تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
گزشتہ روز میں اپنے دفتر میں بیٹھا اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف
عمل تھا کہ اسی دوران ایک عمر رسیدہ شخص مجھ سے مخا طب ہو کر کہنے لگا کہ
نہ تو میں کوئی سیاست دان اور نہ ہی میں کوئی عالم دین ہوں اور ویسے بھی
میں خداوندکریم سے دعا گو ہوں کہ خداوندکریم اپنے محبوب کے صدقے نہ تو مجھے
پاکستانی عالم دین بننے کی توفیق دے اور نہ ہی سیاست دان بننے کی آج میں
فقط پاکستانی ہونے کے ناطے ملک بھر کی عوام سے چند ایک سوالات پوچھتا ہوں
کہ وہ مجھے پوری ایمانداری سے صرف یہ بتا دیں کہ وہ کونسا پاکستانی عالم
دین ہے جو سنت نبوی کے مطا بق اپنی زندگی گزار رہا ہے یا پھر وہ سیاست دان
جو صادق اور امین بن کر ملک وقوم کی بہتری اور بھلائی کیلئے اقدامات کرنے
میں مصروف عمل ہو افسوس صد افسوس کہ جس ملک کے عالم دین دولت کی ہوس کے
پجاری بن کر مذہبی و لسانی فسادات کروا کر بھائی چارے کی فضا کو تباہ و بر
باد کرنے جبکہ سیاست دان نسل در نسل سیاست کو اپنے باپ دادا کی جا گیر سمجھ
کر اس ملک کے متعدد اداروں کو اونے پونے داموں اپنے منظور نظر افراد کو
فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ باقی ماندہ اداروں کو لوٹ مار ظلم و ستم اور
ناانصافیوں کی آ گ میں جھونک کر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہوں تو
ہر طرف سے دھواں ہی دھواں دکھائی دے گا جس کی زد میں آ کر ہر آ نکھ اشکبار
نہ ہو گی تو پھر کیا ہو گی آج میں یہاں آپ کی وساطت ست تمام مکاتب و فکر سے
تعلق رکھنے والے علمائے دین سے ایک سوال پو چھتا ہوں کہ حج کے دوران آپ
تمام علمائے دین اکھٹے ہو کر نہ صرف ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر حج ادا کرتے
ہو بلکہ ایک دوسرے کی دعوتیں بھی قبول کرتے ہو لیکن جونہی اپنے ملک میں
واپس آتے ہو ایک دوسرے کے خلاف طوطے کی طرح آ نکھیں بدل لیتے ہو آ خر کیوں
ذرا آپ یہ بتانا گنوارہ کرے گے کہ وہ کونسی مجبوری ہے جو تمھیں بھائی چارے
کی فضا کو بر قرار رکھنے کے بجائے ایک دوسرے پر غلیظ کیچڑ جس سے اسلام کا
کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہوتا اچھالنے پر مجبور کر دیتی ہے تو یہاں مجھے
ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ ایک دفعہ شاہی حجام محل کے ایک کونے میں
بادشاہ سلامت کی شیو کرنے میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران شاہی حجام نے
بادشاہ سلامت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ کی بیٹی بھی جوان
ہے اور میرا بیٹا بھی جوان ہے لہذا ہم آ پس میں رشتہ طے کر لیتے ہیں یہ سن
کر بادشاہ سلامت کو بہت غصہ آ یا اور وہ وہاں سے اٹھ کر سیدھا اپنے وزیر
خاص کے پاس پہنچا اور اُس کو اس واقعہ سے آ گاہ کیا جسے سننے کے بعد وزیر
خاص نے شاہی حجام کو فوری طور پر طلب کر کے اس واقعہ کے بارے دریافت کیا جس
پر شاہی حجام نے اس واقعہ سے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ٹڈی
اور کیا ٹڈی کا شوربہ میری کیا اتنی اوقات ہے کہ میں ایسی گفتگو کروں اور
وہ بھی بادشاہ سلامت سے وزیر خاص نے شاہی حجام کی اس بات کو سننے کے بعد
کچھ دیر سوچنے کے بعد بادشاہ سلامت سے کہا کہ آپ نے محل کے کس کونے میں
بیٹھ کر شیو بنوائی تھی اب پھر اُسی جگہ پر بیٹھ کر شاہی حجام سے اپنی شیو
میری موجودگی میں بنوائے قصہ مختصر بادشاہ سلامت ایک بار پھر وزیر خاص کی
موجودگی میں محل کے اُسی کونے میں بیٹھ کر شاہی حجام سے اپنی شیو بنوانے
لگا تو ایک بار پھر شاہی حجام نے بادشاہ سلامت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
آپ کی بیٹی بھی جوان ہے اور میرا بیٹا بھی جوان ہے لہذا ہم آ پس میں رشتہ
طے کر لیتے ہیں یہ سننے کے بعد بادشاہ سلامت نے اپنے محافظوں کو حکم دیتے
