۳ ذیقعدہ ۱۲۹۴ھ کو عیسوی حساب سے ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو شیخ
نور محمد کے خانۂ درویشی کے حجرے میں غیبی بشارت مجسم ہو کر ظاہر ہوئی۔
والد بزگوار نے اُس فلک پروازکو پہچان لیا اور محمد اقبال نام رکھا۔
ابتدائی تعلیم میں مولانا غلام حسن نے قرآن شریف پڑھایا ، پھر میر حسن کے
مکتب میں تربیت پائی۔ یہاں اقبال نے اُردو ، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع
کیا۔اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میں جو عناصر بُنیادی طور پر کار فرما
نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتران کے تمام اساتذہ کی صُحبت اور تعلیم کا کرشمہ
ہیں۔بچپن ہی سے اقبال کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھا جو عظیم
لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے۔میٹر ک اور انٹرمیڈیٹ امتیازی حیثیت سے پاس کر نے کے
بعدان کی شاعری کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔اُس وقت داغؔ کے نام سے پورا برصغیر
گونج رہا تھا۔ان کی شاگردی میں اقبال زیادہ دیر تو نہ رہے کیونکہ داغؔ بھی
جان چکے تھے کہ یہ ہیرا تراش خراش سے عاری ہے۔ مگر مختصر مدت کی اس شاگردی
پر اقبال ہمیشہ نازاں رہے، کچھ یہی حال داغؔکا بھی رہا۔مزید تعلیم کے لیے
لاہور آگئے اور گورنمنٹ کالج سے بی - اے پاس کرنے کے بعد ایم- اے فلسفہ میں
داخلہ لیا۔یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ کا تعلق میسّر آیا۔جنھوں نے اقبال
کی علمی و فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کیا۔
پنجاب بھر میں ایم- اے کے امتحان میں اوّل آئے ، اورینٹل کالج میں میکلوڈ
عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہو گئے۔اسی زمانے میں انجمن حمایتِ اسلام سے
وابستہ ہوئے ، یہ تعلق آخر تک قائم رہا۔ اورینٹل کالج میں مدتِ ملازمت ختم
ہونے کے بعد گورنمنٹ کالج میں اسِسٹنٹ پروفیسر انگریزی کے عہدے پر تقرر ہوا۔
بعد میں شعبۂ فلسفہ میں چلے گئے ، سفرِ یورپ کے لیے تین سال کی رخصت لی ۔
یہاں اقبال کی شاعری میں سیاسی، فلسفیانہ اور متصّوفانہ تصورات کے اظہار کی
بناء پڑی۔ مزید برآں بچوں کے لیے نظمیں لکھیں اور مغربی شاعری کے کچھ منظوم
تراجم بھی کیے۔ قیام یورپ کے دوران اقبال کے بنیادی خیالات تبدیل ہوناشروع
ہوئے ۔ قومیّت اور وحدت الوجُود کی طرف میلان گریز میں بدلنے لگا۔قومیّت
پرستی کے مسئلے پر اقبال کو اب شرح صدر ہو چکا تھا کہ ا س قسم کی کوئی بھی
تحریک مسلمانوں کے ملی تشخص اوردینی وجود کے لیے انتہائی مہلک ہو گی، پھر
برصغیر میں ملکی قومیت کی بنیاد پر ہندو مسلم اتحاد کے خیال سے مکمل طور پر
کنارہ کشی اختیار کر لی۔ متحدہ ہندوستان کے مُسلمانوں میں اپنے قطعی
جداگانہ تشخص کا شعُوراور اس کے حصُول کی شدید اُمنگ اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے
اقبال ہی نے پیدا کی۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پِھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
آج ہم اعتماد اور یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ علّامہ کی فارسی شاعری، کم
از کم ایشیا کی حد تک، مسلمانوں کے تاریخی و تہذیبی شُعور اور ان کے مِلّی
طرزِ احساس کی تشکیل میں ایک بنیادی عنصر کا درجہ رکھتی ہے۔
