمانہ ادا کر کے
ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ،لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس نیٹ
میں شامل کرنے کے لئے انکم ٹیکس کے حوالے سے پیکج جاری کرنے کا فیصلہ کیا
گیا۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ یہ ایمنسٹی سکیم کسی ایک
پاکستانی کے لیے نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو پاکستانی شناختی کارڈ رکھتا ہے وہ
اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے،سکیم کا مقصد لوگوں کو ٹیکس کے دائرہ کار
میں لانا ہے، تاہم سیاسی لوگ اور ان کے زیر کفالت افراد فائدہ نہیں اٹھا
سکیں گے اور نہ ہی وہ ایمنسٹی سکیم کا حصہ ہیں،ایمنسٹی سکیم کو صدارتی حکم
نامے کے ذریعے متعارف کرایا جا رہا ہے اور آج سے لیکر 30 جون تک اس سکیم سے
فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولیوں کے لئے ٹیکنالوجی کا
استعمال ہوگا،ملک میں 12 کروڑ افراد قومی شناختی کارڈ ہولڈرز ہیں،اب ہر
شہری کے شناختی کارڈ کا نمبر ہی اس کا آئندہ ٹیکس نمبر ہوگا،جو لوگ ٹیکس
ادا نہیں کرتے ان کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں ،جوبھی ایمنسٹی سکیم حاصل
کرے گا وہ ٹیکس دہندہ ہوگا ، تواتر سے بیرون ملک سفر کرنے والے افراد ٹیکس
ادا نہیں کرتے حالانکہ ہر شہری کو اپنی استطاعت کے مطابق ٹیکس لازمی ادا
کرنا چاہئے،جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کریں گے ان کے خلاف ڈیٹا بیس استعمال کیا
جائے گا اور ٹیکس نادہندہان کے خلاف کارروائی بھی ہو گی۔
ملک کے تجارتی حلقوں نے وزیر اعظم کی اس سکیم کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ
حکومت کا یہ اقدام تو درست ہے مگر اس اقدام سے جو رقم قومی خزانے میں آئے
گی اس سے معیشت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ،ان کا کہنا ہے کہ یہ سکیم ترقی
پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں کئی بار متعارف کروائی جا چکی ہے تاہم ان
ممالک میں وصولی کی جو شرح طے کی جاتی ہے وہ 40سے 50یا 60فیصد ہوتی ہے جس
کے باعث ان ممالک میں اس سکیم کے تحت جو رقم وصول ہوتی ہے اس کے اثرات ان
کی معیشت پر پڑتے ہیں ہمارے ہمسائیہ ملک بھارت میں بھی جب مودی اقتدار میں
آیا تو اس نے بھی یہ سکیم متعارف کروائی تھی ،مگر اس کی وصولی کی شراح
40فیصد تھی ،اس طرح سری لنکا کی حکومت نے بھی یہ سکیم متعارف کروائی انہوں
نے بھی 50فیصد کی شراح سے رقم وصول کی تھی اس طرح یورپین ممالک بھی 47سے
60فیصد تک کی شراح سے وصولیاں کرتے ہیں۔پاکستان کے وزیر اعظم نے جو 2سے
5فیصد تک کی شراح سے رقم رکھی ہے وہ درست نہیں ہے اگر حکومت نے اپنے پیاروں
کو نوازنا ہی ہے تو عام معافی کا اعلان کر دیں اور کرپشن یا نا جائز ذرائع
سے دولت کمانے کا جائز قرار دے دیں۔
اس ٹیکس ایمنسٹی کے حوالے سے جو ردعمل سامنے آئے ہیں،او آئی سی سی آئی کے
سیکریٹری جنرل کا ردعمل زیادہ اہمیت رکھتاہے انہوں نے ایک حکومت کو ایک خط
لکھ کر بتایا ہے کہ وہ ایمنیسٹی کے ساتھ کن بنیادوں پر اختلاف رکھتے ہیں۔ان
کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ سے ٹیکسز دیتے آرہے ہیں اور اس ایمنسٹی کے ذریعے
آپ ٹیکسز نہ دینے والوں کو کلین چٹ دے رہے ہیں۔انہوں نے نشاندہی کی کہ
حکومت کی جانب سے جمع کیے گئے ٹیکس ریوینیو میں او آئی سی سی آئی اراکین
