چیف جسٹس فرماتے ہیں کہ میں سیاست دانوں اور بیورو کریٹس
سے کام کروا کر رہوں گا ۔اگر مجھے اس کے لیے دھرنا بھی دینا پڑے تو دوں گا
۔ چیف جسٹس کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ماس
کیمونی کیشنز کے سابق چیئرمین شفیق جالندھری فرماتے ہیں باقی باتیں تو ٹھیک
ہیں لیکن دھرنے والی بات درست نہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ چیف جسٹس عمرانی
دھرنوں سے کافی متاثر دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان کے پاس تو قلم کی لامحدود
طاقت موجود ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں نوازشریف کو اس بنیاد
پر تاحیات نااہل قرار دے دیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی فرم سے تنخواہ لینے
کا ذکر اپنے ٹیکس گوشواروں میں نہیں کیا۔ عدالت عظمی کی نظر میں انہوں نے
دانستہ جھوٹ بولا اور اپنے اثاثے چھپائے ۔ عوامی نمائندوں کو دیانت دار
ہونا چاہیئے اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیئے بلکہ یہ بہت ہی اچھی بات ہے ۔
ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو صدق دل سے قبول کرتے ہیں کہ نواز شریف نے
واقعی جھوٹ بولا ہے لیکن اسی تناظر میں اگر عمران خان کی غلط بیانی ٗ قول و
فعل اور متنازعہ کردار کو دیکھا جائے تو عدالت عظمی کی پسند و ناپسند کی
پالیسی صاف عیاں ہوتی ہے ۔ حقائق کے مطابق بھارہ کہو یونین کونسل کی جانب
سے بنی گالہ کے تین سوکنال اراضی پر مشتمل عالیشان محل کی تعمیر کو غیر
قانونی قرار دیاگیا تھا جبکہ ایسی یونین کونسل کے سابق سیکرٹری محمد عمر نے
اپنے حلفیہ بیان میں کہا تھا کہ وہ 2003ء میں یوسی بھارہ کہو میں سیکرٹری
تعینات تھا جب عمران خان سے بنی گالہ کی رہائش گاہ کی تعمیر کے حوالے سے سی
ڈی اے کا منظور شدہ نقشہ طلب کیاگیا تو عمران خان کوئی منظورشدہ نقشہ پیش
نہیں کرسکے جس پر مزید کوئی کاروائی عمل میں نہ لائی جاسکی ۔ رپورٹ کے
مطابق 2003ء میں یونین کونسل میں کمپیوٹر کی سہولت حاصل نہیں تھی تمام
دفتری کاروائی ہاتھ سے ہی انجام دی جاتی تھی جبکہ عمران خان کی جانب سے جو
دستاویزات عدالت عظمی میں جمع کروائی گئیں وہ کمپیوٹرائزڈ تھیں ۔ گویاعمران
خان کے وکیل کی جانب سے عدالت عظمی میں جو دستاویز جمع کروائی گئیں وہ سب
کی سب جھوٹ پلندہ اورجعلی دستاویزات تھیں ۔کیا یہ جھوٹ عمران خان کی جانب
سے ان کے وکیل نے عدالت عظمی کے سامنے نہیں بولا ۔ لیکن چیف جسٹس نے تحمل
مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنی گالہ کے حوالے سے سی ڈی اے کو نئے تعمیراتی
قوانین بنانے کا حکم جاری کرکے معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا ۔ اگر نواز
شریف کو معمولی بات کو چھپانے پر تاحیات نااہل قرار دیاجاسکتا ہے تو عمران
خان کو عدالت عظمی میں جعلی دستاویزات جمع کروانے اور عدالت کے سامنے بنی
گالہ کیس کے حوالے سے جھوٹ بولنے پر کوئی سزا نہ دینا کیا معنی خیز بات
نہیں ۔ خیبر پختونخوا کے سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال کی تحقیقات نیب
کررہی ہے ۔دستاویز سے ثابت ہورہا ہے کہ عمران خان نے ذاتی سہولت کے لیے
سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کیا تھا بلکہ ایک ٹی وی چینلز پر تو مسلسل ایسی
