آئینی شق،62 ون ایف کی رو سے تاحیات نااہلی ہو گئی، نااہل
نظریاتی تو نہ تھے مگر اب تاحیات نظریاتی رہیں گے۔ یا مرتا کیا نہ کرتا کی
مصداق نظریاتی ہونے کا جاپ کرتے رہیں گے۔ آخر یہ نوٹنکی کب تک چلے گی؟ یہ
تو وقت بتائے گا اور تاریخ ثابت کرے گی کہ تاحیات نااہلی کا عدالتی فیصلہ (جو
کہ پارلیمان ہی کرتا تو اچھا تھا) ماضی میں بھٹو کے عدالتی قتل کی کڑی بنے
گا اور تاریخ کا سیاہ باب بن کر یاد آتا رہیگا۔ عین ممکن ہے کہ یہ عدالتی
فیصلہ وطن عزیز کی سیاست کا ایک نیا رخ متعین کرے اور ایک خوبصورت راستہ
ہموار کرنے کا باعث بنے۔ ملکی سیاست کے شعبدہ باز صراط مستقیم پر چل پڑیں
اور صادق اور امین رہیں۔ خیر اب جبکہ 62 ون ایف کی آئینی شق پر عمل درآمد
ہو چکا اور مخالفین کی پتنگ کٹ چکی ، بو کاٹا کے نعرے واشگاف بلند ہوا
چاہتے ہیں تو ایسے عالم میں بطور صحافی اس عدالتی فیصلے کے آگے سرتسلیم خم
کیا جائے اور آگے کے مناظر کی تصویر کشی کی جائے تاکہ کالم کا پیٹ بھر جائے
اور اپنا تجزیہ پیش کر کے قلم کا فرض ادا ہو جائے۔ تو بات ہو رہی تھی پتنگ
کٹ جانے کی۔ جی ہاں جناب عالی ! فلک پر اونچی اڑان بھرتی پتنگ کو جو غرور
تھا کہ دو تہائی اکثریت کا مجمہ اسکی اس اڑان بھرنے کے عمل دوام بخش دے گا،
اب خاک میں مل چکا۔ حضور شائد آپ بھول بیٹھے تھے کہ ثبات اک تغیر کو ہے
زمانے میں ۔ یہاں دوام کسی شے کو بھی نہیں۔ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی
ہے۔ باقی مخلوق کی حیثیت مشت بهر مٹی کے پتلے سے ذیادہ نہیں۔ اڑتی پتنگ
اپنی قسمت کو بس اس تلک جانتی ہے کہ وہ اڑان بھر رہی ہے مگر جب کٹ کر گرتی
ہے تو آناً فاناً آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والا حال ہوتا ہے تو حضور
پتنگ کٹ جائے تو دوبارہ آغاز صفر سے شروع کرنا پڑتا ہے ، پہلے اپنی الف ب
سیدھی کریں اور پھر ایک سے گنتی سیکھتے سیکھتے ہی آپ ٹھیک سے پہاڑے یاد کر
پائیں گے۔ جناب عالی ! نظریاتی کہنا آسان ہے بننے کے لیئے بڑے پاپڑ بیلنے
پڑتے ہیں جن سے آپ معذرت کے ساتھ ابھی نابلد و ناآشنا ہیں۔ زرا غور کریں کہ
میثاق جمہوریت سے آپ کتنی وفا کر چکے ہیں اور پھر جائیے جمہوری راستے پر
گامزن ہو جائیں۔ عدالتی فیصلوں پر عمل کیجیئے۔ کیسز کا سامنا کرنے کے بعد
عوام میں جائیں اور جمہوری طاقت سے ہی میدان جیت کر آئیں گے تو پھر دنیا
اور تاریخ کے اوراق میں آپ نظریاتی کے طور پر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
پنجاب کی بیٹی جو ووٹ کو عزت دو کے بیانیئے کے ساتھ سیاست کے پر پیچ راستوں
کا انتخاب کرکے اپنی عملی سیاست کا آغاز کرنے نکلی ہے اور گلی گلی ووٹ کو
عزت دو کی دہائی اور فریاد کرتی اپنی سیاسی تربیت حاصل کر رہی ہے اس کی
خدمت میں صرف اتنی عرض ہے کہ نظریاتی کہلانا آسان نہیں سو جمہور کا راستہ
ضرور اپنائیں مگر تہذیب کے دائرے کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں اور اداروں سے
ٹکرا جانے کی روش کو مت اپنائیں۔ نظریاتی اور جمہوری راستے پر چلنے سے پہلے
بھٹو اور بھٹو کی بیٹی کی سیاست کا مطالعہ کریں کہ کسطرح سندھ کی بیٹی نے
بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد عوام کی طاقت پر یقین رکھتے ہوئے بھٹو کے نظریے
کو لیکر سیاست کے میدان میں قدم رکھا ، مفاہمت کی سیاست کو ترویج بخشی اور
بھٹو کے عوام کی جنگ لڑتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور تب جاکر
تاریخ میں ہمیشہ کے لیئے نظریاتی اور جمہوری طور پر امر ہوئی۔
عدالتی فیصلے اور ملکی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بظاہر تو یہی
نظر آرہا ہے کہ 2018 میں ہونے والے انتخاب کے نتیجے میں ایک مخلوط قسم کی
