اچھا تاثر بہترین لباس ہے

بعض لوگ بڑے جذباتی ہوتے ہیں۔ہر وقت لا حاصل بحث ۔ جس چیز کو دلیل کہا جاتا ہے وہ انہیں پسند نہیں وہ دلیل اسے ہی جانتے ہیں جو ان کے ذہن میں آتی ہے یا جسے وہ اپنے خاص پیمانے کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ میرے چند دوست بھی اس فیلڈ کے شاندار کھلاڑی ہیں اور لا حاصل بحث کے رسیا۔ان کے درمیان روزمقابلہ ہوتا ہے اور دو دو گھنٹے کی بحث کے باوجود نہ کوئی ہارتا اور نہ کوئی جیتتا۔بس جس کو کوئی کام یاد آتا ہے وہ بحث کو وہیں چھوڑ کر اپنا کام کرنے چلا جاتا ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی کسی بحث کا آغاز کیا تھا۔ اگلے دن یا اگلے وقت اگلا موضوع اور نئی بحث۔ ایک نے کسی چیز کے حق میں کوئی بات کی ،فوراً دوسرا اس کی نفی کو تیار ہوتا ۔ تیسرا اپنی منطق لے آتا ہے۔ لگتا ہے وہ شاید ایک دوسرے کے خلاف بولنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ حالانکہ دوستی بھی بہت ہے۔ مگر ہر روز آپس میں بحث نماجھگڑا یا جھگڑا نما بحث کئے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ ان کی مجبوری ہے۔میرے جیسا کوئی غلطی سے اس بحث کے دوران ان کے قابو آ جائے تو سب بار بار داد طلب نظروں سے اسے دیکھتے اور چاہتے ہیں کہ اسی کی بات کو صحیح مانا جائے۔

چند دن پہلے زبردست بحث جاری تھی اور میں ان کے قابو آ چکا تھا۔ ۔ میرا ایک دوست کہہ رہا تھا کہ ہمارے عوام بے شعور ہیں۔ اور موجودہ سیاسی صورت حال اس کا واضع ثبوت ہے۔ایک حلقے میں الیکشن ہوتا ہے۔ایک امیدوار حاضر ہوتا ہے اور دوسرا غائب۔ مگر کمال یہ ہے کہ حاضر ہار جاتا ہے اور غائب جیت جاتا ہے۔کوئی نہیں سوچتا کہ حلقے کے مکین اپنے د کھڑے کسے سنائیں گے۔ کسی اجتماعی مشکل میں کس سے بات کریں گے۔جو لوگ سوچ نہیں سکتے، سمجھ نہیں سکتے۔وہ باشعور کیسے ہو سکتے ہیں۔ حکمرانوں کے اپنے مفادات ہیں وہ ان مفادات کی قید سے باہر نہیں نکل سکتے۔ مفادات کے تحفظ کے لئے وہ ہر صحیح بات کو بھی غلط قرار دے دیتے ہیں۔ عوامی نمائندگی کے لئے جن لوگوں کو چنا جاتا ہے وہ بک جاتے ہیں۔ جھک جاتے ہیں ۔میرا دوسرا دوست کہہ رہا تھا کہ لوگ با شعور ہیں وہ شخصیات کو نہیں پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔انہیں امیدوار سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔وہ اپنی پسندیدہ پارٹی پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔پارٹی کی ایک مکمل تنظیم ہے ۔ اس کے نمائندے ہر جگہ موجود ہیں ۔ ہر کام ایک اصول کے تحت ہوتا ہے۔ لوگ کارکردگی کی بنیاد پر پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں ۔ فرد کی حیثیت کچھ نہیں۔اپنے کارکنوں کی وساطت سے پارٹی گراس روٹ تک کام کرتی اور ہر شخص سے رابطہ رکھتی ہے۔یہی اصل جمہوریت ہے۔یہی جذبہ عوام کو آنکھیں بند کرکے اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے پر مائل کرتا ہے۔تیسرے کا خیال تھا کہ الیکشن اس ملک کے مسائل کا حل نہیں ۔ لوگ الیکشن چاہتے ہی نہیں ۔ لوگ انقلاب کے متلاشی ہیں۔ اور حقیقی انقلاب صرف وہ ہے جو ان کا لیڈر لا سکتا ہے۔اس کے بعد اس نے اپنے لیڈر کی اتنی خوبیاں گنوائیں کہ میں سن کر پریشان ہو گیا، مگر عقیدت تو عقیدت ہے۔بت پرستی کو مات کرتی ہے۔
ا تنے زور دار دلائل کے بعد اب وہ سب فیصلے کے لئے میری شکل دیکھ رہے تھے۔ مجبوری تھی، میں بولا کہ بھائی کیا کہوں ۔ جمہوریت عوام کی ہوتی ہے، عوام میں سے ہوتی ہے اور عوام کے لئے ہوتی ہے۔ میں تو اس ملک کے ان بیس کروڑ سے زیادہ خواص میں شامل ہوں جو صبح سے شام تک مزدوری کرتے ہیں اور اس محنت کے نتیجے میں بمشکل اپنی روٹی پوری کرتے ہیں۔ مجھے ایسے مسائل کے بارے سوچنے کی فرصت کہاں۔ یہ سوال کا جواب اس ملک کے وہ چیدہ چیدہ چند لاکھ لوگ ہی دے سکتے ہیں جو اصلی عوام ہیں جو اس ملک کے تمام وسائل پر قابض ہیں اور جنہیں سیاست کی فرصت ہے۔ یہ ملک جن کے لئے ہے ، یہ ملک جن کے دم سے ہے ۔ان لوگوں کو میرا جواب پسند نہیں آیا اور وہ سب مجھ سے ناراض ہو گئے۔

