شکریہ ایک ایسا لفظ ہے جو ہر اس کے لئے استعمال ہوتا ہے
جو کوئی اچھا کارنامہ سر انجام دیں. مگر بدقسمی سے میرے وطن عزیز میں اس
لفظ کو بھی صرف طاقتور کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. کبھی شکریہ راحیل شریف
تو کبھی شکریہ ثاقب نثار. مگر میں نے آج تک یہ لفظ کسی سیاستدان کے ساتھ
نہیں دیکھا، بھلے وہ کوئی اچھا کارنامہ ہی کیوں نہ کریں. بلکہ ادھر تو
سیاستدان کو طرح طرح کے ناموں سے پکارا جاتا ہے. کوئی مسٹر ۱۰% ہے تو کوئی
مولانا ڈیزل، کوئی چور ہے تو کوئی طالبان ہے. اور یہ یہی سیاستدان ہی ہوتے
ہے جو ایک دوسرے کو بدنام کرتے ہیں اور بعد میں کوئی اور اس کا فائدہ اٹھا
لیتے ہے. مگر میرے قلم نے آج جرأت کرکے شکریہ کا لفظ ایک سیاستدان شخصیت کے
لئے استعمال کیا ہے. وہ شخصیت بے نظیر بھٹو کی ہے.
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں بھٹو
خاندان نے دی ہیں اور ٹھیک بھی ہے بھلا جان سے بڑی قربانی کیا ہو سکتی ہے.
مگر بےنظیر بھٹو نے جمہوریت کے لئے وہ کام کیا جو پاکستانی سیاسی تاریخ میں
بھرسوں یاد رکھا جائیگا. اور اس کی سزا اسے موت کی شکل میں ملی.
پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ۱۹۷۱ تک ہمیں ایسا کوئی سیاسی لیڈر
نظر نہیں آتا جو ملک کی بھاگ دوڑ اکیلے سنبھال سکتا ہوں. ہم نے 24 سالوں
میں ایک بھی لیڈر پیدا نہیں کیا سوائے ذولفقار علی بھٹو کے.اس میں غلطی
زیادہ تر ہماری اسٹبلشمنٹ کی ہی تھی کیونکہ وہ ان سیاستدانوں کو ایک دوسرے
کے خلاف استعمال کرتے تھے اور اس خد تک ایک دوسرے کے خلاف ہوجاتے تھے کہ
آرمی کو بہانہ مل جاتا تھا کہ یہ تو خکومت نہیں چلا سکتے اور مارشل لاء
نافذ ہو جاتا تھا اوت جمہوریت کے بغیر لیڈر پیدا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے.پھر
یہی ڈکٹیٹر اپنے من پسند اور وفادار سیاستدان کو اپنی خکومت میں رکھ لیتے
تھے اور جو مارشل لاء کے خلاف ہوتا تھا تو ان کی جگہ یا تو اڈیالہ جیل ہوتی
یا باہر کے ممالک. پھر یہی سیاسی لوگ باہر بیٹھ کر کسی سبز بہار کا انتظار
کرتے تھے کہ کب مارشل لاء ختم ہوگا اور ہمیں ملک آنے کی اجازت ملے گی. جب
مارشل لاء ختم ہوجاتا تھا اور ان سیاستدانوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل
جاتی تھی تو خکومت میں آنے کے بعد اپوزیشن اور خکومت پارٹی وہی پرانا راستہ
اختیار کرلیتی. ایک دوسرے کے خلاف نئے سر سے جنگ شروع کر لیتے. میڈیا پہ ھر
ٹائم صرف خکومت اور اپوزیشن کی جنگ لگی رہتی. اور اوپر بیھٹا امپائر یہ جنگ
گرم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا تھا اور حسب معمول موقع دیکھ کر مارشل
لاء لگا لیتا اور لوگ بھی اتنا مزاخمت نہیں کرتے تھے کیونکہ لوگوں کی نظروں
میں جمہوری خکومت کو اتنا بدنام کیا جاتا تھا کہ لوگوں کا بھروسہ ان سے اٹھ
جاتا تھا. ایسی صورتحال میں آرمی ہی ملک کی بھاگ دھوڑ سنبھالنے لے لئے
آجاتی ہے. میرے محبوب ضیاء الحق کے دور میں تو جمہوریت ایک گالی بن گئی تھی.
ضیاء الحق کے مارشل کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی خقیقی معنوں میں ملک میں
جمہوریت لانے کے لئے کوشاں تھی مگر اسٹبلشمنٹ کی مخالفت اور آرمی کا دائیاں
بازو نواز شریف جمہوریت کے راستے میں روکاوٹ بنتےتھے. بےنظیر بھٹو کو خکومت
چلانے ہی نہیں دیا. جب نواز شریف خکومت میں آیا تو بےنظیر بھٹو نے بھی نواز
شریف کا راستہ اختیار کیا اور انتقامی اپوزیشن سے پر عمل پیرا ہوئی. اور یہ
سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور آخر کار وہی ہوا جو ہونا تھا، ایک اور مارشل
لاء مشرف صاخب کا.
مشرف کے مارشل لاء سے دو کام ہوے. ایک تو نواز شریف کو اپنے ہی آستین کے
سانپ نے ڈھس لیا، اس سانپ نے جس کو اس نے کسی اور کو ڈھسنے کے لئے رکھا تھا.
