برطانیہ کے قبضے والے 53 ملکوں پر مشتمل برطانوی تنظیم
''کامن ویلتھ''(دولت مشترکہ) کی سالانہ کانفرنس اور بھارتی وزیر اعظم
نریندر مودی کی لندن آمد کے موقع پربرطانوی پارلیمنٹ کے سامنے کانفرنس کے
حوالے سے پول پر نصب بڑے بھارتی جھنڈے کو کشمیری اور سکھ مظاہرین نے پول سے
اتار لیا اور پائوں تلے روندنے کے بعد بھارتی جھنڈے کو آگ لگا دی
گئی۔درجنوں ملکوں کے صحافیوں نے یہ نظارہ دیکھا کہ کشمیریوں پربھارت کے
انسانیت سوز مظالم کی صورتحال میں بھارتی وزیر اعظم مودی کے خلاف آزاد
کشمیر اور مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میںبرطانوی
پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرہ کیا۔سکھ فیڈریشن یو کے اور برطانیہ میں قائم ''
مائینوریٹیز انگیسٹ مودی گروپ '' کے افراد نے بھی ساتھ ہی بڑی تعداد میں
مظاہرہ کیا۔ پارلیمنٹ کے سامنے کے وسیع علاقے اور ڈائونگ سٹریٹ میں ہر طرف
بھارت مخالف نعروں کی گونج تھی اور مظاہرین نے بھارت کی سرکاری سطح پر ہونے
والی انسانیت سوز کاروائیوں کی مذمت میں پوسٹر اور بینر ہاتھوں میںاٹھائے
ہوئے تھے۔ایک انڈین صحافی نے جھنڈا اتارنے اور جلانے والے افراد کی وڈیو
بنانا شروع کر دی۔ مظاہرین نے اسے وہاں سے چلے جانے کو کہا لیکن وہ بدستور
ان کی وڈیو بناتا رہا۔اطلاعات کے مطابق مظاہرین میں شامل سکھوں نے اس انڈین
صحافی کی پٹائی شروع کر دی۔ایک انڈین خاتون صحافی نے جھنڈا اتارنے والے شخص
کی بابت پوچھنا شروع کر دیا جس پر مظاہرین کے کہنے پر پولیس نے خاتون انڈین
صحافی کو مظاہرے کے مقام سے نکال دیا۔موقع پر موجود برٹش پولیس نے انڈین
صحافی کی خلاصی کرائی۔
بھارت کا جھنڈا اتار نے اور جلانے کے واقعہ پر بھارتی سفیر یشوردھن کمار کی
شکایت پر پولیس اور فارن آفس سے شکایت کی گئی۔ اس پر دوسرا بھارتی جھنڈا
پول پر نصب کر دیا گیا۔برطانوی فارن آفس نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا
کہ لوگوں کو پرامن مظاہرے کرنے کا حق حاصل ہے،پارلیمنٹ سکوائر کے سامنے ایک
چھوٹی اقلیت کی طرف سے اس اقدام پر ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔بیان میں مزید کہا
گیا کہ وزیر اعظم مودی کے دورے سے ہمارے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور کئی
اہم شعبوں میں مزید پیش رفت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ کشمیریوں اور سکھوں کے
مظاہرے کے وقت برٹش پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا اوربھارتی وزیر اعظم مودی
بھی پارلیمنٹ کی عمارت میں موجود تھے۔
اس مظاہرے کے موقع پر برٹش پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا جس میں بھارت کے
خلاف ہونے والے مظاہرے اور مسئلہ کشمیر کے موضوع نمایاں رہے۔برطانوی وزیر
اعظم تھریسا مے نے کنزر ویٹیو پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ باب بلیک مین کے اس
مطالبے کو نظر انداز کر دیا کہ بھارت مخالفت گروپوں کی طرف سے سنٹرل لندن
میں ہونے والی مظاہرے اور لندن میں بسوں پر بھارت مخالف اشتہارات کی مذمت
کی جائے۔
وزیر اعظم تھریسا مے نے جوابی طور پر کہا کہ یقینا انڈیا یو کے کا ایک اچھا
دوست ہے تاہم انہوں نے بھارت مخالف مظاہروں اور بسوں کی بھارت مخالف اشہاری
مہم کی مخالفت نہیں کی۔
مانچسٹر سے لیبر پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ افضل خان نے پارلیمنٹ اجلاس میں
وزیر اعظم تھریسا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس پارلیمنٹ کے باہر کشمیر کے
اشو پر مظاہرے ہوتے رہتے ہیں اور آج بھی اسی حوالے سے پارلیمنٹ کے باہر
مظاہرہ ہو رہا ہے اور مظاہرین کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے وزیر اعظم
تھریسا مے کو ایک پٹیشن بھی پیش کی جائے گی۔افضل خان نے مزید کہا کہ انڈیا
اور پاکستان کے درمیان باہمی مزاکرات کا بیان نیو کلیئر فلیش پوائنٹ کے
حامل کشمیر اشو کو حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔افضل خان نے کہا کہ کیا
وزیر اعظم تھریسا مے امن اور جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں
کے معاملے میں دلیرانہ دبائو کی نئی راہ اختیار کریں گی؟ وزیر اعظم تھریسا
مے نے اس کے جواب میں کہا کہ'' بلاشبہ یہ ایک تشویشناک معاملہ ہے ،ہم اس
بات پہ قائم ہیں اس اشو کے لئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ انڈیا اور پاکستان
اکٹھے ہو کر خودیہ معاملہ حل کریں،اس سے یہ یقینی ہو گا کہ یہ مسئلہ( مسئلہ
کشمیر) حقیقی طور پر مستحکم طریقے سے حل ہو''۔ |