حکومت وجود میں آئے گئی۔ مگر اس مخلوط حکومت کے لیئے اپنا دورانیہ پورا
کرنا کافی مشکل ہوگا۔ جب ایک دو تہائی اکثریت والی حکومت کے منتخب وزیراعظم
کے لیئے حکومتی معاملات چلانا مشکل ہو گئے تھے تو کیا 2018 کے انتخابات کے
بعد بننے والی مخلوط حکومت کو کہ اگر مسلم لیگ ن اپوزیشن کا کردار نبھا رہی
ہوگی تو مسلم لیگ ن اس حکومت کو آسانی سے کام کرنے دیگی ؟ اس کا جواب نہیں
میں ہے کیونکہ مسلم لیگ ن پنجاب اور وفاق میں اچھی خاصی تعداد میں ارکان
اسمبلی رکھتی ہو گی اور سینیٹ میں بھی تو پھر مخلوط حکومت کے لیئے مشکلات
کا باعث بننا حتمی بات ہوگی۔ اور اگر مسلم لیگ ن ملک کی دیگر قوم پرست
جماعتوں کو ساتھ لے کر پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اچھی خاصی عوام کو بھی
اپنے ساتھ دھرنوں اور احتجاجوں میں سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر
بہت مشکل ہو جائیگا اس مخلوط حکومت کا چلنا۔ جناب عالی پھر کیا ہوگا ؟ کیا
پھر سال چھ مہینے کے بعد ایک اور انتخابات کروانا ناگزیر ہو جائیگا ؟ جو کہ
ملکی تاریخ میں ہونے والے پہلے عام انتخابات 1970 کی طرح کے اصل انتخابات
جو کہ حقیقی معنوں میں شفاف انتخابات تھے کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
ووٹ کو عزت دو اور پارلیمان کے تقدس پر یقین رکھنے والے وطن عزیز کے سیاسی
پنڈتوں کی کارکردگی گذشتہ ایک دہائی پر مشتمل جمہوری دور سے بخوبی لگائی جا
سکتی ہے کہ پارلیمان کے تقدس اور ووٹ کو عزت دو کے لیئے انہوں نے جمہوری
نظام کو کتنا مضبوط کیا۔ صرف اپنی کرسی اور اقتدار کی رسہ کشی پر مشتمل ان
جمہوریت پسند اور نظریاتی ملکی حاکموں کی اعلی کارکردگی کا حاصل تو یہ ہے
کہ آج وطن عزیز میں جمہوریت اپاہج ہے، سفارتی سطح پر تنہائی کا سامنا ہے،
معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے اور عوام ٹکڑوں میں بٹ کر تقسیم ہے۔ ملک میں
موجودہ سیاسی ماحول کو اس نہج تک پہنچانے کا ذمہ دار کوئی اور نہیں یہی وطن
عزیز کی سیاست کے کھلاڑی خود ہی ہیں جنہوں نے اپنی ذات کو اتنا ارفع و اعلی
سمجھ لیا تھا کہ عدلیہ اور پاک فوج جیسے اداروں کو اپنا ذاتی مطیع بنانے پر
تل گئے تھے جس سے اداروں سے ٹکراو کی فضا نے جنم لیا اور ادارے سامنے آکر
ڈٹ گئے۔
تاش کے پتوں کی گڈی کی پھینٹی لگ رہی ہے ، ایکا کا پتہ اپنے ہاتھ میں رکھ
کر بادشاہ کا پتہ اس کے حصے میں جائے گا جو نظام میں فٹ ہورہا ہوگا۔ اور جو
نظام میں فٹ نہیں ہو رہا ہوتا اس کو تو آوٹ ہی ہونا ہوتا ہے۔ باقی وطن عزیز
جیسے پہلے چل رہا تھا اب بھی چلتا رہیگا اور کسی کے جانے سے کارخانہ قدرت
کا نظام رک تھوڑا ہی جاتا ہے۔ پرانے چہروں کی جگہہ نئے چہرے فٹ ہو ہی جاتے
ہیں۔ دنیا کی سیاست اور خصوصا وطن عزیز کی سیاست کب تبدیل ہو کر نیا رخ
اختیار کر لے دیر نہیں لگتی۔ کل کے سیاہ و سفید کے مالک آج جلا وطنی کی
زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو یہی آج کے حکومتی ایوانوں میں برسراقتدار جو
کل تک جلا وطن تھے اور کل پھر کیا پتہ ان کی حیثیت بھی گھر میں بنے اسٹور
روم میں رکھے فالتو سامان سے ذیادہ نہ رہے۔ خیر ابھی تو راوی ہر طرف چین ہی
چین لکھ رہا ہے تو پھر یہ تماشا کیا ہے ، شور کیسا ؟ اور ہنگامہ ہے برپا
کیوں ؟
کالم کے آخر میں حبیب جالب کے یہ اشعار آپکی نظر۔
جو ڈس رہا ہے وطن کو نہ اس کا نام لکھوں
سمجھ سکیں نہ جسے لوگ وہ کلام لکھوں
دروغ گو ئی کو سچائی کا پیام کہوں
جو راہ زن ہے اسے رہبر عوام کہوں
میرے جنوں کو نہ پہنا سکو گے تم زنجیر
نہ ہو سکے گا کبھی تم سے میرا ذہن اسیر
جو دیکھتا ہوں جو سچ ہے کروں گا وہ تحریر
متاع ہر دو جہاں بھی نہیں بہائے ضمیر
نہ دے سکے گی سہارہ تمہیں کو ئی تدبیر
فنا تمہار ا مقد ر بقا میری تقدیر
|