بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جوOver all دیکھنے میں اچھی
یا بری ضروری لگتی ہیں مگر جب ان باتوں کی گہرائی میں جایا جائے تو بہت
سارے راز کھل کر سامنے آجا یا کرتے ہیں۔ لہٰذا میں اپنے اس کالم میں ایسے
ہی کچھ راز سامنے لانے کی کوشش کروں گ اور امید کروں گا عوام الناس کو میرے
ان آسان الفاظ کی سمجھ آسانی سے آجائے گی۔ حالیہ دنوں میں ٹرمپ کی طرف سے
ایک Statementسامنے آئی ہے جس میں اس نے یروشلم کو اسرائیل کو دارالحکومت
(Capital) تسلیم کر لیا ہے مگر اسرائیل کا اصل ہدف کیا ہے ؟ اس کی بات آگے
جا کر کریں گے ابھی بات کرتے ہیں اس Statementکی Reaction کی، جوکہ باقی
مسلم ممالک سمیت پاکستان بھی اپنے الفاظ میں مذمت کا لفظ باربار استعمال کر
کے اپنا احتجاج Record کروا رہا ہے اور مسلم ممالک میں ایک نئی بحث کی لہر
دوڑ گئی ہے۔
کچھ تو کہہ رہے ہیں ہم اسرائیل کو ریاست تسلیم ہی نہیں کرتے لہٰذا اس کا
Capitalکہاں سے آگیا اور پاکستان نے تو آج تک اسرائیل کو ریاست تسلیم کیا
ہے اور نہ ہی پاکستان کے پاسپورٹ میں اسرائیل جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ بہر
کیف فلسطین تب سے ہی میدان جنگ بنا ہوا ہے جب 14 مئی 1948ء میں اسرائیل کو
United Nation کی جانب سے ایک ریاست قبول کیا گیا تھا کیونکہ یہودی فلسطین
پر قابض ہونا چاہتے تھے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بہت ساری مذہبی جگہات
فلسطین میں موجود ہیں جس میں Main مسجد اقصیٰ ہے جسے وہ مسمار کرکے ہیکل
سلیمانی بنانا چاہتے ہیں جو کہ ان کے مذہب کے لحاظ سے بہت بڑا Goal ہے اب
چونکہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لیے بھی بہت مقدس ترین جگہ ہے جہاں سے محمد
مصطفی ﷺ معراج پر تشریف لے کر گئے تھے اور مسلمانوں کا قبلہ اول بھی مسجد
اقصیٰ ہی ہے۔ بس اسی وجہ سے ہر مسلمان کے دل میں ایک آگ سی لگی ہوئی ہے کہ
اب ہمارا قبلہ اول یہودیوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے جس کو مدنظر رکھ کر
پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس پالیسی کیخلاف قرارداد بھی پیش کی گئی۔
اب یہاں پر ایک حدیث یاد آئی ہے ہے:
حضرت عبداﷲ ؓ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور کریم ﷺ کو کعبہ کا طواف
کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا ’’اے کعبہ تو کتنا عمدہ ہے تیری خوشبو کتنی
پیاری ہے تو کتنا عظیم المرتبہ ہے اور تیری حرمت کتنی زیاہد ہے مگر قسم ہے
اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے ایک مومن کی حرمت تیری حرمت
سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔
(ابن ماجہ السنہ کتاب الفتن 39322)
اب اگر اس حدیث کی تفصیل میں جائیں تو معلوم ہوتا کہ کسی مومن کی جان ومال
کی بے حرمتی کرنا جو کہ مسلمانوں کا حالیہ قبلہ ہے اس کی بے حرمتی کرنے سے
بھی زیادہ بدفعلی کا کام ہے۔ مگر یہاں پر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ مسجد
اقصیٰ تو مسلمانوں کا پرانا قبلہ تھا نا۔۔۔۔۔۔۔ ؟ مگر آپ ﷺ نے تو حالیہ
قبلہ کی حرمت پر بھی مومن کی حرمت کو فوقیت دی ہے تو جب فلسطین میں سرعام
وہ ہی یہودی ان مسلمانوں اور مومنوں کی حرمت کو اس پوری دنیا کے سامنے
پامال کر رہے تھے تب تو کوئی نہیں بولا تھا بلکہ 1978ء میں مصر اور عرب نے
اسرائیل کو گلے لگا لیا تھا اور یہ سارا کچھ History کا حصہ ہے اٹھا کر
دیکھ لیں۔ میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کر رہا لیکن کہنا میں یہ چاہتا
