بلدیاتی مسائل اور غیر یقینی صورتحال

شہر کراچی کے بلدیاتی مسائل کو نظرانداز کرنے اور اہلیان کراچی کی مسلسل بڑھتی پریشانیوں کا کون ہے زمہ دار ؟ ان سوالات کے پیچھے سامنے جوابات ہونے کے باوجود انکا حل کیوں نہیں نکالاجارہاہے مسائل کی اصل جڑصرف مئیرکراچی وسیم اختر اور ایم کیوایم کو ہی کیوں سمجھاجاتا ہے ماضی میں یہ کہا جاتا تھا کہ ایم کیوایم طویل عرصے تک شریک حکومت رہی اور شراکت داری میں ایم کیوایم نے جوبھی اچھے کام کیئے وہ سندھ حکومت کے کھاتے میں جاتے رہے یہ بیچارے ایم کیوایم والے بھی ہر دور حکومت میں شریک ہوتے ہوئے بھی کھبی حکومت میں نہیں رہے ہربار سندھ کا وزیراعلی ایم کیوایم ایم سے نہیں تھا اس لئیے ایم کیوایم کے کھاتے میں سب برے کام ڈالنا اور دوسری شریک صاحب اختیار صوبے کے وزیراعلی سندھ حکومت کوبری الذمہ قراردینا عجب جاہلت مطلق سوچ کی عکاسی کرتی ہے ہردور حکومت میں ایم کیوایم شریک رہی لیکن شریک ہونے سے حکومت نہیں ہوتی شراکت داری ہوتی ہے اس لئیے عقل وشعور کو اگرمدنظررکھا جائے (شعور کاہونا شرط ہے)تو ایم کیوایم کا جب تک وزیراعلیٰ نہیں ہوتا اس وقت تک صرف متحدہ قومی موومنٹ کے ہر اچھے اور ہربرے کام میں شریک صوبائی حکومت شریک زمہ دار ہوگی کیونکہ شراکت داری دونوں طرف ہے دور جمہوریت کی نااہلی کی اس سے بدترین مثال کیا ہوگی کہ آج تک 70سال میں صرف ایک بار ہی بلدیاتی انتخابات دور جمہوریت میں کروائے گئے موجودہ بلدیاتی انتخابات جن حالات میں ہوئے اس سے زیادہ سیاہ بلدیاتی انتخابات پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوئے دور جمہوریت کی سیاہ کاری کو دنیا نے دیکھا کرپشن سے لیکر اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جس طرح کاتعصبی طرزعمل وفکر اپنایا جاتا ہے کسی ترقی یافتہ ملک میں اسکی مثال نہیں ملتی ہے پاکستانی جمہوری سیاست میں اخلاقیات کا بدترین فقدان اپنی جگہ موجود ہے بات اگر بلدیاتی انتخابات کی جائے تو جمہوریت کا بدنما پہلو اس طرح سامنے آتا ہے کہ دور آمریت میں لوکل گورنمنٹ الیکشن ہوئے اور دور جمہوریت میں بلدیاتی انتخابات ڈنڈے کے ذور پر کروائے گئے۔جنرل ایوب خان کے دور حکومت 1959 ء میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جنکو BASIC DEMOCRACIES SYESTEM))بنیادی جمہوری نظام کا نام دیا گیا دور آمریت میں لوکل گورنمنٹ انتخابات ہوئے جنرل پرویزمشرف کے اقتدار 2000 ء میں بلدیاتی الیکشن جنکو سٹی ڈسرکٹ گورنمنٹ کا نام دیا گیا۔