کوئی معزز جج سیاسی یا عوامی نہیں ہوتا۔ وہ سوشل بھی نہیں
ہوتا۔ اس کی سماجی زندگی معدوم رہتی ہے۔ وہ جلسے جلوس نہیں نکالتا۔ وہ عام
یاخاص دعوتیں نہیں اڑاتا۔ شادی وبیاہ ، موت و مرگ اور دیگر تقریبات میں جج
کی شرکت معیوب سمجھی جاتی ہے۔ وہ میڈیا سے دور رہتا ہے۔ زندگی کی چہل پہل
اور رنگینیاں اس کے لئے ناپید ہوتی ہیں۔ جج تقاریر اور خطابات نہیں کرتا۔
حکمران یا عام آدمی سے ملاقات کرنے جاتا ہے اور نہ ہی انہیں مدعو کرتا ہے۔
ان میں سے کوئی آئینی و قانونی ، کوئی اخلاقی اور کئی مروتی حدود و قیود
ہیں۔ جن کی پاسداری جج پر لازمی ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ جج پر کسی کی محبت
یا عداوت، رعب و دبدبہ ، تعلق واسطہ اثر انداز نہ ہو جائے۔ خدانخواستہ جج
نے کسی کا اثر لے لیا تو اس کی منصفی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کا قلم
لرز جائے گا۔ انصاف اور عدل پر حرف آئے گا۔ کسی سے ناانصافی یا ظلم و
زیادتی کا احتمال ہو گا۔ اسی لئے جج راستہ چلتے ہوئے بھی نظریں جھکائے
رکھتے ہیں۔ ایساکسی شرم یا حیا یا خوف یا دیگر عوامل کے باعث نہیں بلکہ صرف
عوامی تعلقات یا شناسائی سے دور رہنے کے لئے ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جج
نہیں بلکہ ان کے فیصلے ، عدل و انصاف بولتا ہے۔ اگر کوئی جج تحائف اور
نذرانے قبول کرے۔ مجالس برپا کرے۔ دعوتیں اڑائے۔ انٹرویو دے، بیانات جاری
کرے۔ تقاریر اور خطابات کو اہمیت دے۔ سیاسی ریمارکس ادا کرے۔ لوگوں سے الجھ
پڑے۔ کسی بات کو انا کا مسلہ بنا دے۔ تو بلا شبہ عدل و انصاف مشکوک ہا جائے
گا۔ سائل کا عدلیہ پر اعتماد متاثر ہو گا۔ اس سے عدلیہ کمزور ہو گی۔ عدلیہ
کے کمزور ہونے کا ساف مطلب جمہوریت کا کمزور ہونا ہے۔ آج پاکستان سمیت دنیا
میں عدل و انصاف کا نظام متاثر ہو رہا ہے۔ دنیا کی چمک دمک، نام و نمود،
شہرت و دولت نے سب کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔ اسی لئے لوگ اس جانب متوجہ ہو
رہے ہیں۔ مگر جج صاحبان کا رتبہ و مقام بلند ہے۔ انہیں مراعات و مفادات اسی
لئے زیادہ دیئے جاتے ہیں تا کہ انہیں کسی ضرورت، محتاجی یا مجبوری کے تحت
اپنے فیصلوں کو متزلزل کرنے کا موقع میسر نہ آئے۔ جج بھی انسان ہیں۔ ان کی
بھی خواہشات ہیں۔ ان سے بھی کوتاہی ہو سکتی ہے۔ ان میں سے بھی کسی نے سچ کو
جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا ہو گا ۔ ایسا ہونے کا تب احتمال رہتا ہے جب
جج بننے سے پہلے وکالت کا دور ہوتا ہے۔ وکلاء کی بھی سیاسی وابستگیاں ہوتی
ہیں۔ آج تقریباً ہر سیاسی پارٹی نے وکلاء ونگ قائم کر رکھے ہیں۔ جو پارٹی
بر سر اقتدار آتی ہے تو اپنے حامیوں کو جج تعینات کرنا اس کی ضرورت بن جاتی
ہے۔ یہاں سے ہی عدل کی کرسی کا تقدس اور احترام سیاست کی نذر ہونا شروع
ہوتا ہے۔ جو ہر گز اچھا شگون نہیں ہو سکتا۔ ہم خود آئین و قانون کو سیاست
زدہ کرتے ہیں ۔منفی نتائج کے وقت گلے شکوے بھی ہم ہی کرتے ہیں۔ پاکستان میں
بھی عدل و انصاف کا نظام اسی نوعیت کا بن رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج
صاحب پر حالیہ حملے اسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ آج مسلم لیگ ن اور عدلیہ کے
درمیان محاز آرائی جیسی کیفیت محسوس کی جا تی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
کوئی اور بھی یہ حملے کر سکتا ہے۔ پاکستان کے دشمن بھی بے شمار ہیں۔ جو
چاروں اطراف سے ملک کو گھیرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ تا ہم بھارت کے
حالات بہت زیادہ پریشان کن ہیں۔
