ہم اپنے گذشتہ تین کالوں میں دہشت گرد تنظیموں، ولی خان
پارٹی کی پشتون زلمے، ملا فضل اﷲ کی تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)، جی
ایم سید کی جیئے سندھ، ، الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ(ایم کیو ایم)
اوربراہمداغ بگٹی کی بلوچستان لبریشن آرمی؍ بلوچ علیحدگی پسندوں پر سیر
حاصل بعث کر چکے ہیں۔ اب چوتھے اور آخری کالم میں پشتون تحفظ موومنٹ کی جد
وجہد پر تجزیہ کریں گے۔جیسا کہ ہم نے اپنے پہلے کالم میں عرض کیا تھاکہ
پشاور کے جلسے کے بعد منظو ر پشتین صاحب نے ۲۲؍ اپریل کو لاہور اور ۲۹؍
تاریخ سوات اور بعد میں کسی وقت اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کیا تھا۔ یہ
تو جمہوری ملک ہونے کے ناتے اُن کا حق ہے کہ اپنی بات لوگوں تک
پہنچائیں۔مگر یہ باتیں پاکستان آئین کے اندر دیے گئے حقوق کے تحت بات چیت
سے ہونی چاہییں۔ کسی بیرونی طاقت کی ہدایات کے بغیرہونی چاہییں۔
پاکستان کا آئین،پاکستان کے چاروں صوبوں کا متفقہ اسلامی آئین ہے۔ اسلام
قومیتوں کو پہچان کی حد تک اجازت دیتا ہے۔ انسانیت کا معیار تقویٰ پر
چھوڑتا ہے۔ ہم نے پہلے تین کالموں میں جن تنظیموں پر بعث کی ہے انہوں نے
پاکستان کے اسلامی آئین کے خلاف کام کرتے ہوئے اپنی تحریکیں چلائیں۔
پاکستان مسلمانا ن برصغیر کے ہر دلعزیز نعرے ،پاکستان کا مطلب کیا’’لا الہ
الااﷲ‘‘ کے تحت بانی پاکستان کے پر امن اور جمہوری طرز سیاست کی بنیاد پر
وجود میں آیا تھا۔ اس سب تنظیموں نے پاکستان کی وحدت اور اسلامی آئین کے
برخلاف قومیتوں کی بنیاد پر حقوق کی جد وجہد کی۔مروجہ جمہوری طریقہ سے ہٹ
کر اسلحہ کے زور پر نام نہاد حقوق حاصل کرنے کی بے سودکوشش کی۔ حکومت
پاکستان پر ناجائز الزامات لگائے۔جس ملک ِپاکستان میں یہ حضرات رہ رہے ہیں
اس پاکستان کو بدنام کیا۔ بیرون ملکوں کو اپنے ملک میں مداخلت کی دعوت دی۔
دشمن ملکوں سے فنڈ حاصل کیے۔بیرون ملک دہشت گردی کی ٹرینینگ لی۔پاکستان
اورملک کی مسلح افواج کے خلاف بغاوت کی۔پاکستان کی فوج نے پاکستان کی
سالمیت کے لیے مسلح جدو جہد کو کچل دیا۔ جب لوگ آئین میں دیے گئے بات چیت
آپشن پر بات نہیں کرتے اور اسٹیٹ کے خلاف اسلحہ اُٹھا لیتے ہیں۔ جنگ شروع
کرتے ہیں۔ پھرجنگ میں دونوں اطراف سے لوگ قتل ہوتے ہیں۔
مسنگ پرسن پر بات کی جائے توکچھ لوگ جان بوچھ خود غائب ہو جاتے ہیں۔مخالفیں
ان کو مسنگ پرسن ظاہر کر کے پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پرلاپتہ
افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر)جاوید اقبال صاحب نے پارلیمنٹ کی قومی کمیٹی
برائے انسانی حقوق کے سامنے بیان میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے
کہ مسنگ پرسن کے ۷۰ فی صد عسکریت پسندی میں ملوث ہیں۔پشتون تحفظ موومنٹ کی
اُٹھان اور نام نہاد مطالبات بھی اپنی پرانی قوم پرست تنظیموں کی طرح کے
ہیں۔بحر حال لاپتہ افراد کے لیے کمیشن پہلے سے کام کر رہا ہے جسے انصاف کے
تقاضے پورے کرنا چاہیے۔
