قائد اعظم ؒ عظیم رہنماء تھے اور اُنھوں نے ہمیشہ قانون
کی بالادستی کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ خود وہ وکیل تھے اور پاکستان کو
جس طرح اُنھوں نے حاصل کیا اُن کی شب و روز کی تگ وتاز کا اگر جائزہ لیں تو
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ گفتار کے غازی ہی نہیں بلکہ
کردار کے غازی تھے۔ اُن کی ڈکشنری میں بس یہی لکھا تھا کہ کام کام اور بس
کام۔ جنوبی ایشاء کے مسلمانوں کی قیادت کرنے والے عظیم رہنماء حضرتِ قائد
اعظم محمد علی جناح ؒ نے ہمیشہ سچائی کی پاسداری کی۔ اپنے کلائنٹ سے وہ صرف
کام کرنے کی فیس لیتے اگر کام نہ کرنا ہوتا تو وہ انکار فرما دیتے حتیٰ کہ
وہ لی ہوئی فیس بھی واپس کر دیتے ۔حضرت قائد اعظمؒ کو بخوبی علم تھا کہ بر
صضیر پاک و ہند کے باسیوں کی عادات کیسی ہیں اور اُن کو کس طرح لیڈ کرنا
ہے۔ اِس لیے حضرت قائد اعظمؒ نے ہمیشہ سچائی کا سہارا لیا اور اپنی قوم کو
سچائی کا سبق دیا اور واضع فرمادیا کہ ہمارا دستور قران ہے اور ہمیں کسی
نئے دستور کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں تو چودہ سو سال پہلے نبی پاکﷺ نے
دستور عطا فرمادیا تھا۔وکالت اتنا مقدس پیشہ ہے کہ اِس حوالے سے کوئی دوسری
رائے نہیں ہے۔ پاکستان میں وکالت مشکل پیشہ ہے وجہ اُس کہ یہ ہے کہ یہاں
قانون کی بالادستی کو حکمران اشرافیہ نے خود ہی اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے
اور عوام الناس اور اشرافیہ کے لیے انصاف کے تقاضے مختلف ہیں۔ جن حکمرانوں
نے ملک میں قانون کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے اُن حکمرانوں کی طرف سے دن
رات اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں کی بناء پر عدالتِ عظمیٰ کے ججوں پر نکتہ
چینی کی جارہی ہے۔ یوں حکمران جنہوں نے قوم کے باپ کا فرض ادا کرنا ہوتا ہے
وہی حکمران اپنی قوم کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز ظالم
ہیں۔ یوں جنہوں نے راہبری کا حق ادا کرنا تھا وہ قوم کو راہزنی کا سبق
سیکھا رہے ہیں اور ایسا سب کچھ دھڑلے کے ساتھ ہورہا ہے اور کسی قسم کی کوئی
شرم محسوس نہیں کی جارہی۔ بلکہ حکمران اشرافیہ نے باقاعدہ سوشل میڈیا فورس
بنا دی ہے جو سوشل میڈیا پر دن رات عدالت عظمیٰ کے خلاف بیان بازی کر رہے
ہیں اور چیف جسٹس صاحب کو ایسے مخاطب کر تے ہیں جیسے وہ چیف جسٹس نہ ہو
بلکہ دُشمن ملک کا کوئی فوجی ہو۔فوج کے خلاف خوب سوشل میڈیا پر حکمران
اشرافیہ نے اپنے معصوم کارکنوں کے ذریعہ سے شور مچایا اور اب کافی عرصے سے
اُن کی توپوں کا رُخ اعلیٰ عدلیہ کی طرف ہے۔ شائد سابق وزیر اعظم صاحب یہ
بھولتے جا رہے ہیں کہ اپنے پیروکاروں کو جس طرح اُنھوں نے سوشل میڈیا پر
عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کی توہین کرنے پر مامور کیا ہوا ہے اِن حرکات کا
خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑئے گا۔ اداروں کے خلاف زہر اُگلنے سے ادارئے
کمزور ہوتے ہیں اور یوں ریاست کمزور ہوتی ہے اور قومی وقار کی دھجیاں بھی
بکھرتی ہیں۔ جو کام فوج آمر کرتے تھے وہ کام تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے
صاحب کر رہے ہیں بلکہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ بات قائد اعظم سے شروع
ہوئی تھی اور قانون کی بالادستی کے تصور سے ہوتی ہوئی سابق وزیراعظم کے
رویے تک آپہنچی ہے۔ اصل میں راقم اپنی وکلاء برادری سے یہ عرض کرنا چاہتا
ہے کہ قانون کی بالادستی کا جھنڈا ہمیشہ وکلاء نے ہی بلند رکھا ہے قانون کی
بالادستی کسی ملازم کے بس کی بات نہیں ۔خواہ وہ جج ہو خواہ وہ وزیر ، مشیر
اور یا وہ کوئی جرنیل ہو۔ قانون کی بالادستی کا کام صرف وکلاء برادری کا ہی
فریضہ ہے اور اِس مقصد کے لیے وکلاء نے ہر دور کے آمر کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر بات کی ہے۔ مشرف جیسے آمر کو تگنی کا ناچ نچوایا اور مشرف نے انتقام
کے طور پر وکلاء کو زندہ جلادیا۔ ماتحت عدلیہ میں عام لوگ انصاف کے لیے آتے
ہیں۔ سوائے طلاق اور وراثتی سرٹیفکیٹ کے اجراء کے کونسا ایسا کیس ہے جس کا
فیصلہ عدلیہ کر رہی ہے۔ سالوں تک کیس چلتے ہیں اور یوں عوام عدالتوں میں
ذلیل و خوار ہوتی رہتی ہے۔ غریب لوگ ہی عدالتوں میں آتے ہیں با اثر افراد
تو کسی کو اپنا حق مارنے ہی نہیں دیتے اِس لیے وہ تو انصاف عدالتوں کے باہر
ہی حاصل کر لیتے ہیں لیکن عام آدمی جو کہ طاقت کے زور پر انصاف حاصل نہیں
کر پاتا وہ ماتحت عدلیہ کا رخ کرتا ہے یوں دہائیوں تک کیس چلتا ہے۔ وکلاء
کی بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے کسی بھی ایشو پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا
بہت اہم ہے کیونکہ وکلاء قانون کی بالادستی کا ہر اول دستہ ہیں اِس لیے اِن
کیجانب سے ہر معاملے پر آواز اُٹھانا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ یوں کسی بھی
معاملے کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے ہڑتال کا سہارا لیا جاتا ہے۔ حالانکہ
عدالتوں میں کام جاری رکھتے ہوئے بازووں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اور
احتجاجی اجلاس منعقد کرکے زیادہ موثر انداز میں احتجاج ریکارڈ کر وایا جا
سکتا ہے۔ جب ہڑتا ل ہوجاتی ہے تو ہزاروں کیس التواء میں چلے جاتے ہیں ۔ اور
سائلین بے چارئے مزید شکست خوردگی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر ایک
دن آتا ہے کہ اُن کا موجودہ نظامِ انصاف سے یقین اُٹھ جاتا ہے۔ اِس لیے
وکلاء برادری کو اہم معاملات میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے مکمل
چُھٹی کرنے کی بجائے احتجاجی اجلاس اور سیاہ پٹیاں بازووں پر باندھ کر اپنے
عدالتی امور انجام دینے کا کام کرتے رہنا چاہیے تاکہ عام لوگ بے چارئے اِس
سے متاثر نہ ہوں۔
|