دوسرا امریکہ کا war on terror میں ساتھی بننا، اور ملک کو امریکہ کے خوالے
کرنا. یہی وہ وقت تھا جب بےنظیر بھٹو نے اس مسئلے کا حل نکال لیا. کہ اب
واقت آگیا ہے کہ ان مارشل لاوؤں کو روکا جائے اور یہ بہترین وقت تھا کونکہ
نواز شریف بھی اب آرمی کے خلاف ھوگیا تھا اور بےنظیر کو ایک سپورٹ حاصل
ہوگئی. دوسرا ملک کو امریکہ اور مشفف کے رحم کرم پر چھوڑنا بےنظیر بھٹو کو
گنوارا نہ تھا.
ایک تو ہماری قسمت اچھی تھی کہ ہمیں پہلی بار ایک ایسی سیاستدان ملی جس نے
دنیا کی بہترین یونیورسٹی اکسفورڈ سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کی ڈگری
خاصل کی تھی. سیاست کو سمجھی تھی اور دنیا کی بہترین جمہوری ماڈلز(امریکہ
اور برطانیہ) میں جمہوریت پر کام کیا تھا. بڑے بڑے سکالرز سے ملی تھی اور
پاکستان میں جمہوریت کے راستے میں مسائل کو سمجھی تھی. اس کی نظر میں
جمہوریت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مارشل لائیں تھیں اور ان مارشل لاوؤں
کا سبب اپوزیشن کا خکومت کے خلاف بلا وجہ مخالف پروپیگنڈا اور ھر وقت خکومت
کو گرانے کی تیاریاں جس کا فائدہ کوئی اور لے لیتاتھا. اس کا حل بےنظیر
بھٹو نے میثاقِ جمہوریت (Charter of Democracy) کی صورت میں نکال دیا.
میثاقِ جمہوریت Charter of Democracy پر 2006 کو لندن میں پاکستان کی دو
بڑی سیاسی پارٹیوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان
معاہدہ طے ہوا. اور یہی بےنظیر بھٹو تھی جس نے نواز شریف کو اس معاہدہ کے
لئے راضی کیا. اس معاہدہ میں یہ طے پایا گیا کہ اپوزیشن اور خکومتی پارٹی
ملکر جمہوریت کے لئے کام کریگی. اگر ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ ہوا تو
اپوزیشن خکومت کا ساتھ دیگی نہ کہ جمہوریت مخالف قوتوں کا. دوسرا الیکشن کے
بعد جس صوبے میں جس پارٹی کی اکثریت ہوگی، اس صوبے میں اس اکثریتی پارٹی کو
خکومت بنانے دی جائیگی اور اپوزیشن پارٹیاں اس کے خلاف اتحاد نہیں بنائیگی.
تیسری بات اس میں یہ تھی کہ ملک کی مشترکہ مفاد کی خاطر سب پارٹیوں کو ایک
ہونا ہوگا چاہے وہ کسی ایک پارٹی کے نظریہ کہ خلاف ہی کیوں نہ ہو.
میثاقِ جمہوریت (Charter of Democracy) پر تاہم اس طرح عمل نہ ہونے پایا جس
طرع تھیوری(Theory) میں تھا مگر جو تھوڑا بہت عمل میں لایا گیا اس کی وجہ
سے پاکستان میں دوسری جمہوری خکومت اپنی پانچ سال پورے کرنے جارہی ہے.
پاکستان پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ اس پر عمل کیا مثلاً جب عمران خان کا
دھرنا خکومت گرانے کا سبب بن رہا تھا اور امپائر کی انگلی کا انتظار کیا
جارہا تھا تو پاکستان پیپلز پارٹی نے پارلمنٹ کا ساتھ دیا اور نواز شریف سے
شدید اختلاف کے باوجود اس کی خکومت بچا لی. 2013 کے انتخابات کے بعد خیبر
پختنخوا میں اکثریتی پارٹی تھیں مگر اگر دوسری پارٹیاں اتحاد بنا لیتی تو
شاید پاکستان تحریکِ انصاف خکومت نہ بنا پاتی. اسی طرح جب اٹھارویں ترمیم
ایکٹ پاس کرنے کا وقت آیا تو سب پارٹیوں نے ملکر اسے پاس کیا کونکہ یہ ملک
اور جمہوریت کے مفاد میں تھا.
اب بھی چند اپوزیشن پارٹیاں خکومت کو گِرانے میں ہر ہتھکنڈا استعمال کرتی
نظر آتی ہیں اور غیر جمہوری طاقتوں کو بار بار مارشل لاء لگانے کے موقعے
دیتی ہے مگر ان کو شائد پتہ نہیں میثاقِ جمہوریت (Charter of Democracy) پر
عمل کرکے ہی ہم اس ملک میں جمہوری نظام کو چلا سکتے ہے اور اگر ہم نے اس پر
عمل نہیں کیا تو ہمارے پاس پچتاوے کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہے گا.
تو پاکستان کو ایک جمہوری راستے پر ڈالنے لے لئے میں بےنظیر بھٹو کا شکریہ
ادا کرتا ہوں اور ھر جمہوری شخص کو ادا کرنا چاہئے کیونکہ اب ہم ملک بچانے
کے لئے بےنظیر کو تو نہیں لا سکتے مگر اس کی جمہوری راستے پر عمل کرکے ہم
اس ملک کو بچا سکتے ہے. |