ایک تہائی حصہ دیتے ہیں اور انہیں اس اسکیم میں کوئی فائدہ نہیں دیا جارہا
جبکہ انکم ٹیکس ریٹس میں سے کٹوتی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ایک
گھمانے والا اقدام ہے۔انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا
اعلان آج کیوں کیا گیا اور اس کا ایمنسٹی کے ساتھ کیا تعلق ہے، اس کے اعلان
کے وقت کاانتخاب سمجھ سے باہرہے‘۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران
خان نے بھی نئی ایمنسٹی اسکیم کو وزیراعظم کی جانب سے مجرموں کو بچانے کی
بھونڈی کوشش قراردیا ہے، انھوں نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ حکومت کی مدت
کے خاتمے سے 45 اور بجٹ سے محض 14 دن قبل وزیراعظم کو اس اسکیم کی کیا
ضرورت پیش آگئی، یہ اسکیم دیانتدار لوگوں پر ٹیکس اور دیانتدار ٹیکس گزاروں
کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے اعلان
کردہ ایمنسٹی اسکیم کے بارے میں ان تبصروں یاردعمل سے اس اسکیم کی اصلیت
کھل کرسامنے آگئی ہے، ٹیکس چوروں اورملکی دولت لوٹنے والوں کوقانون کی گرفت
میں آنے سے بچانے کے حوالے سے موجودہ حکمراں پارٹی کایہ پہلی کوشش نہیں ہے
بلکہ اس سے قبل حکومت دولت کے گوشواروں میں تبدیلی کرکے ٹیکس چوروں کوبچانے
کے لیے دولت کے گوشواروں میں بھی تبدیلی کرچکی ہے ، اس تبدیلی کے تحت اب
ٹیکس دہندگان کے لیے اپنے آف شور اثاثوں کو ظاہر کرنا ضروری نہیں ہے۔اس
مقصد کے لیے حکومت نے پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر موجود اثاثے
ظاہر کرنے کے خانے علیحدہ کردئے گئے ہیں،اور آف شور اثاثوں کو ظاہر کرنے کو
صوابدیدی کردیاگیاہے یعنی اگر آپ چاہیں تو اس کو ظاہرکردیں ورنہ آپ کی
مرضی،ظاہر ہے کہ اس سہولت کے ہوتے ہوئے کون اپنے آف شور اثاثے ظاہر کرے گا۔
اطلاعات کے مطابق موجودہ حکومت نے اثاثوں اوردولت کے گوشواروں میں یہ
تبدیلی ایف بی آر کے ذریعے کرائی ہے۔ایف بی آر کے اندرونی ذرائع کاکہنا ہے
کہ اس تبدیلی سے پاکستان کے کم از کم ایک کاروباری خاندان کو جس کانام
پانامہ پیپرز میں آچکاہے فائدہ پہنچے گا جس نے اپنی دولت کے گوشوراروں میں
اطلاعات کے مطابق اپنی دولت کااظہار انتہائی مبہم انداز میں کیاہے اور اپنے
دولت کے گوشواروں میں اپنے آف شور اثاثوں کی اصل تفصیلات ظاہر نہیں کی ہیں۔
ایف بی آر کے قانون کے تحت تمام ٹیکس دہندگان کو ہر سال ٹیکس گوشواروں کے
ساتھ اپنی دولت کاگوشوارہ پیش کرنا پڑتاہے اس حوالے سے ایک مقررہ فارم
موجود ہے اور انکم ٹیکس کے قوانین مجریہ 2002 کے چیپٹرXIX میں ایک الگ خانہ
موجود ہے۔ اس پرانے فارم کے تحت جس میں اب ترمیم کی جاچکی ہے،ٹیکس دہندہ یا
گوشوارہ داخل کرانے والے کے لیے پاکستان کے باہر موجود اپنے تمام اثاثوں کو
تفصیل اوروضاحت کے ساتھ ظاہر کرنا پڑتا تھا، پرانے فارم کے مطابق گوشوارے
داخل کرانے والے کو اپنے بیرون ملک قابل منتقلی اورناقابل منتقلی اثاثوں کی
پوری تفصیلات ظاہر کرنا پڑتی تھیں۔اس فارم میں 15 نمبر کے خانے میں ٹیکس
دہندگان کو اندرون ملک اور بیرون ملک اپنے ہر طرح کے اثاثوں کی مجموعی
مالیت بھی ظاہر کرنا پڑتی تھی۔جس کی وجہ سے موجودہ صورت حال میں جبکہ پوری
دنیا میں منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے خلاف اقتصادی تعاون اور ترقی کی
تنظیم کے زیر اہتمام چلنے والی مہم کے سبب ٹیکس دہندگان کو اپنی دولت
چھپانا مشکل ہوگیاتھا۔