منظور پشتیون کہتے ہیں کہ پاکستان میں پشتونوں کو برابر کے حقوق دیے جائیں۔
اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ پشتونوں بھائیوں کو جتنے حقوق پاکستان میں حاصل
ہیں شاید ہی پاکستان کی کسی دوسری قوم کو حاصل ہوں۔
سندھ،پنجاب،بلوچستان،کشمیر اور گلگت و بلتستان بلکہ پاکستان کے سارے شہروں
میں پشتون کاروبار کر رہے ہیں جادائدیں خریدتے ہیں۔ پورے ملک ،خیبر سے
کراچی تک پشتونوں کی ٹرانسپورٹ چلتی ہے۔ ان کو کوئی بھی روک ٹوک نہیں۔ان کو
برابر سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔
دوسرے بات کی اسلام آباد میں دھرنا دیں گے اور جب تک بین القوامی ضمانت
نہیں ملتی اس وقت تک دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس
کے پیش رُو بھی بھارت، افغانستان،امریکا،حتہ کہ اسرائیل سے بھی ضمانت اور
مددمانگتے رہے۔ مگر یہ ان کے دل کی حسرت ہی رہی۔ منظور پشتین صاحب ایسی
باتیں نہ کریں۔ پاکستان کے آئین کے تحت اپنے حقوق کی بات کریں۔ اس سے آپ کو
فائدہ ہو گا۔
عجیب دھوکھا بازی ہے کہ قوم پرست لیڈر محمود خا ن اچکزئی صاحب ہیں آپ کے
حقوق کے ساتھی ہیں۔ یہ پشتون فاٹا کو خیبر پختون خواہ میں شامل کرنے کی
مخالفت میں پیش پیش رہے ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں فاٹا بل کو پاس ہونے
سے رُوکا۔
پتہ نہیں کون لوگ آپ کے احتجاج کے ساتھی ہیں۔ ہم نے تو دیکھا کہ فاٹا کے
شمالی وزیرستان کی انجمن تاجران نے بات چیت کاآپشن استعمال کرتے ہوئے جرگہ
منعقدہ کیا۔ میران شاہ میں حکومت کے سامنے اپنے نقصانات کی فہرست
رکھی۔حکومت نے اس کے ازالے کی ذمہ داری اُٹھائی۔ تاجروں نے جرگہ میں
اعلانیہ کہا کہ ہم بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والے کے جھانسے میں نہیں آئیں
گے۔انہوں نے پاکستان اور فوج زندہ باد کے نعرے لگائے ہیں۔
آپ کہتے ہیں کہ فاٹا سے مائنز ہٹائی جائیں۔چیک پوسٹیں ختم کی جائیں۔ آپ کو
معلوم ہے کہ یہ مائنز اس لیے بچھائیں گئیں اور چیک پوسٹیں اس لیے بنائی
گئیں تھیں جب افغانستان سے آئے ہوئے دہشت گرد کھلے عام فاٹا میں گھومتے
تھے۔ بھارت اور امریکیوں نے انہیں دہشت گردی کی تربیت دی۔(حوالہ کے لیے
دیکھیں (ر) جنرل شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کب تک‘‘) افغانستان کے قوم
پرستوں نے مقامی قوم پرستوں سے مل فاٹا میں دہشت گردی کی پناہ گائیں بنا
رکھیں تھی۔ پاکستان کی فوج پر حملے کرتے تھے۔ سیکورٹی کے افراد کو یلغمار
بناتے تھے۔ ان کو اپنی نجی قید خانوں میں قید کرتے تھے۔ ان کو تشدد کر کے
ان کے گلے کاٹتے تھے۔ ان کے کٹے گلوں کے ساتھ فٹ بال کھیلتے تھے۔انہوں نے
پاکستان کے فوجی ہیڈ کواٹر پر حملہ کیا۔ پشاور آرمی پبلک اسکول کے ننھے
منھے سیکڑوں بچوں کو شہید کیا۔ پاکستان کے سارے دفاعی اداروں،ایئر
فورس،نیوی اور بری پر حملے کیے۔پاکستان کے بازروں، کھیل کے میدانوں،
اسکولوں،مسجدوں، امام بارگاہوں،چرچوں اور بزرگوں کے مزاروں پر خود کش حملے
کیے ۔ کیا آپ کے خیال میں ان کو پاکستان کی فوج آزادچھوڑدیتی۔ فاٹا میں
