میری عادت ہے میں ماضی میں زندہ رہتا ہوں موسم مجھ پر بہت
اثر کرتے ہیں پہاڑی راگ دل چیر کے رکھ دیتے ہیں۔میں جدہ میں تھا تو فالکن
فریٹ کمپنی کے باہر ریت پر گدا بچھا کر پی آئی اے کو دیکھ کر روتا تھا۔چاند
سے باتیں کیا کرتا تھا۔سوچتا تھا یہ چاند جو آج جدہ میں چمک رہا ہے میری
ماں بھی اسے دیکھ رہی ہو گی میرے چھوٹے چھوٹے بھائی میرے چچا میرے ماموں سب
دیکھتے ہوں گے۔دنیا کا سب سے پر سکون لمحہ میرے لئے وہ ہوتا تھا اور ہے کہ
جب آنسو میرے عارضوں سے ہو کر میرے منہ میں آتے ہیں۔بد قسمتیاں یہ ہیں کہ
اب یہ آنسو میر آئیندہ نسل کے حصے آ گئے ہیں یا پھر اسی چہرے پر اس وقت
داڑھی نہیں تھی اب تو آنسوؤں کو داڑھی بھی تر کرنا ہوتی ہے۔ میں بھی پہاڑ
سے اٹھا میرے گاؤں میں جو درکوٹ کے پیچھے ڈھکیاں نلہ ہے یہاں میں نے ۱۹۵۵
میں پیدائش پائی والد کے ساتھ گجرانوالہ آ گئے میدان میں در بدر صحراؤں میں
روزی تلاش کرتے کرتے پوٹھوہار کی کٹی پھٹی زمین میں مرنے آ آ گیا ہوں اس
ساٹھ باسٹھ سال کے گھن چکر میں بس یہ پایا کہ اب گاؤں کو منال کے پاس سے
گزر کر پاتا ہوں ڈیفنس روڈ بن رہا ہے شائد پورا بن جائے اس روڈ کی داستاں
میرے بھائی مختار گجر سناتے سناتے زمین دوز ہو گئے جان محمد ببھوتری نلہ تا
نجف پور کی سنایا کرتے تھے دیکھیں خاک ہو جائیں گے تم کو خبر ہونے تک۔ہزارہ
کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ وادی بہت خوبصورت ہے اونچی وادیاں کھیت
کھلیان آبشاریں اس دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہیں مگر کسی نے کیا کوب کہا بہت
خوبصورت زمین ہزارہ مگر آدمی کا ہے مشکل گزارا۔مائیں بچوں کو جنم تو دیتی
ہیں لیکن ان کی قبریں ہزارہ سے دور جہاں جہاں انہیں روٹی کھینچ لے گئی وہین
قبریں بنا کر سو جاتے ہیں اس ماں کے بیٹے۔اس دھرتی نے جرنیل پیدا کئے صدر
بنے مگر افسوس کے کہ وہ اک کا بوٹا ثابت ہوئے کچھ نہیں کر پائے اپنی ماں
دھرتی کے لئے۔میرے والدین بھی یہیں ہزارہ کی ایبٹ آباد زمین پر پیدا ہوئے
جس کے ٹکڑے ہوئے تو ہری پور اور ایبٹ آباد میں تقسیم ہو گئے۔آج میاں شفقت
کی دعوت تھی ایبٹ آباد میں گجر کنونشن تھا۔برادری اور قوم کی کھچ دل سے جڑی
رہتی ہے جتنے مرضٰ پھنے خان بن جائیں جب آپ کو اپنی ماں بولی اپنی برادری
اور اپنی قوم بلاتی ہے تو مجھے سچ پوچھیں کوئی مثال یاد نہیں آتی بس یہی
سمجھ لئے بکری اپنے صحن میں بچھڑے بچے کو میں کی آواز دے کر بلاتی ہے اور
کسی پہاڑی کے نکے سے برونکے بھرتا ماں کی آواز پر لبیک کرتا پہنچ جاتا
ہے۔مجھے ابو فاطمہ نے بڑے پیار سے کہا کہ کنونشن میں آنا ہے اس سے پہلے ایک
دو فون آئے تھے کسی نے کہا تھا کہ کارڈ لے کر آئیں گے برادر بزرگ مرحوم
امتیاز گجر کے دوست جناب عبدالباری کا فون بھی تھا۔میں میزبانوں کی سستی کے
باوجود تیار تھا کہ ایبٹ آباد گجر کنونشن میں جاؤں رات کو کسی جگہ اکٹھے