ایم کیوایم نے تاریخی کامیابی حاصل کی اس وقت ایم کیوایم کے بڑے نے نہ جانے کہاں سے ڈھونڈ کرایک گمنام نوجوان کو مختلف تربیتی مراحل سے گزار کر دنیا کے سامنے پیش کردیا جب کام شروع کیا تو اور مسلسل ملنے والی رہنمائی کی بدولت دنیا نے اس نوجوان کو ناظم سیدمصطفی کمال کی حثیت سے جانا گمنامی کے اندھیروں سے باہر نکال کرایم کیوایم نے مصطفی کمال کو ایک نئی پہچان دی جسکا اظہار مصطفی کمال نے ہر سطع پر کیا انہوں ہرچینلز پر یہ کہا کہ آج میں جوکچھ بھی ایم کیوایم کے بڑے کی وجہ سے ہوں اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ سٹی ناظم سیدمصطفی کمال نے ملنے والی رہنمائی اور سخت ہدایت کی بدولت شہر کراچی کو نیاویژن دیا اور کسی کی محبت وہدایت کی مرہون منت انکو اﷲ تعالی نے عزت شہرت کے ساتھ ایک مقام بھی ملا.دن رات محنت کے پیچھے اصل ہاتھ کس کاتھا یہ اہلیان کراچی سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا ہے.سٹی ڈسرکٹ گورنمنٹ کے بعد تو بلدیاتی انتخابات گویا ایک خواب بنکررہ گئے مسلسل عوامی مطالبے پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2013 ء میں بلدیاتی انتخابات کرانے کاحکم دیاتوایسالگا کہ جمہوریت کا جنازہ ہی نکل گیا دورجمہوریت میں پہلی مرتبہ لوکل باڈیز الیکشن کے انعقاد نے جمہوریت پسندوں کے گھروں میں صف ماتم مچادی لیکن مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق انکو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا ایم کیوایم نے ایکبار پھر بدترین سیاسی حالات میں جبر کے سائے میں تاریخی کامیابی حاصل کرکے سیاسی جماعتوں اور سندھ حکومت کو یہ بتایا کہ عوام کے دلوں میں ایم کیوایم زندہ ہے اس بلدیاتی انتخابات میں ایم کیوایم کی کامیابی سے ارباب اختیار کو پریشانی لاحق ہوئی کہ اگر منتخب میئر کراچی اور بلدیاتی نمائندوں نے ماضی کی طرح اس بار بھی بہتریں کام کردیا تو آگے آنے والے الیکشن 2018 میں اہلیان کراچی انکو پھر سے منتخب کرینگے تاریخ کے سیاہ ترین بلدیاتی الیکشن جو کہ اعلی عدلیہ کے چابک مارنے کیوجہ سے ممکن ہوسکے ان بلدیاتی انتخابات کو ان جمہوری حکمرانوں نے مکمل طور پرسیاہ کردیا اور پھر سونے پہ سہاگہ ان لوکل باڈیز الیکشن میں ایم کیوایم کی کامیابی نے سندھ کی جماعتوں کوہیجانی کفیت میں مبتلا کردیا مئیر کراچی وسیم اختر کواپنے سیاسی مقدمات کاسامنا کرنا پڑا اور دنیا نے دیکھا کہ میٹروپولیٹن سٹی کادرجہ رکھنے والے شہر کراچی کامیئر جیل سے آکر اپنے عہدے کاحلف لیتا ہے اور پھر مئیر کراچی کو سندھ حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے منافقت کاسامناکرناپڑتا ہے کیونکہ یہ وہی وقت ہوتا ہے جب ایم کیوایم کا سیاسی جہاز سازشی اور مسلط کردہ آزمائش میں ڈگمگانے لگتا ہے کف افسوس کیساتھ یہ لکھنا مجبوری قلم ہے کہ شہرکراچی کی عوام بے پناہ بلدیاتی مسائل ودیگرمشکلات اور بدترین لوڈشیڈنگ۔ شہر کی کم آبادی دکھائے جانے کے باوجود تعصبی مردم شماری وجہ صوبائی حکومت اسکے ساتھ سیوریج۔ٹوٹی سڑکیں۔