ہوں تب مسلمہ امّہ کی غیرت کہاں گئی ہوئی تھی جب آپ ہی کے مسلمان بھائی اور
بہن فلسطین میں یہودیوں کے سامنے ذلیل ہو رہے تھے جب یہودیوں نے فلسطین میں
پہلے ایک مسلمان کو مارا تھا یہ غیرت تو تب جاگنی چاہیے تھی، اب جب پانی سر
سے گزر گیا ہے اب کہہ رہے ہیں کہ یہودی ایسے اور یہودی ویسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱
اور یہ باتیں سب جانتے ہیں کہ اصل قربانی اپنے حق اور مقدس ترین جگہات کو
بچانے کے لیے آج بھی فلسطینی مسلمان قربانیاں دے رہے ہیں اور یہودی فوجیوں
سے لڑتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھوناپڑتا ہے۔
مگر اسرائیل اپنی Territoryبڑھانے کے لیے حد سے زیادہ انسانی حقوق کی بے
حرمتی کرتا جارہا ہے چونہ اس کو سب سے بڑی سپورٹ (Support)امریکہ کی حاصل
ہے جو کہ اس وقت دنیا کی Super Power ہے اور UN ڈائیریکٹلی اس کے قبضہ میں
ہے مگر اس وقت جذباتی بیانات دینے کا وقت نہیں ہے اور اگر ہمارے دانشور
حضرات روز میڈیا پر آ کر اسرائیل اور امریکہ کو گالیاں دیتے بھی رہیں تو ان
کو فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ اس سے بڑھ کر کچھ اور کر
بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ امریکہ میں ٹرمپ کے آتے ہی انہوں نے پاکستان کے لیے
80 ارب ڈالر سالانہ بجٹ مختص کر دیا تھا امداد کے طور پر۔ لہٰذا مقروض بندہ
دل ہی دل میں برا کہہ سکتا ہے سامنے آ کر بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور اس
سے پہلے بھی امریکہ تھوڑی تھوڑی Doseدیتا رہا ہے جس میں ٹرمپ کی طرف سے
پہلے ہی پاکستان کو دہشت گردوں کا پناہ گزیر ملک قرار دیا گیا تھا اور
انڈیا کو کلین چٹ دے دی گئی تھی۔ جس کے ردعمل میں ملک میں بہت ہی قابل عزت
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ صاحب نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ ہمیں امریکہ کی
امداد نہیں بلکہ اعتماد چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
المختصر یہ کہ مشہور کہاوت ہے، جس کی لاٹھی اسی کی بھینس۔ اب مجھے لکھنے کی
ضرورت نہیں ہے کیونکہ سب جانتے ہیں لاٹھی کے آگے بھینس بن کر کون چل رہا
ہے؟ اسی طرح ایک دفعہ مسٹراوباما نے بھی ایک Statement دی تھی کہ
"Jerusalem will be the capital of Israel as America foreign policy".
لہٰذا پھر اس Statement کو پورا اوبامہ کرے یا مسٹر ٹرمپ، اس سے خاص فرق
نہیں پڑتا۔ اب یہاں پر اگر کوئی اپنا رول پلے (Role Play) کر سکتا ہے تو ہو
او آئی سی (OIC) ہے۔ OIC، 1969ء میں ایک ایسے ہی واقعہ کے بعد وجو د میں
آئی تھی جس میں ایک یہودی نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگانا چاہی تھی اور وہ اپنے
اس مقصد میں کم و بیش کامیاب بھی ہو گیا تھا جس کے بعد دنیا کے مختلف
اسلامی ممالک نے Organisation of Islamic Coorporation کے نام سے ایک تنظیم
بنائی تھی یعنی یہ وہ تنظیم ہے جس کی بنیاد ہی مسجد اقصیٰ کی حفاظت پر رکھی
گئی تھی۔ اس وقت 57 ممالک اس آرگنائزیشن کے ممبرز ہیں اور 56وہ ہیں جو UN
کے بھی ممبرز ہیں اس واقع کے بعد پتہ چل جائے گا کہ
"OIC make or break".
باقی اگر صرف پاکستان پر امید لگائی جائے تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہنے کے
مترادف ہو گا کیونکہ وہ ملک مسلمانوں کے قبلہ اول کو کیسے بچا سکتا ہے جس
کی اپنی گورنمنٹ ملک کے آئین سے ختم نبوت کی شق کو ختم کرنا چاہتی
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
|