مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ھے، یہ اسّی (۸۰) کی دہائی کی
بات ہےاتوار کے اتوار ٹھیک آٹھ بجے صبح دہلی دوردرشن پہ ایک مووی ڈرامہ لگا
کرتا تھا۔ اُس کا نام سٹار ٹریک (star trek) تھا۔ اِس کو بڑے انہماک سے
دیکھا کرتے تھے۔ اِس کو دیکھنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ یہ ایک ہالی ووڈ
(Hollywood) کی بنائی ہوئی سیریل تھی بلکہ میرے لئے اُس کی خاص وجہ اُس میں
دکھائے گئے جدّت سے بھرےمناظر تھے۔یہ کشش صرف مجھ تک ہی نہیں تھی بلکہ میری
عمر کے تمام بچوں میں خاص طور پر یکساں مقبول تھی۔
اُس میں دکھائے گئے جدید آلات آج بھی مجھے یاد ہیں۔ اسّی (۸۰) کے اوائل میں
ایک خلائی جہاز سے دوسرے خلائی جہاز میں موجود کِسی دوسری مخلوق سے بات
کرنا اور وہ بھی ایک دوسرے کو حاضر موجود دیکھتے ہوۓجس کو آج کے زمانے میں
(Live Video Call) کہتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ پُر کشش بات تھی۔
ایک جدّت اورتھی جِسے گزرتے وقت کے ساتھ ( Pager) کے نام سے موسوم کیا گیا۔
جس کی مدد سے ایک فرد دوسرے فرد تک اپنے پیغام پہنچا سکتا تھا۔ یہ پیغامات
تحریری بھی ہوتے تھے اور زبانی ہوتے تھے۔
دیگر جدیدیّت میں ایک یہ تھی کہ کمرے میں اندر جانے اور باہر آنے کے لئے
کِسی دروازے کے کھولنے کی ضرورت نہیں تھی بس آپ جیسے ہی دروازے کے قریب
پہنچیں گے دروازہ خود بخود کھل جاتا تھا۔اُجالا کرنے کے لئے صرف ایک آواز
دینا پڑتی تھی کہ روشنی (Light) اور بس روشنی خود ہی ہو جاتی تھی اور یہی
عمل روشنی ختم کرنے کے لئے دہرایا جاتا تھا۔
اور بھی بہت ساری منفرد ایجادات تھیں اُس میں جو کہ قابلِ دید تھیں۔ وقت
بہت تیزی کے ساتھ گزر ررہا ہے۔آج اکیسویں (۲۰) صدی کی دو دہائیاں گزرنے کو
ہیں کس نے سوچا تھا کہ کم و بیش تیس (۳۰) سال پہلے خواب نما فلموں میں نطر
آنے والی چیزیں آج حقیقت کا لبادہ اوڑھے موجود ہوں گیں۔
جی ہاں! آج اِنٹر نیٹ کے آ جانے سےدنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔جو چیزیں
میں کِسی دور میں صرف فلموں میں دیکھا کرتا تھا وہ میں خود استعمال کر رہا
ہوں مثلاً میرے بچپن میں تار والا فون (Landline) بھی کِسی کِسی کو میسَر
تھا جبکہ آج میں بغیر کِسی قِسم کی تار کے دنیا کے کِسی بھی کونے میں (جہاں
مواصلات موجود ہوں) کِسی سے بھی بات کر سکتا ہوں اور وہ بھی بالکل آمنے
سامنے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے۔
میں آج دنیا کے کِسی بھی کونے میں (جہاں مواصلات موجود ہوں) کِسی کو بھی
کِسی بھی قسم کا پییغام بھیج سکتا ہوں خواہ وہ تحریری ہو یا زبانی۔آج بہت
ساری عمارتوں مٔیں میں ایسے کئی دروازوں سے خود گزرا ہوں جہاں مجھے دروازہ
کھولنے کی ضرورت نہیں پڑی میں اُس کے پاس گیادروازہ خود بخود کُھلا اور بند
ہُوا۔اِسی طرح روشنی کے بھی خود کار ہونے کے بھی دیدہ ہُوے۔ وقت نے ایسی
تیز رفتار پکڑی کہ گزرتے حالات کی ہر شے ماضی کا کوئی قصّہ لگنے لگتی ھے۔
|