ویڈیوز دکھائی جاتی رہیں جس میں عمران خان سمیت ہیلی کاپٹر کو ہوا میں اڑتے
اور لینڈ کرتے دکھایا گیا ۔کیاعدالت عظمی کے معززین ترین جج صاحبان کو
عمران خان کا یہ جھوٹ بھی نظر نہیں آیا ۔عمران خان نے شہباز شریف پر دس ارب
روپے دینے کاالزام لگایا تھا پھر مکر گیا ۔ہر ضمنی انتخاب کے موقع پرالیکشن
کمیشن کے قواعدکی خلاف ورزی کرنا عمران کا معمول ہے ٗ یہاں بھی وہ ہر قانون
سے بالا ہے۔ 2014ء کے دھرنے میں ایس پی پولیس کو تشدد کا نشانہ بنانے اور
سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا جو مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چل رہا
ہے دو سال تک عمران خان کی جانب سے ٗ عدالت کا سمن وصول کرنے سے انکار کیا
جاتارہا کہ وہ اپنی رہائش گاہ میں موجود نہیں ہیں جبکہ اسی رہائش گاہ پر وہ
روزانہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے ۔ سپریم کورٹ ہو یا ماتحت
عدالتیں ٗکیا ان کی توہین کرنے والا اور عدالتی سمن پر عدالت میں پیش نہ
ہونے والا اشتہاری شخص صادق امین قرار پاسکتا ہے ۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں
کہ نواز شریف کو تاحیات نااہل کیوں کردیاگیا ۔ انہوں نے اگر جھوٹ بولا تھا
تو انہیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا ہوگالیکن ایک جانب معمولی سی بات پر
تاحیات نااہل کرنا اور دوسری جانب مسلسل جھوٹ بولنااورعدالتوں کے احکامات
کو مذاق بنانے والا کہاں کا صادق اورکہاں کا امین ہو سکتا ہے ۔ ہم سپریم
کورٹ کے اس فیصلے کی بھی مکمل تائید کرتے ہیں کہ عوامی نمائندوں کو دیانت
دار اور شفاف کردار کا حامی قابل تقلید انسان ہونا چاہیئے بلکہ الیکشن
کمیشن کو آنیوالے انتخابات پر اس کسوٹی کو میعار بنانا چاہیئے۔ہمیں اعتراض
صرف اس بات پر ہے کہ صرف نواز شریف کوہی مشق ستم نہ بنایاجائے بلکہ عمران
خان سمیت جتنے بھی سیاست دان ٗ فوجی آمر اور بیورو کریٹس اپنے عمل اور
گفتگو میں جھوٹ بولتے دکھائی دیتے ہیں ٗ قانون ٗضابطوں اور عدالتی فیصلوں
کا احترام نہیں کرتے ۔ ان سب کو تاحیات نااہل قرار دیا جانا چاہیئے بلکہ
مستقل پیمانے پر ایک ایسا میعار قائم کردیاجائے جو کسی امتیاز اور مبالغے
کی بجائے پارلیمنٹ کے ہر امیدوار پر نافذالعمل بھی ہو ۔ عمران خان وہ واحد
سیاست دان ہیں جو اپنے مطلب کے فیصلے نہ ہونے پر عدالتوں کو بھی تنقید
کانشانہ بناتے ہیں بلکہ کھلے عام حکم عدولی کرتے ہیں ۔اسلام آباد ہائی کورٹ
کی جانب سے اسلام آباد کو بند کرنے اور عمرانی دھرنے کے خلاف فیصلے پر جو
فیصلہ آیا تھا عمران خان نے نہ صرف اس پر کھلی تنقید کی تھی بلکہ عمل
درآمدکرنے سے بھی انکار کردیا تھا ۔ نہایت معذرت کے ساتھ عرض کروں گا اگر
انصاف کا ترازو صرف ایک ہی جانب جھکا رہے گا تو یقینا تنقید کا سامنا کرنا
پڑے گا ۔ ہم چیف جسٹس کے اس عزم کو دل کی گہرائیوں سے سراہتے ہیں جو وہ
انسانی اور بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے ہسپتالوں ٗ تعلیمی اداروں اور دیگر
مقامات پر خود جا کر سرانجام دے رہے ہیں لیکن نہایت ادب سے یہ گزارش بھی
کرتے ہیں کہ وہ شاندارفیصلوں کا رخ عمران خان سمیت تمام کرپٹ ٗ بدکردار اور
جھوٹ بولنے والے عوامی نمائندوں کی جانب بھی کریں اور ایک ایسی مثال قائم
کرجائیں جس کا ذکر ان کے رخصت ہونے کے بعدبھی احترام سے کیاجاتا رہے ۔ |