ایم ایم اے کی سیاست کا سلسلہ ختم
تو نہیں ہوا بلکہ مشرف کے جانے کے بعد اور ایک بظاہر ہچکچاتی عسکری قیادت
کے ہوتے ہوئے کچھ تھم سا گیا اس کی وجوہات صاف ہیں۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی
بدامنی، معاشی بدحالی، عوام کا استحصال، فوجی اداروں پر اندرونی و بیرونی
طور پر شکوک و شہبات اور سب سے بڑھ کر نیم سیاسی نیم مذہبی جماعتوں کے آپس
کے اختلافات اور حصہ بقدر حجم لینے کی فطری خواہش۔
ایم ایم اے میں شریک پارٹیاں اپنے اپنے حلقہ اثر میں اپنے طور پر اپنے اپنے
حمایتیوں کا ایک بڑا حلقہ اثر رکھتی ہیں۔ اور ایم ایم اے کو آنے والے دنوں
میں اپنی حیات نو یا تشکیل نو کے سلسلے میں انتہائی سازشی چالوں کا مقابلہ
کرنا پڑے گا۔ اور ظاہر ہے کھلا میدان تو کوئی بھی کسی کو نہیں دیتا بلکہ جو
جس طرح حالات و واقعات کا سامنا کرتا ہے اور اپنا وزن قائم رکھتا ہے اسے
مان بھی بالاخر سب ہی جاتے ہیں۔
کیونکر مولانا فضل الرحمان کو اچانک ایم ایم اے کی بحالی کے لئے اپنا کردار
ادا کرنے کا خیال آگیا اور اس حوالے سے قاضی حسین احمد سے خصوصی طور پر
ملاقات بھی کی ۔ اس سلسلے میں 13 جون کو لاہور میں ایم ایم اے حوالے سے
متعلقہ جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس منعقد ہوا جس کے اختتام پر صحافیوں سے
بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا اگر ایم ایم اے کی تمام
جماعتیں اتفاق رائے سے جے یو آئی (ف) سے حکومت سے علیحدگی کا مطالبہ کریں
تو وہ یہ مطالبہ مان لیں گے ۔ بعد ازاں جے یو آئی (ف) کی اپنی پارلیمانی
پارٹی نے بھی جمعیت کی مرکزی مجلس عاملہ سے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کرنے
کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ یہ خیال کرنا کہ وزیراعظم کی طرف سے اپنے ایک وزیر
کے استعفی نے مولانا کو حکومت سے علیحدگی پر مجبور کیا ایک خام خیالی
ہوسکتا ہے۔
بائیس جولائی کو اسلام آباد میں ایم ایم اے کے سربراہی اجلاس میں بھی ایم
ایم اے کی بحالی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا اور یہ طے پایا کہ
تمام رہنما اپنی اپنی متعلقہ جماعتوں کی مجالس عاملہ سے رجوع کر کے 22
جولائی کے اجلاس میں سامنے آنے والی تجاویز کے حوالے سے حتمی رائے لینے کے
بعد مجلس کے آئندہ سربراہی اجلاس میں جو ابوالخیر محمد زبیر کی سربراہی میں
منعقد ہو گا حتمی فیصلوں کا اعلان کریں گے ۔ اس موقع پر یہ توقع ظاہر کی
گئی کہ تقریباً ایک ماہ بعد ایم ایم اے کا سربراہی اجلاس دوبارہ منعقد ہو
گا جس میں تمام معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی انہی ایام میں متعدد مبصرین
کی رائے تھی کہ مولانا فضل الرحمان وفاقی حکومت سے اپنے کچھ مطالبات منوانے
کے لئے ایم ایم اے کی بحالی کے دباؤ کا حربہ استعمال کر رہے ہیں جن میں
سرفہرست مولانا شیرانی کی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے
تقرری ہے اور چونکہ اس مطالبے کی تکمیل کی یقین دہانی کردی گئی ہے اس لئے
اب جے یو آئی (ف) ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے فعال نہیں رہے گی۔ |