یوگی ادیتیہ ناتھ کی سرپرستی میں ان کی پرائیوٹ مافیا
ہندو یواواہنی کے ایک جلسہ میںتین سال قبل کسی نامعلوم خطیب نے اعلان کیا
تھا کہ جب ملک یوگی جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے گا تو مسلمانوں سے ان
کے ووٹ کا حق چھین لیا جائے گا اور آج ضرورت اس بات کی ہے مسلم خواتین کو
قبروں سے نکال کر ان کی آبروریزی کی جائے۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر خیال گزرتا
ہے کہ کیاکوئی وحشی درندہ بھی ایسی غلیظ بات سوچ سکتا ہے ؟ کیا انسان اتنا
نیچے گر سکتا ہےکہ کسی لاش کی عصمت دری کرے ؟لیکن پہلے کھٹوعہ اور پھر
اناؤ کے واقعات نے بتا دیا کہ یہی ہیں وہ اسفل السافلین جو جموں کے ایک
مندر میں معصوم بچی کا اپنے بھتیجے سے اغوا ء کرواتے ہیں ۔ وہ شیطان صفت
نوجوان اپنے دوست کو گناہ میں شامل ہونے کے لیے اترپردیش سے بلواتا ہے۔ایک
پولس افسر شریک کار بن جاتاہے اور دوسرے افسران پردہ پوشی کے مجرم قرار
پاتے ہیں ۔ وکلاء چارج شیٹ داخل ہونے سے روکنے کی خاطر ہڑتال کردیتے ہیں ۔
سیاسی رہنما مجرموں کو بچانے کے لیے مظاہرہ کرتے ہیں اس لیے کہ ان سب کا
تعلقسنگھ پریوار سے ہے ۔
عصمت دری کے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں لیکن اس کے مجرمین سے ایسی
ہمدردی،ان کی ایسی پذیرائی ، انہیں ایسا تحفظتو صرف اور صرف ہمارے مہان دیش
کا خاصہ ہے۔ یہاں’بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو‘ کا کھوکھلا نعرہ تو لگایا جاتا ہے
لیکن بیٹیوں کی عزت و عفت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو سزا دینے کے بجائے
بچایا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہندو ایکتا
منچ نے کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کے ایک ملزم ایس پی او دیپک کھجوریہ کی
رہائی کے حق میں ترنگا ریلی نکالی ۔ یہ ہندو دھرم کا سماّن ہے یا اپمان ہے
اس کا فتویٰ تو یوگی جی دیں گے لیکن اس مذموم حرکت سے قومی پرچم ضرور
شرمسار ہوا ہے۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ ایسی شرمناک حرکات کا ارتکاب کرتے وقت
بھگوا جھنڈے پر اکتفاء کریں ۔ وہ تو خیر جموں کشمیر میں بی جے پی کا ڈاکٹر
نرمل سنگھ وزیراعلیٰ نہیں بلکہ نائب ہے ورنہ اب تک یوگی جی کے نقش قدم پر
ان بدمعاشوں کو نہ صرف کلین چٹ مل جاتی بلکہ ستکار سماروہ (تہنیتی تقریب)
کا اہتما م بھی کیا جاچکا ہوتا جیسا کہ اخلاق کے قاتل کی موت پر ہوا کہ اس
کی لاش کو ترنگے میں لپیٹا گیا ۔
جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی پر فی الحال چہار جانب سے دباو ہے ۔
ایک طرف صوبے کابھگوا حلیف ہے تو دوسری جانب مرکزی حکومت کا دباو ہے لیکن
اسی کے ساتھ وادیٔ کشمیر کے اندر عوام میدان میں اترے ہوئے ہیں نیز سارے
سیاسی رہنما اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس ظلم و بربریت کے خلاف
متحد ہوگئے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ کمسن آصفہ بانو کی عصمت دری اور قتل کے
واقعہ کی فاسٹ ٹریک بنیادوں پر تحقیقات کی جاری ہے ۔محبوبہ نے حقیقت کا
اعتراف کرتے ہوئے یقین دلایا کہ چند افراد کی غیر ذمہ دارانہ حرکات اور
بیانات سے قانونی کاروائی نہیں رکے گی ۔مقدمہ کی مناسب پیروی جاری ہے اور
متاثرین کو انصاف ملے گا۔ ان کے بھائی اور صوبائی وزیر تصدق حسین مفتی نے
