شام پر امریکی، حملہ داعش کو بچانے کی کوشش

اب جب داعش کے درندے شامی فوج کی مزاحمت کی تاب نہ لا کر اپنی درندگی سے عاجز آ کر تھک ہار گئے ہیں تو،اپنے پالتو داعشی درندوں کی ممکنہ شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے امریکہ خود برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر شامی فوج کو سبق سکھانے کے لئے کود پڑا ہے اس تناظر میں شام پر حملہ درحقیقت داعشی حملوں کا ہی ایک تسلسل ہے پہلے داعش کے خالق پس منظر میں بیٹھ کر اپنے پالتو درندوں کی کارکردگی پر داد و تحسین دینے میں مصروف تھے تو اب ان کو بچانے کے لئے خود میدان میں کود پڑے ہیں۔

شام پر امریکی حملہ

امریکہ نے شام پر فضائی حملہ کر دیا یہ آج کی سب سے بڑی خبر تھی میڈیا پر اسی خبر کا چرچا رہا دنیا بھر کے رپورٹرز اور تجزیہ کاروں کا موضوع یہی خبر رہی کوئی امریکی حملے کے بعد عالمی جنگ چھڑنے کی پیشگوئی کر رہا تھا تو کوئی شامی صدر کی دہشتگردانہ کاروائیاں گنوا رہا تھا ممکن ہے آنے والے دنوں میں امریکہ اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر شام پر حملے جاری رکھے اور میڈیا کے افق پر یہی خبر چھائی رہے اور رپورٹرز و تجزیہ کار اپنے اپنے اسکرپٹ رائٹرز کی لکھی ہوئی یا پڑھائی گئی لائینوں کو دہراتے رہیں۔اس سارے جنگی کھیل میں شاید دنیا بھر کے میڈیا سے سچ بولنے کی ہمت چند ہی افراد کو ہو لیکن ان چند لوگوں کا سچ بھی میڈیا کی جھوٹی صداؤں میں گم ہو جائے گا اور میڈیا کی جھوٹی صداؤں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی،فرانسیسی اور برطانوی درندے حکمران، اپنے جبڑوں سے بے گناہوں کا خون صاف کرتے ہوِئے دنیا کو شامی صدر کے کیمیائی ہتھیاروں کے خطرے سے ڈرا رہے ہوں گے۔

اور شام کی تباہی کے بعد یہ درندے کسی اور ملک کی طرف خونخوار آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے کیونکہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا اس سے پہلے امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر دنیا کو عراق میں موجود کیمیائی ہتھاروں کے خطرے سے آگاہ کیا اور پھر اس خظرے کے پیش نظر عراق پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں عراق کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا اور لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے آگ وخون کےاس کھیل سے فارغ ہونے کے بعد امریکی حکمرانوں نے تسلیم کیا کہ عراق پرحملہ کے لئے کیمیائی ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کو صررف بہانہ بنایا گیا اور عراق میں کوئی کیمیائی ہتھیار موجود نہیں تھے۔

جب جنگل راج ہو اور جنگل راج کے خلاف کوئی آواز بھی نہ اٹھائے تو عراق میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے اور ملک کے انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کے بارے میں کون پوچھتا ہے؟اسی لئے موجودہ دنیا نامی جنگل کے چوہدری نے اپنے کارندوں کے ساتھ مل کر ایک اور ملک کو غرانا شروع کر دیا گو کہ امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنے کے لئے کوئی جواز تلاش کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن ڈاکٹر نوم چومسکی جیسے بعض سر پھڑے لوگوں کا منہ بند کرنے کے لئے افغانستان پر حملے کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ افغانستان میں روپوش اسامہ بن لادن نے امریکی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کیا ہے۔

اس جواز کی بنا پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور اب تک لاکھوں لوگ بے مقصد اور فضول جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں امریکی خونخواری کا یہ سلسلہ چلتا چلتا آج شام پر حملے تک آ پہنچا ہے پہلے مرحلے میں تو امریکہ نے اپنے زیر تربیت پروان چڑھنے والے داعشی درندوں کو شامی عوام پر ظلم و ستم کے لئے کھلا چھوڑ دیا جنہوں نے ظلم کی وہ وہ داستانیں رقم کیں کہ درندے بھی پناہ مانگنے لگیں۔

جب شامی فوج نے بے پناہ قربانیوں کے بعد داعشی درندوں پر فتح حاصل کر لی تو اپنے پالتو درندوں کی شکست امریکہ سے برداشت نہ ہو سکی اور اپنے پیچھے دم ہلاتے برطانوی اور فرانسیسی درندوں کے ساتھ مل کر رات گئے شام پر حملہ کر دیا اس دفعہ امریکہ نے درندگی کے لئے جو جواز تراشا ہے وہ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے مقابلے میں بہت کمزور ہے جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ شامی صدر کی فوجیں مقامی لوگوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے ساتھ حملے کر رہی ہیں اس لئے دنیا کو کیمیائی ہتھیاروں کے خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے شام پر حملہ ناگزیز ہے جنگل کے اس بادشاہ سے کوئی بھی یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکتا کہ حضور والا کیمیائی ہتھیاروں سے تو آپ نے داعش کو لیس کیا تھا جنہوں نے لاکھوں شامی باشندوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا؟

اب جب داعش کے درندے شامی فوج کی مزاحمت کی تاب نہ لا کر اپنی درندگی سے عاجز آ کر تھک ہار گئے ہیں تو،اپنے پالتو داعشی درندوں کی ممکنہ شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے امریکہ خود برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر شامی فوج کو سبق سکھانے کے لئے کود پڑا ہے اس تناظر میں شام پر حملہ درحقیقت داعشی حملوں کا ہی ایک تسلسل ہے پہلے داعش کے خالق پس منظر میں بیٹھ کر اپنے پالتو درندوں کی کارکردگی پر داد و تحسین دینے میں مصروف تھے تو اب ان کو بچانے کے لئے خود میدان میں کود پڑے ہیں۔

ڈاکٹر سید وسیم اختر
About the Author: ڈاکٹر سید وسیم اختر Read More Articles by ڈاکٹر سید وسیم اختر: 26 Articles with 21447 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.