میں اکثر گلی کوچوں میں بهیس بدل کر آواز لگاتی ہوں.
"خواب خرید لو !"
"خواب خرید لو!".
"ورنہ میرا جو گم گیا ہے وہ لوٹا دو."
میرے اردگرد میرے وطن کے باسیوں کی بھیڑ اکٹھی ہوجاتی ہے. وہ حیرت سے مجھے
تکتے ہیں. ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہیں. کہتے ہیں:
"بے چاری کسی صدمے سے پاگل ہوگئی ہے. اس سے پوچھو یہ کیا بیچ رہی ہے. اس کے
ہاتھ تو خالی ہیں اس کے پاس بیچنے کے لیے تو کچھ بھی نہیں ہے. کس چیز کو
لوٹانے کا مطالبہ کرتی ہے؟
میں دیوانہ وار ہنستی ہوں اور کہتی ہوں:
"یہ دیکھو! میرے خوابوں کی ٹوکری. اس میں علامہ اقبال اور قائداعظم کا خواب
ہے ایک آزاد اور مضبوط اسلامی جمہوریہ پاکستان "
مجمع بھڑک جاتا ہے. ایک شخص چلا کر کہتا ہے :
یہ دیوانی ہے! اس کو مارو.ہم آزاد ہیں ،مضبوط ہیں اور الحمدللہ اسلامی
ریاست ہیں."
میری ہنسی رک جاتی ہے. میں پوچھتی ہوں.
"ہم کب آزاد ہوئے؟ انگریز چلا گیا مگر غلامانہ ذہنیت چھوڑ گیا. تم اس وقت
انگریز کے غلام تھے. اب مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے "مالکان " کے غلام
ہو.
مضبوط پاکستان ک کے پیر میں قرضے کی بیڑیاں نہیں ہوتیں. اسلامی مملکت میں
معصوم بچے، بچیوں کی عصمت دری نہیں ہوتی. عورت ایک جنس نہیں ہوتی. بہووں کو
زندہ جلایا نہیں جاتا، سہیل احمد ٹیپو جیسے ایماندار افسران کے قتل کو
خودکشی کا رنگ نہیں دیا جاتا.غربت کے ہاتھوں تنگ آکر لوگ خودکشی نہیں کرتے.
ماوں کے فوجی بیٹے اور عورتوں کے سہاگ اپنے ہم وطنوں کے ہاتھوں نہیں شہید
ہوتے. سکولوں اور یونیورسٹیوں کے طالبعلم نہیں دہشت گردی کا نشانہ بنتے.
وہاں بموں کے دھماکوں سے لوگوں کے اعضا نہیں ہوا میں اڑتے. وہاں مشال خان،
نقیب اللہ محسود، امجد صابری بے موت نہیں مرتے. وہاں بجلی، گیس اور پانی کا
بحران نہیں ہوتا. ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر چار چار مریض نہیں لیٹتے.
وہاں عورتوں کے بچے سر راہ نہیں پیدا ہوتے.وہاں خاندان میں بہو کی عزت سستی
نہیں ہوتی اس کو گالیاں دے کر طلاق دے کر گھر سے نہیں نکالا جاتا. وہاں
لڑکیاں جہیز نہ ہونے کے باعث گهر میں نہیں بیٹهی رہتیں. "
مجمع میں لوگوں نے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے.
میں چلائی" مجھے لوٹا دو.
عزت،تحفظ، مان ،سلامتی، امن، خوشحالی .....،"
مجمع چهٹنے لگا. لوگ آپس میں کہ رہے تھے.
"بے چاری پگلی. ....." |