برملا کہا کہ ہمیں منہ چھپانے جگہ میسر نہیں ہے۔ ہم جرم کے حصے دار ہیں
ہمارا اعتماد اور کنٹرول ختم ہوچکا ہے۔ اس جرم کی قیمت پوری کشمیری نسل ادا
کرے گی ۔اس بابت جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ہندو ایکتا منچکی مدد
سے رکاوٹ پیدا کرنے کی سعی کی تھی تاکہ تحقیقات مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی
آئی سے کروائی جائے ۔ ریاست کی مخلوط حکومت میں شامل بی جے پی کی پشت پناہی
سےپہلے تو سڑکوں پراحتجاج کیا گیا اور مگر فرد جرم داخل کرتے وقت یہ بدمعاش
آپےسے باہر ہوگئے اور انہوں نے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے عدالت میں
ہنگامہ آرائی اور ہلڑبازی شروع کردیجس سے ساری دنیا بھرمیں تھو تھو ہوئی ۔
کشمیر بار ایسوسی ایشن نے جموں کے وکلاء کی مذمت کرتے ہوئےالزام لگایا کہ
ریاست کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے نیز آبروریزی
اور قتل کے مقدمہ کی منصفانہ کارروائی کو متاثر کیا جارہا ہے۔ کشمیر بار
ایسوسی ایشن نے کہا پہلے بھی کئی معاملات میں وہاں تعصبانہ ذہنیت کا مظاہرہ
کیا گیا ہے جو ریاست کے حقمیںنہیںہے۔جموں کے کالے کوٹ والوں کے کرتوت کا
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر وکاس سنگھ نے بھی نوٹس لیا ۔ انہوں نے
جموں بار ایسوسی ایشن کے احتجاج کی مذمت میں کہا’’مظاہرہ اور بند کی حمایت
نہیں ہونی چاہیے۔ وکلاء کا پیشہ ورانہ فرض ہے کہ وہ قانون کے نفاذ میں
تعاون دیں۔ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ ملک میں ایک خطرناک رجحان نےجنم
لے لیا ہے جس کے نتائج سنگین ہوں گے۔ ‘‘یہ متعصب لوگ مقدمہ کی پیروی کرنے
والی دلیر ایڈوکیٹ دیپکا سنگھر جاوت کو بھی دھمکانے سے باز نہیں آئے اس
لیےمجبور اً جموں و کشمیر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے پولس اور حفاظتی اداروں
کو دیپکا سنگھ کے مکمل تحفظ کی ہدایت دی۔ یہ وہی ذہنیت ہے کہ جس نے پٹیالہ
ہاوس کورٹ میں کنہیا کمار کو زدوکوب کیا تھا ۔ اسرار جامعی سے مارپیٹ پر بی
جے پی دہلی کے رکن اسمبلی او پی شرما نے کہا تھا میرے ہاتھ میں بندوق ہوتی
تو گولی ماردیتا۔
جموں کے تحصیل رسانہ نامی گاؤں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن آصفہ بانو کا۱۰
جنوری کو اغوا ہوااور ۱۷ جنوری کو لاش ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد ہوئی
۔کرائم برانچ کی دائرکردہ فردجرم کے مطابق مندر کے اندر ہوس کا شکار ہونے
والی آصفہ کا قتل گلادبانے کے بعد پتھر سے مار کر کیا گیا اور پھر معاملے
کو رفع دفع کرنے کے لئے تفتیشی ٹیم کو ڈیڑھ لاکھ روپے ورشوتدی گئی ۔اس جرم
میں۸افراد ملوث ہیں جن میں سے ایک درندہ وشال جن گوترا کو میرٹھ سے بلایا
گیا تھا۔ اس مذموم سازش کا سرغنہ محکمہ محصول کا سبکدوش افسر سنجی رام ہے
جس نے اپنے بھتیجے سے اغوا کروایا۔ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کا افسر کھجوریا
انہیں گرفتار کرنے کے بجائےکا شریک کار بن گیا اور قتلسے قبل خود کھجوریا
نےاپنا منہ کالا کیا ۔ پولس نے زانیوں ، قاتلوں، ان کے مددگار افسران اور
وکلاء کیخلاف بھی مقدمہ درج کیاہے۔
ایک سوال یہ ہے کہ جموں کشمیر کی پولس نے میں جو کیا وہ یوپی کی پولس کیوں
نہیں کرسکی؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جموں کشمیر میں گیروا لباس کے اندر