کچرے کے ڈھیر تعفن زدہ ماحول کا سامنا گھٹن قلب کے ساتھ برداشت تو کرسکتی ہے لیکن اپنے بنیادی حقوق کے حل کے لیئے آواز بلند نہیں کرسکتی ہے اس سے زیادہ المیہ کیا ہوگا کہ بنیادی حقوق مانگنے پر اب تو ایف آئی آر درج کرنے کی روایت پڑتی جارہی ہے۔شہرکراچی کی عوام خود ہر ظلم سہنے کا گناہ کبیرہ کررہی ہے حق اور بھیگ کافرق شاید ختم ہوتا جارہاہے یہاں سارا قصور سندھ حکومت کانہیں ہے کیونکہ شہرکراچی کی عوام نے اپنے اوپر ظلم کرنے کامکمل اختیار ارباب اختیار کو دے دیا ہے بلدیہ عظمی کراچی کو ہرطرح سے کنگال کرکے سارے ریونیودینے والے والے محکمے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا نام تبدیل کرکے مالی اختیارات پر بھی اپنی اجارہ داری قائم کرلی یہاں بھی عوامی خواب غفلت نے اس صورتحال پر انگڑائی نہیں لی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ماسڑپلان۔ہلیتھ ۔واٹربورڈ۔لوکل ٹیکس ۔پرائس کنٹرول لسٹ۔ملچینگ ٹول ٹیکس وٹیرنری۔دیگر محکموں کو اپنی ماتحتی میں لیکر بلدیہ عظمی کراچی کوبھکاریوں کی صف میں لاکھڑاکیا جس میں بلدیہ عظمی کراچی کے وہ اعلیٰ افسران بھی قصوروار ہیں جو گیڈر۔نان گیڈر میرٹ سے آزاد اپنے لیئے گوشہ عافیت میں سکون سے کام کرتے رہے اور مال بناتے رہے ان کرپٹ افسران کو سندھ حکومت کی کسی نہ کسی طرح آشیرباد حاصل رہی اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ میرٹ کے قتل عام نے بلدیہ عظمی کراچی کو نقصان اور سندھ حکومت کوزیادہ فائدہ پہونچایا۔فنڈز اور اوزیڈٹی کی مد میں کٹوتی کرکے جوبھیگ بلدیہ عظمی کراچی کو ملتی رہی اس سے سسٹم میں بہت خرابیاں پیدا ہوتی چلی گئیں۔ریکوری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ریوینو حاصل کرنے والے ذرائع نہ ہونے کے برابر رہ گئے کیونکہ ریونیو دینے والے زیادہ محکمے سندھ حکومت کے پاس تھے میئرکراچی اختیارات کی بھیگ مانگتے رہے جوکہ انکو اپنے شہر کی عوام کے حق کے طور لینا چاہیئے تھا سندھ حکومت کی مداخلت ابن مداخلت نے بلدیہ عظمی کراچی کو یرغمالی بنالیا گھوسٹ ملازمین کا شوشہ چھوڑ کر بلدیہ عظمیٰ کراچی میں سندھ حکومت نے معاشی دہشت گردی کی مثال قائم کرتے ہوئے پچھلے کئی سالوں سے ملازمت کرنے والے عارضی ملازمین کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے سے مئیرکراچی کو یہ کہہ کرروک دیا کہ ہم ان کنڑیکٹ ملازمین کا بجٹ نہیں دینگے جسکی وجہ سے دوسوکے قریب ان کنڑیکٹ ملازمین کو مئیرکراچی نے توسیع کے عمل سے روک دیا جسکی وجہ سے ان ملازمین کے خاندانوں پر کیا اثرات مرتب ہونگے اسکا اندازہ ہرذی شعور ہے لیکن ارباب اختیار کو نہیں ہے

Syed Meboob Ahmed Chishty
About the Author: Syed Meboob Ahmed Chishty Read More Articles by Syed Meboob Ahmed Chishty: 34 Articles with 26202 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.