بھارتی عدلیہ کی تشویشناک صورتحال پر متففکر ہونے کی معقول وجہ ہے کہ
کروڑوں مسلمانوں کو نا انصافی کی زد میں لایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ آف
انڈیا بھارت کے اجتماعی ضمیر کی تسلی اور تشفی کے لئے فیصلے صادر کر رہی ہے۔
اور اس منطق کا خود اعتراف بھی کرتی ہے۔ افضل گورو کی سزائے موت اور پھانسی
اس کی المناک مثال ہے۔ یہی نہیں بلکہ جسٹس برج موہن ہر کشن لویا سمیت تین
ججوں کا آر ایس ایس ہیڈ کوارٹرز ناگپور میں قتل بھی اس کی غمازی کرتا ہے۔
جب ایک مسلمان سہراب الدین کو فرضی اور جعلی جھڑپ میں بھارتی پولیس نے قتل
کیا جس طرح کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں فرضی مقابلوں میں کشمیریوں کو آزادی کی
جدوجہد کی سزا دے رہے ہیں۔ سہراب الدین کا قتل بھارتی ریاست گجرات میں کیا
گیا جہاں نریندر مودی وزیراعلیٰ تھے۔ اس قتل کیس میں بی جے پی صدر امت
شاہ(کٹر ہندو انتہا پسند ہیں، شاہ کے نام سے اکثر لوگ دھوکہ کھا جاتے
ہیں)ملزم تھے۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کو گجرات سے ممبئی ٹرانسفر کیا۔ جسٹس
اتپل جج تھے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ملزماں پیش نہیں ہو رہے تو انھوں نے سب
ملزمان کو ایک دن پیشی کے لئے طلب کیا مگر عین وقت جج کا تبادلہ کر دیا گیا۔
جب کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ اس کیس میں ایک ہی جج سماعت کرے گا۔
اس کے بعد جسٹس لویا کو سہراب الدین قتل کیس کا جج مقرر کیا گیا۔ بی جے پی
سربراہ کی وجہ سے جج پر بھی دباؤ ڈالا گیا مگر انکار پر انہیں دیگر دو ججوں
سمیت قتل کر دیا گیا۔ وہ سی بی آئی جج تھے۔ ان کے قتل کی آزادانہ انکوائری
کرانے سے بھارتی سپریم کورٹ نے انکار کر دیا۔جسٹس لویا کا قتل اب راز ہی
رہے گا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھارت کی عدلیہ کی تاریخ میں سیاہ دور کو
ظاہر کرتا ہے۔ کیوں کہ سپریم کورٹ نے صاف کہا کہ بی جے پی صدر کے خلاف قتل
مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج کے قتل کی آزادانہ تفتیش کی ضرورت نہیں۔ بی جے
پی صدر امت شاہ اس وقت گجرات کے وزیر داخلہ تھے جب سہراب الدین کو جعلی
مقابلے میں شہید کیا گیا۔ جج کے قتل کے بعد نئے جج نے بی جے پی صدر کو بری
کر دیا۔ وہ نریندر مودی کے قریبی ساتھی ہیں۔ رواں سال جنوری میں بھارتی
سپریم کورٹ کے سینئر ججوں نے چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ
اپنی پسندیدہ بینچوں کو مخصوص کیس دیتے ہیں۔ اشارہ سہراب الدین قتل کیس کی
طرف تھا۔ جس سے نیا تنازعہ کھڑا ہوا۔ اب چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس دیپک
مشراکی جانب سے عہدہ کے غلط استعمال سمیت دیگر پانچ الزمات پر اپوزیشن
کانگریس سمیت دیگر جماعتوں کے 64اراکین پارلیمنٹ نے تحریک ملامت کا نوٹس
دیا ہے۔ یہ نوٹس بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا یا سینیٹ کے چیئر مین کو
دیا گیا ہے۔ بھارت میں چیف جسٹس کے خلاف تحریک ملامت نوٹس راجیہ سبھا میں
جمع کرایاجاتا ہے جس کے لئے کم از کم 50ارکان پارلیمنٹ کے دستخط ضروری ہوتے
ہیں۔ مگر چیف جسٹس کے خلاف نوٹس میں بھی جج قتل کیس کی تفتیش کرانے کی
درخواستیں مسترد کرنے کا ذکر نہیں۔ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی عدلیہ اور اس کے
اکثر جج سوشل ہیں۔ ان کی سیاسی وابستگیاں ہیں۔ ابعدلیہ اور جمہوریت کا
انحصاراس بات پر ہو گا کہ بھارتی پارلیمنٹ تحریک ملامت نوٹس پرچیف جسٹس آف
انڈیا کے خلاف کیسی کارروائی کرتی ہے۔
|