کسی ڈھونگی کی حکومت نہیں ہے۔ محبوبہ مفتی اس گئی گزری حالت میں بھی یوگی
جی سے لاکھ بہتر ہے۔ آج کل اتر پردیش میں انکاونٹر یعنی غیر قانونی سرکاری
قتل و غارتگری کا بول بالہ ہے اس کے باوجود سرکاری اعدادوشمار کے مطابق
خواتین پر مظالم میں اضافہ ہورہا ہے۔ اناو میں عصمت دری کا شکار ہونے والی
ایک مظلوم لڑکی وزیراعلیٰ کے گھر کے سامنے خود سوزی پر مجبورہورہی ہے ۔
ہندو خواتین کو ورغلا کر ان کا ووٹ لینے والےاپنی ہم مذہب لڑکی کا درد بھی
محسوس نہیں کرتےکیونکہ اس کی عفت وناموس کو ایک بھگوا دھاری رکن اسمبلی نے
تار تار کیاہے ۔
وزیراعلیٰ اس ابلہ ناری کی مدد کرنے کے بجائے سابق وزیر اور بی جے پی لیڈر
سوامی چنمیانند کو عصمت دری کے مقدمے سے بچانے کے جوڑ توڑ میں لگےرہتے ہیں۔
’بہت ہوا ناری پر اتیاچار، اَب کی بار مودی سرکار‘ کا نعرہ لگانے والے شاہ
جی اور مودی جی آنکھوں پر پردہ ڈال کر ایوان میں ہونے والے ہنگاموں کے
خلاف دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں جبکہ یہ تو سرکار کی کوتاہی تھی۔ ان لوگوں
کو انتخاب کا ڈر تو ہے لیکن خواتین کی پروا ہ نہیں ہے۔ یوگی راج میں اناؤ
کے اندر اجتماعی عصمت دری کا شکار ہونے والی دوشیزہ گزشتہ دس ماہ سے در در
کی ٹھوکر کھا تی رہی ہے مگر وزیراعلیٰ نے اس کی دادرسی کرنے کے بجائے
چنمیانند کو بچانے کا فیصلہ کردیا۔ سوامی جی پر۲۰۱۱ میںایک سادھوی نےعصمت
دری کا الزام عائد کیا تھا ۔ وہ تو خیر کانگریس کی مرکزی اور سماجوادی کی
صوبائی حکومت تھی اس لیے مقدمہ درج ہوگیا ورنہ اسے بھی مجبور اور مایوس
کرکے خاموش کر دیا جاتا۔
وقت کے ساتھ صورتحال بدل گئی ہے مرکز میں مودی اور ریاست میں یوگی کے آنے
سے چنمیانندسرسوتی کے اچھے دن آگئے ہیں ۔اناو میں جس دن ایک بے قصور باپ
کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا یوگی
جی نے اسی روز شاہجہاں پور کے ضلع مجسٹریٹ دفتر سے ایک خط جاری کروایا جس
میں لکھا تھا کہ ’’انتظامیہ نے شاہجہاں پور کوتوالی میں سوامی چنمیانند پر
تعزیرات ہند کے تحت درج مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ لیا ہے۔ اس لیے حکومتی
ہدایت کے تحت ضروری کارروائی سے مطلع کریں ‘‘۔ اپنے باپ کی لاش کے سامنے اس
خبرسے مظلوم بیٹی اور دیگر پسماندگان کے پر کیا گزری ہوگی اس کو ہر دردمند
دل محسوس کرسکتا ہے لیکن سنگھ سیوک نہیں اس لیے کہ ان کے پہلو میں دل نہیں
پتھر ہوتا ہے ۔ سوامی چنمیانند اوریوگی جی گرو شریک بھائی ہیں ۔ واجپئی
حکومت میں سوامی چنمیا نند اڈوانی جی کے نائب تھے ۔ سنگھ پریوار اور اڈوانی
جی نے ان کی کیسی تربیت کی اس کا نمونہ انہوں نے ۷ سال قبل پیش کردیا ۔
سوامی جی کویوگی جی بہت مانتے ہیں ۔ ۲۵ فروری کو وہ بذاتِ خود شاہجہاں پور
آشرم کے جلسہ میں شریک ہوئے اور ۳مارچ کوجنم دن کی بدھائی دینے کے لیے کئی
سینئر افسران کوآشرم میں بھیجا ۔ اس موقع پر سی ڈی او اور اے ڈی ایم
(انتظامیہ) جتندر شرما سمیت سوامی کی آرتی اتارتے نظر آئے ۔جو جتندر شرما
آرتی اتار سکتا ہے اس کے لیے اپنے دستخط سے خط جاری کرکے مقدمہ کی واپسی
کا عمل شروع کروانا کون سی بڑی بات ہے ۔کاش کے یوگی جی مدرسوں کے بجائے
آشرموں میں کیمرے لگواتے تاکہ عصمت دری کے خلاف ثبوت مل جاتا۔اناؤ کے