ہوئے کہا کہ اس شاہی حجام کا سر تن سے جدا کر دو بادشاہ سلامت کا یہ حکم
سنتے ہی وزیر خاص نے فوری طور پر مدا خلت کرتے ہوئے بادشاہ سلامت سے عرض
کرتے ہوئے کہا کہ شاہی حجام کا سر تن سے جدا کرنے سے قبل محافظوں کو حکم
دیا جائے کہ جس جگہ شاہی حجام کھڑا تھا وہاں پر کھدائی کرے کھدائی کے چند
گھنٹوں کے بعد وہاں سے بہت بڑا خزانہ نکلا جس کو دیکھ کر وزیر خاص نے
بادشاہ سلامت کو عرض کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب اس خزانے کی تپش کا نتیجہ تھا
کہ جو شاہی حجام اپنی اوقات بھول گیا تھا بالکل اسی طرح یہ ڈالروں کی تپش
کا نتیجہ تو نہیں کہ جو ہمارے علمائے دین اپنے اسلامی فرئض و منصبی کو بھول
کر ایسے گھناؤنے اقدام میں ملوث ہو کر رہ گئے ہیں ہاں تو میں بات کر رہا
تھا اپنے ملک کے اداروں کی جس میں تعلیمی ادارہ سب سے اہم ہے جس پر حکومت
پاکستان اربوں کھربوں روپے خرچ کرنے کی دعویدار ہے لیکن افسوس کہ مذکورہ
ادارے میں بھی مفاد پرست سیاست دانوں اور اُن کے منظور نظر بیوروکریٹس کی
لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے جس کی چند ایک مثالیں میں ارباب و بااختیار کی
نظر کر رہا ہوں آپ ملک بھر کے کسی پرائیویٹ سکول کو دیکھ لیں وہاں پر فیسوں
کتابیں و کا پیاں وردیاں مضر صحت اشیائے خوردنوش جس میں ٹافیاں پاپڑ چنگم
وغیرہ سر فہرست ہیں کی مد میں غریب والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا
ہے جبکہ معصوم بچے مضر صحت اشیائے خوردنوش کے کھانے میں مختلف موذی امراض
میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں اور تو اور لاتعداد سکولوں میں بچوں کے کھیلنے
کیلئے گراؤنڈ تک نہیں ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ پرائیویٹ
سکولوں کے مالکان معصوم بچوں کو علم کی روشنی سے آ شنا کرنے والی اساتذہ کے
حقوق غضب کر کے پانچ سے چھ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دیکر ظلم و زیادتی کی
تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں جن کے اس گھناؤنے اقدام کو دیکھ کر یوں
محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں قانون کی نہیں بلکہ قانون شکن عناصر کی
حکمرانی ہے بالکل یہی کیفیت سرکاری سکولوں اور کالجوں کی بھی ہے جس کی ایک
چھوٹی سی مثال میں چناب کالج جھنگ کی دے رہا ہوں جہاں پر تقریبا پانچ ہزار
بچے تعلیم جیسے زیور سے آ راستہ ہوتے ہیں جن کے متعلق شنید ہے کہ ان معصوم
بچوں سے مذکورہ کالج کے پرنسپل زاہد خورشید لودھی جو غیر قانونی طور پر
مذکورہ کالج میں عرصہ آ ٹھ دس سال سے تعنیات ہے نے نجانے کس مصلحت کے تحت
مذکورہ بچوں سے ایک ہزار روپے اضافی فیس وصول کرنے میں مصروف عمل ہے یہی
کافی نہیں مذکورہ پرنسپل نے نجانے کس مصلحت کے تحت مذکورہ کالج کے مد مقابل
نیشنل بنک کی برانچ جہاں پر نہ صرف بچوں کی فیس بلکہ عملہ کو تنخواہ ملتی
تھی کی بجلی اور پانی وغیرہ بند کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی فیس اور عملہ کی
تنخواہ کے اکاؤنٹ مسلم کمرشل بنک میں کھولنے کے احکامات کر کے ظلم و زیادتی
کی تاریخ رقم کر دی ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ پرنسپل نے جو
مذکورہ کالج میں کروڑوں روپوں کی لاگت سے جو سولمنگ پول ملٹی ہال اور ٹی
سیون وغیرہ کی تعمیر کروائی ہے اگر وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف جو
اپنے آپ کو خادم اعلی کہلواتے ہیں صرف اور صرف چناب کالج جھنگ کا آ ڈٹ اپنے
کسی ایماندار اور فرض شناس آ فیسر جس کا تعلق ضلع جھنگ سے نہ ہو سے کروائے
تو انشاء اﷲ تعالی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا
بک گیا دوپہر تک بازار کا ہر ایک جھوٹ
اور میں شام تک ایک سچ کو لیے یونہی کھڑا رہا
|