تھے بھانجے عابد مختار گجر سے کہا تھا گاڑی تم چلا لے جانا میں ایبٹ آباد
جاؤں گا۔لیکن ہوا یہ کہ صبح اطلاع آئی نوجوان کے پیٹ کے ہاتھوں مجبور بیت
الخلاء سے باہر ہی نہیں آ رہا اور یوں میں اس کی بسیار خوری کی زد میں آ
گیا ۔میں نے اپنی تقریر کے خدوخال بنا رکھے تھے سوچا تھا کہ گیا تو اپنے ان
لوگوں سے بات کروں گا کہ خدا را اپنی شناخت بنائیں میرا دل چاہ رہا تھا کہ
انہیں کل کے ہاکی میچ کی داستاں سناؤں کی شکیل عباسی جب گیند لے کر دشمن کی
صفوں میں گھسا تو انگریز کمنٹریٹر عباسی عباسی کر رہا تھا۔مجھے دلی خوشی
ہوئی کہ فرزند کوہسار مری کا بیٹا پنڈی میں پلنے والا عباسی اپنے قبیلے کی
آنکھ کا تارا تو تھا ہی اس نے اپنی برادری کا نام بلند کیا۔مجھے سچی بات ہے
رشک بھی آیا کہ اس سے پہلے اور اب بھی پاکستان کی ٹیموں میں چاہے وہ کرکٹ
کی ہوں یا ہاکی کی ہمارے لوگ اپنے نام کے ساتھ گجر کیوں نہیں لگاتے۔ہم تو
دشمن کی صفوں میں کبھی میجر طفیل شہید کی شکل میں گھسے کبھی بلال اکبر کی
شکل میں کراچی میں لسانیت پرستوں کو جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب ہوئے مگر کسی
کو علم نہیں کہ یہ گجر ہیں۔میں آج ایبٹ آباد میں ہوتا تو یہ کام ضرور کرتا
کہ سب سے عہد لیتا کہ اپنے ناموں کے ساتھ گجر لکھا
کریں۔عباسی،راجے،کیانی،قریشی،اعوان ہر جگہ آپ کو ملیں گے کوئی گجر ملے گا
تو نام ہو گا چودھری،میاں،سردار،ملک اور جانے کیا کیا لکھیں گے ایک گجر نام
نہیں لکھیں گے۔میری قرارداد یہی ہوتی دوسری اہم بات گجر ازم کی کرتے ہوئے
میں اس بات پر ضرور زور دیتا کہ نام تو لکھا جائے مگر کام وہ کیا جائے جو
ایک مارشل قوم کیا کرتی تھی مظلوم کی آواز بنیں اور اسے سہارا دیں جب کوئی
گرا ہوا ہو تو اسے یہ نہ پوچھیں کہ کون سی برادری ہے کس قوم سے تعلق ہے اور
کہاں کے رہنے والے ہو وہاں ایک مسلمان بن کے اسے دکھائیں۔میں جب بھی گجر کی
بات کرتا ہوں میرے سامنے میری قوم کے آئیڈیل ایک شخص آتے ہیں وہ ہیں چودھری
رحمت علی گورسی مرحوم جنہوں نے اس ملک خداداد کو نام ہی نہیں الگ وطن کا
خواب بھی پیش کیا۔قارئیں اس بات کو یاد رکھیں جب ۱۹۱۵ میں چودھری رحمت علی
الگ وطن کی بات کر رہے تھے اس وقت بر صغیر پاک و ہند میں اتحاد بھائی چارے
اور یگانگت کی بات کی جاتی تھی انہی دنوں میں جناب قائد اعظم ہند و مسلم
اتحاد کے سفیر کہلوائے جاتے تھے اقبال مسئلہ ء قومیت اور چین و عرب کے
اتحاد کا داعی تھے وہ ہندوستان کے اندر رہ کر محدود آزادی کی بات کیا کرتے
تھے ۱۹۴۰ بعد میں بہت بعد میں قرارداد پاکستان پاس ہوئی اس میں بھی میں
ہندوستان کے اندر آزادی کی بات ہوئی اسے قرارداد لاہور کہا گیا جو بعد میں
ہندو پریس نے قرار داد پاکستان کا نام دیا۔کسی نے سچ کہا تھا یہ نفرت
پھیلانے والے ہندو ہی تھے جنہوں نے پاکستان بنایا۔چودھری رحمت علی کی فکر
