جمعیت علمائے اسلام (ف) کی بے
وفائی کے بعد جہاں سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے وہیں ناراض سیاسی جماعتیں بھی
ایک دوسرے کے ساتھ تجدید عہد وفا میں مصروف ہیں اور یہ سب کچھ اس قدر غیر
متوقع ہے کہ سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں کا مقولہ سچ دکھائی دینے لگا
ہے۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ہم خیال کے رابطوں سے لے کر چودھری برادران
کی لاﺅ لشکر سمیت مولانا فضل الرحمٰن سے ”اظہار یکجہتی“ کے لئے ان کی رہائش
گاہ آمد کو دیکھیں یا پھر الطاف حسین کے ق لیگی قیادت کو ٹیلی فون پر نظر
ڈالیں نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے اور وہ ہے تبدیلی کی کوششیں!حکومت سے جے یو
آئی کی علیحدگی کے بعد حسب روایت پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمن کی
”ناراضگی“ دور کرنے کے لئے رابطے تو کر چکی لیکن بات نہیں بنی اور مولانا
کی پی پی قیادت کو کھری سی ”ناں“ کے بعد ہی اپوزیشن جماعتوں کے رابطوں میں
تیزی آئی ہے۔ سیاسی ہلچل، افواہیں اور تجزیوں کی بھرمار اپنی جگہ لیکن سر
دست جو حالات ہیں وہ پیپلز پارٹی کے حق میں ہیں کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ
سے اس سارے کھیل میں جس ”پرفارمنس“ کی امید کی جارہی تھی وہ سامنے نہیں آئی
جس کے بعد تھوڑی سی مشکل تو ضرور ہے لیکن حکومت کو فی الوقت کوئی خطرہ
دکھائی نہیں دے رہا۔
اسے حکمرانوں کی خوش قسمتی کہیے یا پھر سیاسی چالوں کا چمتکا ر کہ اپنے ہی
پاﺅں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف اقدامات کے باوجود انہیں کچھ فرق نہیں پڑا۔
ایک ہفتہ قبل جب سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے الزامات کے بعد
ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے ہنگامی اجلاس طلب کیا اور پھر اس کی جانب سے
کوئی سیاسی لائحہ عمل سامنے آنے سے قبل ہی وزراء کی برطرفی کی بنیاد پر
حکومتی اتحاد میں دراڑیں پڑیں تو چند ثانیوں کے لئے یہی محسوس ہوا کہ کچھ
نہ کچھ ہونے والا ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حالات معمول پر آتے گئے۔
تادم تحریر بھی اگرچہ تھوڑا سی اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے لیکن اعدادو شمار بتاتے
ہیں کہ راوی فی الحال حکومت کے لئے چین ہی چین لکھ رہا ہے اور جب تک ایم
کیو ایم کی طرف سے پیپلز پارٹی کو سرخ جھنڈی نہیں دکھائی جاتی کسی بھی
سیاسی تبدیلی کی توقع فضول ہی ہوگی۔ ممکن ہے کچھ مبصرین کو اپنی اپنی سیاسی
وابستگیوں کے وجہ سے حکومتی رخصتی بہت قریب دکھائی دے رہی ہو اور وہ حزب
اختلاف کے غیر روایتی رابطوں ہی کو اس تبدیلی کی بنیاد سمجھ رہے ہوں لیکن
ایسا کچھ نہیں ہونے والا اور ایسے ہم عصروں سے صرف اتنی گزارش ہے کہ بے پر
کی ہانکنے کے بجائے حقائق کے تناظر میں حالات کو پرکھیں کہ محض ہماری پسند
نا پسند سے تخت یا تختہ والی صورت حال پیدا نہیں ہو سکتی، اگر اپنی اپنی
جماعتوں کی مدح سرائی سے فرصت نہیں تو زیر نظر اعداد و شمار دیکھ لیں
بالکل”چانن“ ہوجائے گا۔
حکومت کی تبدیلی کے لئے محض سیاسی تجزیوں کی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے اندر
کی نمبر گیم سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی منطق کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو
پیپلزپارٹی کو اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے ایک سو بہتر ووٹوں کی ضرورت
ہے جبکہ قومی اسمبلی کی کل تین سو بیالیس نشستوں میں سے پیپلزپارٹی کے پاس
ایک سو تیس نشستیں ہیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل ایم کیو ایم کے پاس پچیس،اے
این پی کی تیرہ اور فنکشنل لیگ کے پانچ ارکان ہیں،اسمبلی میں موجود اٹھارہ
آزاد ارکان اسمبلی میں سے اکثریت کی حمایت بھی حکومت کو حاصل ہے۔ دوسری
جانب قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن پچانوے نشستوں کے ساتھ اپوزیشن کی سب سے
بڑی جماعت ہے۔ مسلم لیگ ق کے پچپن ارکان ہیں جبکہ پیپلزپارٹی شیر پاؤ،
نیشنل پیپلز پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک، ایک رکن پارلمینٹ میں
بیٹھا ہے۔ حکومت سے الگ ہونے والی جمعیت علمائے اسلام کے پاس صرف چھ ارکان
ہیں۔ بلاشبہ اسمبلی میں موجود آزاد ارکان کسی بھی وقت ہوا کے جھونکے کے
ساتھ اپنی پوزیشن تبدیل کرسکتے ہیں لیکن صرف اس وقت جب انہیں کچھ بہتر
دکھائی دے رہا ہو جبکہ اس وقت صورت حال ایسی نہیں کیونکہ ایم کیو ایم کی
جانب سے ابھی تک اختلافات کے باوجود حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا کوئی عندیہ
نہیں ملا۔ باالفرض اگر جے یو آئی کے بعد آزاد ارکان بھی حکومت کا ساتھ چھوڑ
دیں تو بھی پیپلزپارٹی کے پاس ایک سو تہترارکان رہ جائیں گے جو کہ مستحکم
نہ سہی لیکن حکومت ضرور قائم رہے گی ۔
کچھ مبصرین کی یہ بھی پیش گوئی ہے کہ جلد متحدہ قومی موومنٹ بھی پیپلز
پارٹی کو داغ مفارقت دے جائے گی لیکن باوثوق ذرائع کے مطابق ایسا کچھ نہیں
ہوگا اور ایم کیو ایم اپنی کچھ”مجبوریوں“ کے سبب بہرحال اتحاد میں شامل رہے
گی۔ فرض کر لیا کہ ایم کیو ایم بھی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو حکومت
ایک دفعہ ڈانواں ڈول تو ضرور ہوگی، گرے گی کہ اس صورت میں پیپلز پارٹی کا
ساتھ دینے کے لئے ق لیگ تیار بیٹھی ہے۔ چودھری برادران اگرچہ متواتر حکومت
کا حصہ نہ بننے کی گردان کر رہے ہیں لیکن یہ صرف ”ریٹ“ بڑھانے کا حربہ ہے۔
اطلاعات ہیں اگر کوئی”ناگہانی“ صورت بنی تو پھر پیپلز پارٹی ق لیگ کو پنجاب
حکومت کا دانہ ڈالے گی اور اسے ہر قیمت پر ایم کیو ایم کے متبادل کے طور پر
اپنے ساتھ ملالے گی۔ بعض باخبر تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ”دور اندیشی“ کا
مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں سیاسی جماعتوں نے معاملات بھی طے کر لیے ہیں اور ق
لیگ کا موجودہ واویلا اور پیپلز پارٹی کی لاپرواہی صرف دکھاوے اور اپوزیشن
جماعتوں کو دھوکے میں رکھنے کے لئے ہے۔
بھلا ہو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا جنہوں نے ملک میں کوئی سیاسی تبدیلی
دکھائی نہ دینے کا بیان دے کر تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں کھول
دی ہیں البتہ مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر حکومتی پالیسیوں کو تنقید
کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں اتحادیوں کے علیحدہ ہونے کی وجہ بیان فرمایا ہے
لیکن اندر کی اطلاعات رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ حکومت سے الگ ہونے کے بعد
مولانا اپنے چھ ارکان کو کہیں بھی ”ایڈجسٹ“ کرنے میں ناکام ہیں اور بائیس
دسمبر کو ہونے والے جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں”واپسی“ کے
طریقوں پر غور کیا جائے گا یہ اور بات ہے کہ اب کی بار”تنخواہ“ کچھ ذرا
زیادہ مانگی جائے گی جس میں وزارت مذہبی امور کا قلمدان بھی شامل ہے جسے
حکومت کی طرف سے بھی تھوڑی سی پس و پیش کے بعد قبول کرنے کے امکانات واضح
ہیں لہٰذا یہاں بھی ”کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے والی صورت
حال ہوجائے گی جس کے بعد کیسی تبدیلی اور کیسی توقعات؟ |