ایک دن بحث جاری تھی کہ سینٹ میں قائد حزب اختلاف کے لئے جماعت اسلامی کسے ووٹ دے گی۔ ایک کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کے اعظم سواتی کو دے گی۔ اسلئے کہ وہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حلیف ہے اور اپنی چار سالہ رفاقت نباہے گی۔ دوسرے کا خیال تھا کہ جماعت پیپلز پارٹی کو ووٹ دے گی کیونکہ سینٹ میں یا مرکز میں وہ تحریک انصاف کی حلیف نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے زیادہ قریب ہے۔ایک کا خیال تھا کہ جماعت غیر جانبدار رہے گی اسے تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن) سے کوئی غرض نہیں۔ بڑی زور دار بحث تھی کوئی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ فیصلے کے لئے آخر میں قرعہ فال میرے نام نکل آیا کہ بتاؤں کس کو ووٹ مل سکتا ہے۔میں نے کہا کہ جماعت ا سلامی جس نہج پر چل رہی ہے اور جس طرح کے کمال فیصلے کر رہی ہے اس سے میرا خیال ہی نہیں مجھے کامل یقین ہے کہ محترمہ شیریں رحمان کے اسلامی تخشص کو دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی کے تمام لوگ دامے درمے قدمے سخنے ان کی کامیابی کے لئے کوشاں ہوں گے اور صرف انہی کو ووٹ دیں گے۔ پتہ نہیں اس دن کیا ہوا سب میرا جواب سن کر قہقے لگانے لگے۔

کل تو حد ہو گئی۔ جیالا متوالے کو گالیاں دے رہا تھا، متوالے نے کھیل والے کے گریبان کو پکڑا ہوا تھااور کھیل والا اپنی لٹھ جیالے کو مارنا چاہتا تھا۔بڑی مشکل سے ان سب کو قابو کیاکہ بھائی آپس میں کیوں لڑتے ہو۔کسی بھی سیاسی جماعت نے تم کو کیا دینا ہے۔ ہم صرف میری پارٹی میری پارٹی کہہ کر خوش ہوتے ہیں۔پارٹی کا کوئی لیڈر آپ کو اپنی مسکراہٹ سے زیادہ کچھ نہیں دیتا اور نہ ہی دے سکتا ہے۔سیاست ایک انڈسٹری ہے جس میں بھاری سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے۔ جو شخص یہ سرمایہ کاری کر کے آتا ہے اسے لوگوں سے زیادہ اپنی سرمایہ کاری میں اپنے سرمایے کی واپسی سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ہمارا تعلق جس طبقے سے ہے اس طبقے کو کوئی نہیں پوچھتا۔ کسی ابتلا کی صورت میں ،میں آپ کے ساتھ اور آپ میرے ساتھ ہونگے۔ کوئی سیاستدان نظر نہیں آئے گا۔افسوس کہ ہم اس بات کو سمجھ نہیں پاتے اور کرائے کے لوگوں سے بھی بڑھ کر جانفشانی سے اپنی پارٹی کے لئے مفت کام کرتے ہیں۔

ہم آپس میں اس طرح لڑتے ہیں کہ لگتا ہے ابھی بالغ ہی نہیں ہوئے۔اس عمر میں جب ہمیں دوستوں سے زیادہ کوئی عزیز نہیں ہونا چائیے ، سیاسی تعصب میں ہم دوستوں کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔جس سے شاید دوست کو اتنا نقصان نہیں ہوتا لیکن ہمارا اپنا ہلکا پن سب پر ظاہر ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا۔ہم اپنی عدلیہ کو گالیاں دیتے ہیں۔پوری دنیا میں عدلیہ کے فیصلے کسی نہ کسی پر گراں گزرتے ہیں۔مگر ان فیصلوں پر جس طرح ہم تنقید کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس اندازکو اپنانے والا کوئی شخص کبھی مہذب نہیں کہلاتا اور نہ ہی وہ معاشرہ مہذب ہوتا ہے۔دیانتداری سے سوچیں کون سی سیاسی پارٹی ہے جس میں ڈاکو موجود نہیں۔جس میں حرام خور ، رشوت خور اور ضمیر فروش پائے نہیں جاتے۔ ہمارے پاس کوئی نعم البدل نہیں، ہم مجبوراً کم بری پارٹی کے سحر میں غائب رہتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ہماری مذہبی جماعتیں سیاسی سمجھ بوجھ سے عاری ہیں۔ وہاں بھی خاندان اور اقربا پروری عروج پر ہے۔ ان میں کچھ قلی ہیں کچھ کاروباری۔ قلی اﷲسے جزا کے شوق میں پارٹی میں مصروف عمل ہیں اور کاروباری اپنا کمال دکھا رہے ہیں ۔ نظریاتی طور پر جو نقصان ہو رہا ہے قیادت کو اس کی خاص پروا نہیں۔ بہت سوں کو میری باتیں بری لگیں گی مگر کیا کروں میں نے لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ دوستوں سے یہی استدعا ہے کہ سیاست کو ذاتی زندگی میں زہر گھولنے کی اجازت نہ دیں ایک دوسرے کا احترام کریں اور اپنی ذات کا تاثر بہتر رکھیں کیونکہ کہتے ہیں کہ اچھا تاثر بہترین لباس ہے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501026 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More