دبنگ رکن اسمبلی کلدیپ سینگر اور سوامی چنمیانندبظاہر مختلف مگربباطن ایک
سے ہیں ۔ ایک کےچہرے پر داڑھی ہے اور دوسرے کی مونچھیں نتھولال جیسی ہیں۔
سینگر نے چار مرتبہ اسمبلی کا انتخاب جیتا تو چنمیانند ۳ مرتبہ رکن
پارلیمان ہوئے۔ سینگر پارٹی اور حلقہ دونوں بدلتے رہے مگر چنمیانند بھی
گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے رہے کبھی بدایوں، کبھی مچھلی شہر تو کبھی جونپور سے
قسمت آزمائی کی اور ہر مرتبہ کامیاب رہے۔ مودی جی نے ان کا ٹکٹ کاٹ دیا
ورنہ بعید نہیں کہ وہ مرکزی وزیر ہوتے ۔
۱۹۹۹ سے ۲۰۰۴ کے درمیان جب وہ ریاستی وزیر مملکت برائے داخلہ تھےتو
بدایوں کی رہنے والی سادھوی چدنرپریتا ان کے رابطے میں آئی ۔ ۲۰۱۱ میں
سادھوی نے الزام لگایا کہ ہری دوار کے ایک آشرم میں اسے یرغمال بنا کر
عصمت دری کی گئی۔ ایسا ہی الزام سینگر پر بھی ہے کہ اس نے اپنے ملازم کی
بیٹی کو نوکری کا جھانسہ دے کر اس کی عصمت دری کی گئی اور بعد میں یرغمال
بناکر کئی دنوں تک اس کی آبرو سےاجتماعی کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے۔ دونوں
متاثرہ خواتین کوپولس میں شکایت کرنے پر جان سے مروا دینے کی دھمکی ملی ۔۷
سال قبل چونکہ بی جے پی اقتدار میں نہیں تھی اس لیے سوامی چنمیانند
نےگرفتاری سے بچنے کے لیے ہائی کورٹ سے اسٹے لے لیا اور اس وقت سے معاملہ
زیر التوا ہے۔سینگر کو اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی اس لیے وہ بے خوف
گھومتا رہا ۔درمیان میں یہ افواہ اڑائی گئی سادھوی چندر پریتا مقدمہ واپس
لینا چاہتی ہیں جبکہ اس کا کہنا ہے میں بدایوں کی عدالت میں حاضری سے ڈرتی
ہوں اس لیے یہ مقدمہ کسی اور صوبے میں منتقل کیا جائے۔
اناؤ کی سنگینی اس وقت ظاہر ہوئی جب خود سوزی کرنے والی لڑکی کے والد کو
رکن اسمبلی سینگرکے بھائی نے سرِ عام مارا پیٹا ۔ یوگی کی پولس نے حملہ
آوروں کو گرفتار کرنے کے بجائے مظلوم باپ کو جیل میں ڈال دیا اورپولس
تحویل میں اس کی موت ہوگئی۔ پہلے یہ خبر آئی کہ موت بڑی آنت کے پھٹنے سے
ہوئی ہے۔ مقتول کے جسم پر ۱۸ نشانات تھے لیکن پولس علاج کروانے کے بجائے
کورے کاغذ پر انگوٹھا لینے میں لگی رہی بعد میں پتہ چلا وہ صدمے سے مرگیا۔
جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو سینگر کے بھائی کو گرفتار کیا گیا اور بڑی
مشکلوں سے کلدیپ سنگھ سینگر کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہےلیکن اپنا
پلہّ جھاڑنے کے لیے ریاستی حکومت نے سی بی آئی تفتیش کی سفارش کر دی ۔ مزید
ٹال مٹول کی خاطر معاملہ ایس آئی ٹی کے حوالے کردیا گیا ۔ اس دوران بڑے
مزے سے کلدیپ سینگر افسران سے ملاقات کےلیے گیا اور اخباروالوں سے کہا میں
بے قصور ہوں یہ سیاسی سازش ہے۔ پریس کانفرنس میں اعلیٰ پولس افسر بڑے
احترام سے عصمت دری کے ملزم کو عزت مآب اور قابلِ احترام کہہ کر کلین چٹ
دیتے نظر آئے۔
ہندو ناری کی اسمتا (عزت و وقار)کے لیے یوگی جی کی سرکار کو خود پہل کرکے
عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا لیکن وہ اس وقت جاگی جب اجتماعی عصمت دری اور
قتل کا یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا اورسماعت کے لیے منظورکرلیا گیا ۔اس
کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لینے کے بعد جب پوچھا کہ رکن
اسمبلی کی گرفتاری ہوگی یا نہیں؟ تو یوگی سرکار نے کلدیپ سینگرکا جواب
دوہراتے ہوئے کہا کہ اس کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ ثبوت ملنے پر
گرفتاری کی جائے گی۔ یہ تو ایسا ہے کہ نہ ۹ من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے
گی لیکن جب دہلی میں راہل گاندھی نے نصف شب میں موم بتی والا جلوس نکالا
اور نربھیا جیسا ماحول بنا تو مودی جی نیند اڑ گئی اور صبح تڑکے کلدیپ
سینگر کی گرفتاری عمل میں آئی ۔ ایک دن قبل اگر ان نام نہاد چانکیوں کو
عقل آجاتی اور سینگر خود کو قانون کے سپرد کردیتا تو راہل کو ہیرو بننے کا
موقع نہ ملتا ۔
جموں کے سانحہ میں سنگھ پریوار کا رویہ حسب توقع ہے لیکن اناو اور شاہجہاں
پور کے معاملات نے اس کے چہرے سے ہندووں کی ہمدردی والی نقاب نوچ کر پھینک
دی ہے۔ان واقعات سے ہندو خواتین کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ اگر بھیڑئیے
کی زبان کو خون لگ جائے تو وہ اپنے پرائےکی تفریق نہیں کرتا اور اس کا شکار
مسلمانوں سے زیادہ ہندو خواتین ہوسکتی ہیں ۔ ان معاملات نے بی جے پی کو
عجیب بوکھلاہٹ کا شکار کردیا ہے ۔ وزیر مملکت برائے خارجہ وی کے سنگھ نے
افسوس کا اظہار کرتے ہوئےکہا ’ ہم نے انسان کی حیثیت سے دھوکہ دیا ہے‘۔
تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ آصفہ کے ساتھ انصاف ہو گا ۔ اس کے برعکس بی جے
پی رکن پارلیمان اور مدھیہ پردیش اکائی کے صدر نند کمار نے اس کو پاکستانی
سازش قرار دیا۔ یعنی پاکستانیوں نے جموں میں مندر بنایا ، اس میں عصمت دری
کی ، وکلاء کو اپنے ساتھ لے کر جلوس بھی نکالا جس میں بی جے پی کے وزراء
وزیروں چوہدری لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا شریک ہوئے ۔ اگر ایسا ہے تو بی
جے پی کی حکومت کو استعفیٰ پیش کردینا چاہیے اور ان وزراء کو پاکستان بھیج
دیا جانا چاہیے ۔
سنگھ پریوار کے لوگ جب کسی بڑی مصیبت میں گھرتے ہیں تو انہیں آخری پناہ
گاہ پاکستان میں نظر آتی ہے۔ جب کوئی فرد ان کے قابو سے باہر ہوتا ہے تو
اسے پاکستان روانہ کرنے کا نعرہ لگا دیا جاتا ہے ۔ ان لوگوں کا دماغی توازن
جب پوری طرح بگڑ جاتا ہے تو یہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگتے ہیں مثلاًنند
کمار چوہان فرماتے ہیں کشمیر میں ایک فیصد ہندو بھی نہیں ہے ۔ یہ درست ہے
مگر کٹھوعہ جموں میں ہے جہاں سے ۲۵ بی جے پی ارکان اسمبلی منتخب ہوئے ہیں
اور جس پاکستان کی نند کمار دہائی دے رہے ہیں وہاں عصمت دری کا الزام
ہندوستان پر نہیں لگایا جاتا۔ زانی کو بچانے کے لیے جلوس نہیں نکالے جاتے
بلکہ پوری قوم متحد ہوکر سزائے موت کا مطالبہ کرتی ہے اور تین دن کے اندر
زینب انصاری کے قاتل کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ ایک ماہ کے اندر اس کو سزائے
موت سنا دی جاتی ہے یہ نہیں کہ برسہا برس تک مقدمات چلتے رہیں اور مجرم
کھلے عام گھومتے پھریں ۔ بی جے پی والوں کے پاس اب مشکل سے ایک سال وقت ہے
۔ ان کو چاہیے کہ بھارت ماتا یا گئو ماتا کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانے
کے بجائےاپنی بیٹیوں کی فکر کریں ورنہ ان کا شمار ہندوستان کی تاریخ میں
سفاک ترین نااہل حکمرانوں میں ہوگا ۔یوگی کی اندھی نگری اور مودی کے چوپٹ
راج پر فیض احمد فیض کے یہ اشعار صادق آتے ہیں کہ؎
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
|