کا پاکستان بنا اور اب بچانا اس قوم کی ذمہ داری بنتی ہے جو اس کی خالق
ہونے کا دعوی بھی کرتی ہے۔اسے استحکام پاکستان کے لئے ایک کاوش قرار دینے
کی سعی کرتا۔جناب آفتاب احمد خان شیر پاؤ آج کے جلسے کے مہمان خصوصی بھی
تھے ایک لحاظ سے قومی وطن پارٹی کے صدر نے گجروں کے اس کنونشن میں اپنے
امیدوار بھی نامزد کئے میں ہوتا تو شائد اسے یک طرفہ نہ جانے دیتا قومی
شعور کی بات کرتا اور لوگوں کو موقع دیتا کہ وہ اپنی سوچ اپنی فکر کے مطابق
فیصلہ کرتے۔
مجھے سچ پوچھیں پی ٹی آئی سے جنوں کی حد تک پیار ہے مگر ان پاکستانی
پارٹیوں کے ذمہ داران میں بیٹھ کر میں ان کا محاسبہ ضرور کرتا جو برادری کو
اپنی کامیابی کی سیڑھی تو سمجھتے رہے مگر اس کے لئے کچھ نہیں کر سکے۔آج
چودھری رحمت علی اسی جگہ دفن ہیں جس جگہ جعفر اقبال گجر ڈپٹی اسپیکر بنے
اور چودھری رحت علی کی قبر وہیں ہے جہاں شیر پاؤ وزیر داخلہ سردار یوسف کئی
مرتبہ وفاقی وزیر چوھدری امیر حسین سپیکر چودھری اقبال پانچ بار وزیر جنرل
سوار خان ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بریگیڈئر صاحبداد خان وزیر جیل خانہ
جات چودھری سلطان علی وزیر خوراک چودھری ستار وریو وفاقی وزیر چودھری اختر
علی وریو وزیر غرض کس کس کا نام لوں اور کس کا نہ لوں یہ سب آئے واسکٹیں
شیروانیاں ٹوپیاں جناح کیپیں پہن کر آتے رہے کھاتے رہے حکمرانی کرتے رہے
گجروں کی محفلوں میں گئے تو سب گجروں ے بلاتفریق انہیں سر پر اٹھایا میں آج
ہوتا تو ان سے ضرور پوچھتا کہ سردار یوسف صاحب آپ نے اس گجر قوم کے نام پر
برسوں عزت کمائی آپ کی انگلی پکڑ کر چلانے والا میاں ولی الرحمن اس کے
قبیلے کے شفقت میاں کو کیا دیا اس کا گلہ تھا کہ گجر لیڈر تو بن گئے مگر
مانسہرہ میں ان کے اندر سے سیدوں سواتیوں اور اعوانوں کا ڈر اب بھی نہیں
گیا اب بھی گجر پسماندہ ہیں اب بھی ان کی کوئی نہیں سنتا۔مجھے اپنے اس دوست
سے کوئی گلہ نہیں مگر یہ دکھ ضرور ہے کہ وزارت مذہبی امور میں جو انھی مچی
ہوئی تھی اس کا تدارک کیسے ہوا؟کیا کامران بٹ جو حامد سعید کاظمی کے دور
میں لوٹتا تھا اس کی چھٹی ہوئی بحراﷲ ہزاروی کی موجیں ختم ہوئیں پراؤیٹ ٹور
آپریٹرز کو کوٹہ کیسے دیا جاتا ہے۔یہ سارا کچھ اس وجہ سے معاف نہیں کیا
جاتا کہ وزیر گجر ہیں۔سچ پوچھیں اب تو چودھریرحمت علی کی روح بھی کہتی ہے
کہ خدارا میرے نام پر سیاست بند کریں اور نہ ہی میری فوٹو کو آئیکون بنا کر
ڈھنڈورہ پیٹیں اگر اس ملک خدادا میں دو قومی نظرئیے کی دھجیاں اڑانے والے
کے سامنے یہ سرادران قوم ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں تو مجھے چودھری رحمت علی
کی روح کو تڑپتے دیکھنا اچھا نہیں لگتا۔کہاں کس جگہ انہوں نے چاپلوسی کی
کدھر سرادر قوم لوہار قوم کے قدموں میں بیٹھا دکھائی دیا۔مت کیجئے کھلواڑ
اس قوم کے ساتھ کہ جس کی عزت آبرو اس کی غیرت تھی۔چلائیے اپنی دوکان مذہب