اسلام پسند غیور پشتوں اور پاک فوج قربانیوں کی وجہ ان ملک دشمن دہشت گردوں
سے نجات ملی اور فاٹا سے دہشت گردی ختم ہوئی۔ اب امن بحال ہونے پر مائنز
ہٹائیں اور چیک پوسٹیں ختم کی جا رہی ہیں۔ماروائے قتل کرنے والا راؤ انوار
قانون کی گرفت میں آ چکا ہے۔اس جرم ثابت ہونے پر قرارار وقعی سزا ملی
چاہیے۔ پاکستان میں فساد کی جڑ ڈکٹیٹر پرویز مشرف ہے۔اس کو اس جرم میں
قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔
منظور پشتین صاحب کوئی قوم اپنے ہی ملک میں فوجی آپریشن کی حمایت نہیں
کرتی۔ فوج تو سرحدں کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے۔ پاکستانی قوم بھی فوجی آپریشن
کے خلاف تھی ۔مگر کیا کیا جائے۔ دشمن نے پاکستان میں قومیتوں، فرقہ وارانہ
تعصب پھیلایا۔ اپنے مقامی میر جعفروں اور ایجنوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت
گردی شروع کی۔پاکستانی فوج کو آپریش پر مجبور کیا۔ پوری قوم کے لوگ شہید
ہوئے۔ ہاں پشتوں کو زیادہ نقصان ہوا۔منظور پشتین صاحب آپ کے ساتھ پشتونوں
اور پاکستان کے خلاف ارادے رکھنے والاشامل ہے۔ اس نے پاک فوج کی مخالف کی
پٹی پڑھا کر نا اہل وزیر اعظم نواز شریف کو موجودہ انجام تک پہنچایا۔جس نے
فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں شامل کرنے کی مخالفت کی ہے۔منظور پشتین صاحب آپ
نے لاہور میں صحیح باتیں کیں جو آپ کی شروع دن کی باتوں سے مختلف ہیں اس پر
حکومت کو عمل کرنا چاہیے۔
صاحبو! جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے۔ اس کے ازلی دشمن بھارت نے اس کے
ٹکڑے کرنے کے اپنے ڈاکٹرائن پر عمل پیرا ہے۔پہلے بھارت نے پاکستان کے مشرقی
بازو کو غداروں سے مل کر بنگلہ دیش بنایا ۔اب باقی پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے
منصوبے بنا رہا ہے۔ہندواتا پر عمل پیرادہشت گرد مودی نے پاکستان کو نقصان
پہنچانے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔اس کا وزیر داخلہ کہتا ہے کہ پہلے پاکستان کے
دو ٹکڑے کیے تھے اب دس ٹکڑے کریں گے۔ وہ پاکستان میں غداروں کی تلاش مصروف
رہتا ہے۔اس لیے حقوق کی نام پر تحریک چلانے والوں کو اس سے قبل ایسا کرنے
والوں کے انجام سے سبق لینا چاہیے۔ پاکستان کے محب وطن عوام ہر اُس نانہاد
حقوق کے تحریک کے خلاف ہیں جو پاکستان کی وحدت کے خلاف اُٹھے گی۔ جس نے بھی
حقوق کی بات کرنی ہے وہ آئین پاکستان کے اندر رہ کر کرے۔اس سے ہٹ کر حقوق
کی بات کرنے والے کسی بھی بات نہیں مانی جائے گی۔پاکستان کی حفاظت کرنے
والی فوج عوام کی حمایت سے آئین پاکستان کے مطابق کسی خلافِ پاکستان تحریک
کو کچلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو بھی چاہیے کہ
جیو اورجینے دوکی پالیسی پر عمل کرے۔ پاکستان میں دہشت گردی ختم کرے۔ ورنہ
اگر پاکستان نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں۔ایٹمی اور میزائل طاقت والی مثل
مدینہ، مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو ختم کرنے والے خود ختم ہو جائیں
گے۔ انشاء اﷲ۔ |