علامہ کی مثنویوں میں تصورِ خودی، نہایت وضاحت اور جامعیت کے ساتھ سامنے
آیا۔ ان کی پوری شاعری پر ایک نعتیہ فضاء چھائی ہوئی ہے۔ 1923 ء میں انہیں
’’سَر‘‘ کا خطاب ملا۔اقبال کی فارسی شاعری میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت
اسرارِ خودی ، رموزِ بے خودی، پیام مشرق ، زبور عجم ، جاوید نامہ، پس چہ
باید کرد اے اقوامِ شرق اور ارمغانِ حجاز ہیں۔ ان کتابوں میں اقبال کی
بہترین فارسی رباعیاں،نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔اُردو کلام کے مجموعے بانگِ
درا،بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کے موضوعات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔انگریزی
تصانیف میں ’’ایران میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء ‘‘ اور ’’اسلام میں
مذہبی افکار کی تعمیرِ نو‘‘شامل ہیں۔
اقبال نہ صرف ملت اسلامیہ کے شاعر ہیں۔بلکہ انھوں نے پوری انسانیت کو راہِ
عمل دکھانے کی کوشش کی، ان کی زندگی ایک کربِ ناتمام اور سوزِ مسلسل تھی۔
وہ ساری عمر انسانیت کی فلاح و بہبود، بہتری، سر بلندی اور ترقی کے لیے
سوچتے اور تڑپتے رہے۔ ان کی شاعری میں روحانی رفعت کا احساس ہوتا ہے۔ جو
فرصت، تازگی اور ذہنی طمانیت اقبال کی شاعری پڑھ کر حاصل ہوتی ہے وہ کسی
اور شاعر کے کلام کو پڑھنے سے نہیں ملتی۔ انھوں نے شعر کے ذریعے حسنِ اخلاق،
خودداری اور درویشی کی صفت اپنانے کی تلقین کی۔اقبال نے قدیم شاعری کی
روایات کو نئی طرح دی۔ان کی شاعری میں خیالات و افکار کا حیرت انگیز تنوع
ملتا ہے۔اقبال کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ روایتی شاعری سے انسان کی توجہ
ملت اور قومیت پر مبذول کروائی۔ انھوں نے اپنی شاعری سے مسلمانوں کو خواب
غفلت سے جھنجھوڑ کر بیدار کیا۔ قیامِ یورپ ان کے ایمان کی پختگی پر ذرا سا
بھی اثر انداز نہ ہوا۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
اقبال کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایک باعمل شاعر تھے۔ان کے ہاں شاعری اور
فلسفہ ایسا دلنواز نغمہ ہے جس نے مردہ روحوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دی۔
اقبال کی شاعری کا مقصد ملت اسلامیہ کی حیاتِ نو کا جامع نصب العین ہے۔اپنے
کلام کی اسی مقصدی خصوصیت کی بناء پر انہیں ترجمانِ حقیقت،شاعرِ مشرق، حکیم
الامت اور ترجمان ِ خودی کہا گیا ہے۔ان کا کلام محض وعظ نہیں بلکہ اس میں
بَلا کا حسن اور غضب کی شعریت پائی جاتی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں ایک
درس، پیام اور ’’پیغمبرانہ‘‘ دعوتِ فکر و عمل ہوتے ہوئے بھی اندازو بیاں
اور طرزِ ادا میں تمام دلکشی و رعنائی موجود ہے۔انہوں نے مسلمانوں پر جذبۂ
عشق روشن کیا اور خودی کی حقیقت واضح کی۔امتِ مسلمہ کو آزادی اور تعمیر نے
کے جذبے سے متعارف کروایا۔آپ کے کلام میں نوجوانوں کے لیے جذبہ عمل اور کچھ
کر گزرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ آج بھی ہمیں ایسے عظیم لوگوں کی ضرورت ہے
جو ملک و قوم کے لیے جانفشانی سے کام کریں اور کسی بھی شعبۂ زندگی میں کیوں
نہ ہوں ۔ اپنی قوم کی بہتری و بھلائی کے لیے پُر خلوص ہو کر کام سر انجام
دیں۔
نگہ بُلند، سخن دلنواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے |