وہ کبھی جن کے نام کا سکہ چلتا تھا

شروع سے یہ بات سنتے چلے آ رہے ہیں کہ ہر عروج کو زوال اور ہر کو ایک دن عروج ضرور حاصل ہوتا ہے الﷲ تعالی انسان کو عروج اور زوال دونوں دیتا ہے آگے انسان کے بس میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے زریعے عروج کو سنبھال سکے یا زوال پزیر ہو جائے اسی طرح کی صورتحال سے آج کل عروج کی بلندیوں کو چھونے والے چوھدری نثار رلی خان دوچار ہیں وہ چوھدری نثار علی خان جن کے نام کا کبھی سکہ چلتا تھا مسلم لیگ ن کے قائدین کی کبھی یہ جرآت ہوتی نہ ہوتی تھی کہ وہ چوھدری نثار علی خان کی رضامندی کے بغیر کوئی اجلاس ہی رکھ لیں کوئی بھی اجلاس یا پارٹی کے دیگر معاملات کو زیر بحث لانے سے پہلے چوھدری نثار علی خان سے اجازت مانگی جاتی تھی کہ چوھدری صاحب آپ کس دن فارغ ہوں گئے جو وقت وہ دیتے تھے اسی دن پارٹی کا اجلاس بلا لیا جاتا تھا لیکن چوھدری نثار علی خان اپنی انا پرست پالیسیوں کی وجہ سے اپنے اس عروج اور مقام کو کھو بیٹھے ہیں اور آج صورتحال یہ بن چکی ہے کہ چوھدری نثار علی خان کو اپنے سیاسی مستقبل کی کوئی سمجھ ہی نہیں آ رہی ہے کہ ان کا کیا بنے گا اور وہ پارٹی ٹکٹ سے بھی محروم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور اگر انہوں نے اپنے رویئے میں اب بھی نرمی پیدا نہ کی تو پارٹی ٹکٹ کے ساتھ ساتھ وہ کسی بھی حثیت سے الیکشن لڑنے سے ہی محروم ہو جائیں گئے وہ چوھدری نثار علی خان جو کبھی ملک پاکستان کے وزیراعظم پنجاب کے وزیراعلی اور وزیر داخلہ تو تھے ہی ہوا کرتے تھے باقی وزراء تو صرف برائے تھے ملک کے تمام تر فیصلے ان ہی کے ہاتھوں میں تھے وہ جیسا مرضی کریں ان کے فیصلوں کو رد کرنا کسی بھی حکومتی رکن کی بس کی بات نہیں تھی ساری حکومت ان ہی کے اشاروں پر چلا کرتی تھی وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب بھی ان ہی کے مرہون منت ہوا کرتے تھے وہ جب کبھی اپنے حلقہ انتخاب این اے 52کا دورہ کیا کرتے تھے ہر طرف ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی دکھائی دیا کرتی تھی خاص طور پر کلرسیداں آمد کے موقع پر تمام تر سرکاری محکمے ادھر ادھر بھاگتے دکھائی دیا کرتے تھے کہ پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے کسی بھی چیرمین یا وائس چیرمین کی یہ ہمت نہ ہوتی تھی کہ وہ جلسہ میں کھڑا ہو کر چوھدری نثارعلی خان سے اپنی کوئی مجبوری بیان کر سکے جلسے میں موجود ہر فرد پر ایک انجانا ساخوف طاری ہوتا تھا کہ پتہ نہیں کب کوئی بے عزت ہو جائے چوھدری نثار علی خان لا محدود اختیارات ہونے کے باوجود اس علاقہ کیلیئے کوئی بڑا تعلیمی منصوبہ دینے میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور تعلیم کے حوالے سے ان کا کام بلکل صفر ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقیاتی کام ان کی طرف سے بے شمارکروائے گئے ہیں لیکن صرف گلیاں نالیاں ہی کام نہیں ہوا کرتے ہیں ان کے علاوہ بھی بہت کام ہوتے ہیں جن پر انہوں نے کوئی توجہ نہ دی ہے جب اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہوٹہ نڑھ کے مقام پر پوری تحصیل کہوٹہ اور کلرسیداں کیلیئے گیس فراہمی کا اعلان کیا تو تحصیل کلرسیداں کے عوام کا جوش جزبہ قابل دید تھا ہر طرف ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن چوھدری نثار علی خان کی انا پرستی کی وجہ سے ہمارے عوام وزیر اعظم کے اعلان کر دہ اس سہولت سے بھی محروم کر دیئے گئے ہیں جو کہ ہمارے ساتھ ایک بہت بڑی زیادتی ہوئی تھی اگر چوھدری نثار علی خان چاہتے تو سابق وزیراعظم کی کبھی بھی یہ جرآت نہ ہوتی کہ وہ کلرسیداں کو چھوڑ کر پہلے کہوٹہ میں گیس فراہمی کا آغاز کرواتے عوا م علاقہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں کہ یہ رکاوٹ کس کی طرف سے ڈالی گئی ہے اگر گیس پوری تحصیل کلرسیداں کو مل جاتی تو اس میں کسی کا کیا نقصان ہوتا نقصان صرف یہی ہوتا نہ کہ عوام چوھدری نثار علی خان کو بھول کر نواز شریف کے نعرے لگاناشروع ہو جاتے مانکیالہ جلسہ کے موقع پر چوھدری نثار علی خان نے واضح طور پر کہا تھا کہ گیس موجود ہی نہیں لیکن چند ماہ قبل انہوں نے چک بیلی کے کچھ علاقوں میں گیس فراہمی کے افتتاح کیئے تو وہاں کیلیئے گیس کہاں سے پیدا ہو گئی ہے کیا چک بیلی خان کے علاقہ میں گیس کے کوئی نئے زخائر ملے تھے اس سے صاف ظاہر ہوتا کہ ہمارے علاقہ کو جان بوجھ کر اس سہولت سے محروم رکھا گیا اگر گیس موجود نہیں تھی تو اس وقت کے وزیراعظم نے کلرسیداں اور کہوٹہ اور کہوٹہ کیلیئے گیس فراہمی کا اعلان کیوں کیا تھا اگر کیا بھی تو کہوٹہ میں گیس فراہمی کے منصوبہ کا آغاز کر دیا گیا ہے اور تحصیل کلرسیداں کے بھی کچھ یو سیز میں شروع کر دیا گیا ہے لیکن یو سی گف، غزن آباد، بشندوٹ کو کیوں محروم کر دیا گیا ہے اکثر لوگوں کو گلہ ہے کہ ایم پی اے سابق حلقہ پی پی 5 اپنے حلقہ کیلیئے کوئی بھی کام نہیں کروا سکے ہیں یہ بات بھی حقیقت کے بلکل برعکس ہے ہمارے ایم پی اے کو کوئی کام کرنے ہی نہ دیا گیا ہے چوھدری نثار علی خان نے دس سال ان کو اپنی انا پرستی کی تسکین کیلیئے یرغمال بنائے رکھا ہے وہ کون سا ایم پی اے ہوتا ہے جس کو دس سالوں میں کوئی فنڈز ہی نہ ملے ہوں یہ بات کبھی بھی قابل یقین نہیں ہو سکتی ہے فنڈز ضرور ملے ہیں ترقیاتی کام بھی ہوئے ہیں لیکن فرق صرف یہ تھا کہ قمرالسلام راجہ کے منصوبوں پر تختیاں کسی اور کی لگتی رہی ہیں وہ یہ سب کچھ صرف اس لیئے برداشت کرتے رہے کہ جس شخص کے سامنے وزیراعظم نوازشریف وزیراعلی شہباز شریف بلکل بے بس ہیں اس کے سامنے ایک عام ایم پی اے اپنے حقوق کی بات کیسے کر سکتا ہے اور یہ بات بلکل حقیقت ہے کہ اتنے منہ زور شخص کے سامنے قمرالسلام راجہ کی کیا حثیت تھی اور اسی وجہ سے وہ دس سالوں تک کھڈے لائن لگے رہے ہیں لیکن آج الﷲ تعالی کا فضل دیکھیں جس ایم پی اے کی حثیت کو کبھی چوھدری نثار علی خان نے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا تھا اسی ایم پی اے کو ان ک خلاف پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لیئے اشارے دیئے جا رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ پچھلے دس سالوں کو طرح اب بھی ان سے خوف زدہ ہیں چواور کبھی بھی ان کے مقابلہ میں الیکشن لڑنے کی ہمت نہیں کر سکیں گئے ھدری نثار علی خان کے جلسوں میں ہمارے ایم پی اے کی حثیت محض اس بچے کی سی ہوا کرتی تھی جو ہر لحاظ سے اپنے ماں باپ کا محتاج ہوا کرتا ہے کیا کوئی جیتا جاگتا شخص بغیر کسی بڑی مجبوری کے یہ سب کچھ برداشت کر سکتا ہے کبھی بھی نہیں وہ اپنی توہیں صرف اس لیئے برداشت کرتے رہے کہ جس شخص کی تمام پارٹی معاملات پر اتنی بھاری گرفت ہے اس کیلیئے ایک عام ایم پی اے کو پارٹی سے باہر نکال دینا اور اس کی جہگہ کسی دوسرے کو لے ٓانا کوئی ناممکن نہیں تھا ہمارے چیرمین وائس چیرمین جو اتنی زیادہ محنت کرکے کامیاب ہوئے ہیں چوھدری نثار علی خان کے سامنے ان کی حثیت محض ایک چپڑاسی کی سی تھی گو کچھ مجبوریوں کی وجہ سے وہ اب بھی خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں کہ کہیں ان کا حلقہ دوبارہ اسی طرح بحال نہ ہو جائے لیکن ان کے جانے سے سب خوش ہیں اور وہ صرف یہ سوچ کر خوش ہیں کہ مستقبل میں چلو ترقیاتی فنڈز کم ہی سہی لیکن کم از کم ان کو عزت تو ضرور ملے گی اور اب نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ چوھدری نثار علی خان کے نام پر پٹواریوں ، ٹھیکداروں،دیگر سرکاری محکموں سے ہر طرح کے ناجائز کام لینے والے یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ اب چوھدری نثار علی خان کا کیا بنے گاچوھدری صاحب اب آپ کو ان باتوں پر غور کرنا ہو گی کہ پورا این اے 52آپ کی طرف سے اپنی توہین برداشت کرتا رہا ہے جو ان کو نہیں کرنا چاہیئے تھا لیکن آپ اپنی ہی پارٹی کے قائدین سے اختلافات کر بیٹھیے ہیں جو آ پکو کسی بھی صورت زیب نہیں دیتا ہے ان تمام باتوں میں صرف آ پ کا اپنا ہی نقصان ہے کبھی کبھی کسی دوسرے کو تسلیم کرنا پڑ جاتا ہے

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 169557 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.