کے نام پر کسی اور نام پر خدارا اس قوم اس برادری کو گجروں کے نام پر مت
بیچئے۔میں اگر ایبٹ آباد ہوتا تو شائد یہ سب کچھ سب کو اچھا نہ لگتا شائد
میرے دوست اسے پسند نہ کرتے لیکن سچی بات ہے کہ سچ یہی ہے ہمیں کسی غیر نے
تو لوٹا ہی تھا ہمارے اپنے بھی تھے۔میں اﷲ کے ہاں سر خرو ہوں جو کچھ اس نے
دیا میں نے مسلمانوں،پاکستانیوں،گجروں اور فیملی کے لئے جو ہو سکا کیا۔مجھے
گنوانے کی ضرورت نہیں پھول کی اپنی خوشبو ہوتی ہے اور وہ بتایا کرتی ہے لوگ
اس بات کی گواہی دیں گے کہ خاکسار کیا کیا کر گیا۔
ایبٹ آباد کے کنونشن کی روداد مجھے کوئی بتائے یہ نہ بتائے اس کی خوشبو بھی
مجھ تک پہنچی ہے۔یہ ایک اچھی کاوش تھی بعین جس طرح ارشد ضیاء شفیق چیچی کر
رہے ہیں۔انجمن گجراں کی کاوش کو سلام آل پاکستان گجرز ایسوسی ایشن جس کا
میں سر پرست بھی ہوں ہم نے کوشش کی ہے کہ قوم کے سلاران کو سیدھے راستے پر
چلائیں۔چودھری رحمت علی پاکستان کی امانت ہے انہوں نے کسی گجرستان کی بات
نہیں کی تھی۔
موضع لسن یو سی لنگڑیال کے محلہ کوپرہ میں ماموں نتھو کے گھر کے پچھواڑے
میرا نام کندہ ہے شنید ہے وہ امین میں دب گیا ہے بعین اسی طرح جس طرح محبت
کرنے والے ماموں ممانیاں ماسی مسیریاں اور مملیریاں محبتوں کو دفن کر چکی
ہیں مگر محب زیر زمین ہو تو تار کو جگنوؤں کی مانند روشنی دیتی ہے ٹمٹماتی
روشنیوں میں ماں کا پیار کبھی نہیں مرتا میں آج وہاں اپنی ایبٹ آبادی ماں
کو بھی یاد کرتا جو نالہ نڑاہ سے پانی بھرتی بھرتی نلہ پہنچیں اور وہاں سے
گجرانوالہ۔اور اب گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں اپنے خواند کے قدموں میں
محو استراحت ہیں اب تو بڑا بیٹا بھی بلا لیا ہے۔کہتے ہیں کہ ہزارہ کی مائیں
بد نصیب ہوتی ہیں کی جن کی اولادیں سات سمندر پار تک مدفون ہو جاتی ہیں
میری تو ماں بھی پنجاب کی ہو کر رہ گئیں۔کاش کسی نے ان دکھوں کو چھیڑا ہوتا
ہزارہ کی تاریکی میں میں جس کو موقع ملا اس نے اپنا حصہ ڈالا۔انگریز کے
ٹوڈی تو تھے ہی لوئر ہزارہ میں ترینوں نے بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ایک
کفن اتارتا رہا دوسرا مردے کے حصہ ء مو ء خرہ کے ساتھ خشب دری کی وارداتیں
کرتا رہا۔کاش کسی نے ہزارہ میں انڈسٹری لگائی ہوتی کاش ہزارہ کے سیاست دان
ہزارہ والوں کا کچھ کرتے ہزارہ سرگی دا تارہ اپنوں کے ہاتھوں گیا ہے
مارا۔اور اسی طرح ہمارے گجر لیڈر اپنی نالائقیقں کو دفن کر کے اپنی مجبور
اور پسی ہوئی قوم کا کچھ کرتے۔میاں شفقت کی فاطمہ ابراہیم اور احمد کب اپنے
گاؤں میں بجلی دیکھیں گے کب میاں ولی الرحمن محسن سرادر یوسف کا گھرانہ ان
سے خیر پائے گا۔دوستو!میں آ نہ سکا لیکن یہ ضرور یاد رکھئے کہ بلانے کا فن
آپ کو بھی نہیں آیا اگر سیکھنا تھا تو چودھری اختر سنبھڑیال بھوپال والہ سے
سیکھتے۔ سرگی دے اس تارے کو اﷲ پاک لٹیروں سے بچائے ۔کنونشن مبارک ہو |