اب ایف بی آر نے نئے فارم میں سیریل نمبر15 میں تبدیلی کردی ہے جس کی وجہ
سے اب ٹیکس دہندگان کو صرف پاکستان میں موجود اثاثوں کی مالیت ظاہر کرنا
لازمی ہے بیرون ملک ان کی جائیدادوں اوراثاثے ظاہر کرنا ان کے لیے ضروری
نہیں رہا۔نئے فارم میں سیریل نمبر16 کااضافہ کیاگیا ہے جس کا عنوان ہے
بیرون ملک موجود اثاثے،اس کے تحت اب ٹیکس دہندہ اپنے بیرون ملک اثاثوں کی
تفصیلات ظاہر کرنے کے بجائے ان کی کوئی بھی من پسند مالیت ظاہر کرسکتاہے،اب
اسے اپنی پراپرٹی اوراثاثوں کی تفصیلات اور نوعیت یہاں تک یہ بھی ظاہر کرنا
ضروری نہیں رہا کہ یہ اثاثے یا پراپرٹی کہاں ہے۔ٹیکس دہندہ کو اب بیرون ملک
اپنے اثاثوں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ایف بی آر کے سینئر حکام
خود بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بیرون ملک جائیدادوں اوراثاثوں کی مکمل
تفصیلات ظاہر نہ کرنے کی شرط نہ ہونے کاناجائز فائدہ اٹھایاجاسکتاہے۔
سپریم کورٹ پاکستان کے سینئر وکیل ڈاکٹر اکرام الحق نے اخبار نویسوں سے بات
چیت کرتے ہوئے بجا طورپرخیال ظاہر کیاتھا کہ ایف بی آر کی جانب سے بیرون
ملک اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنے کی شرط حذف کیے جانے سے ظاہر ہوتاہے کہ
ایف بی آر نے مبینہ طورپر موجودہ حکومت کے اشارے پر جان بوجھ کر یہ تبدیلی
کی ہے اور اس کامقصدبیرون ملک اپنے اثاثے چھپانے والوں کوسہولت پہنچانا اور
گرفت میں آنے سے بچانا ہے۔ڈاکٹر اکرام الحق کا کہناتھا کہ بیرون ملک اور
اندرون ملک اثاثے ظاہر کرنے کی شرط ایک جیسی ہی ہونی چاہئے اور اس حوالے سے
کسی طرح کابھی امتیاز کرپشن کے دروازے کھولنے اور ملک کی دولت لوٹ کر بیرون
ملک جمع کرنے والے بااثر ٹیکس چوروں کوتحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
ایف بی آر کے پرانے طریقہ کار کے تحت کوئی بھی ٹیکس دہندہ اپنے اندرون ملک
اور بیرون ملک تمام اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کیے بغیر گوشوارے جمع ہی نہیں
کراسکتا تھا اور اس کے لیے یہ لازم تھا کہ وہ بیرون ملک اپنے اثاثوں کی
مالیت اوران کی تفصیلات ظاہر کرے،ایف بی آر حکام کاکہناہے کہ مختلف حلقوں
کااستدلال ہے کہ حکومت پاکستان کو صرف ان ہی اثاثوں کی تفصیل مانگنے
کااختیار ہے جو پاکستان میں پیدا کیے یا بنائے گئے ہیں ، بیرون ملک موجود
اثاثوں کی تفصیلات معلوم کرنا متعلقہ ملک کے ٹیکس حکام کاکام ہے جہاں ٹیکس
کی چوری اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔نئے فارم کے تحت ایف بی آر
میں جمع کرائے گئے غیر ملکی اثاثوں کے مبہم اعلان کی وجہ سے اگر اب ایف بی
آر کو اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم جیسے کسی تیسرے ذریعے سے اگر کسی کے
بیرون ملک اثاثوں کے بارے میں کوئی تفصیل ملتی بھی ہے تو ایف بی آر متعلقہ
فرد یا ادارے کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کرنے سے قاصر ہوگا کیونکہ نئے
گوشوارے میں غیر ملکی اثاثوں کی تفصیلات کی عدم موجودگی کے سبب یہ ثابت
کرنا کم وبیش ناممکن ہوگا کہ متعلقہ فرد نے کون سے اثاثے ظاہر نہیں کیے ہیں
اس طرح تیسرے ذریعے سے ملنے والی اطلاعات کے باوجود متعلقہ فرد یا ادارہ
کسی بھی طرح کی کارروائی سے بچا رہے گا۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ تبدیلی
ٹیکس چوروں اور لٹیروں کو تحفظ دینے کے لیے دانستہ طورپر کی گئی ہے۔ |