نظریہ ء پاکستان اور علامہ اقبالؒ
مکرمی! ابھی ۲۱ اپریل کو علامہ اقبال ؒ کی ۸۰ ویں برسی منائی گئی، منائی
کیا گئی بس اخبارات میں چند خصوصی مضامین شائع کردیئے گئے اور بس۔ میں بطور
صحافت کے طالب علم یہ سوچ رہا تھا کہ علامہ کے اس خواب کا کیا ہوا؟ چلیں
خواب کو چھوڑیں ، ہم نے تو اُن کو اسکولوں کے نصاب تک سے نکال دیا۔ اور اب
حال یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اس بات سے بھی واقف نہیں کہ شاعرِ مشرق کون
تھے۔ آج میں جب اپنے پیارے مُلک پاکستان کے ایسے حالات دیکھتا ہوں تو اپنا
سر پیٹ کر رہ جاتا ہوں کہ ایک ہستی جس نے ہمیں نہ صرف اس وقت بیدار کیا جب
ہم غلامی کی پستی میں ڈوبے ہوئے تھے بلکہ ہمیں ایک ایسی راہ دکھائی کہ جس
پر چل کر ہم ایک مضبو ط مُلک بناتے بلکہ دُنیا بھر میں اسلام اور پاکستان
کا نام روشن کردیتے ۔ علامہ اقبال ؒ کی شاعری میں نہ صرف مُسلمانوں کیلئے
ہمت و افزائی ہے بلکہ نظامِ مُملکت کا ایک پورا نظریہ پوشیدہ ہے ۔ آپ کی
شُہرہِ آفتاب کتاب بانگِ درا میں صرف نظم سلطنت کا ہی مطالعہ کیا جائے تو
ہمیں معلوم ہوگاکہ علامہ نے کس طرح جمہوریت کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ اگر
ہم صرف اس بات کو ہی نظر میں رکھیں کہ ہم نے کس نظریہ کے تحت یہ مُلک حاصل
کیا تھا ، دو قومی نظریہ کے تحت۔ اور یہ دو قومی نظریہ کیا تھا، یہی کہ
برصغیر میں دو اقوام رہتی تھیں ۔ ایک مُسلمان اور دوسری ہندو۔ مُسلمان
اسلام کے پیروکار ہیں، اور ہندو بُت پرستی کرتے ہیں۔
لیکن پاکستان جب حاصل کرلیا گیا تو اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا
گیا اور یہیں سے اس مُلک کی تقدیر خراب ہونا شروع ہوگئی کیونکہ اسلام اپنا
ایک باقائدہ نظام رکھتا ہے ، اس پر جمہوریت کو زبردستی ٹھونس دیا گیا۔
جمہوری نظام اور اسلامی نظام کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا ، جمہوریت
میں عوام کی اکثریت رائے دہی کرتی ہے جبکہ اسلامی نظام شریعت میں اللہ
وحدہُ لاشریک کا حکم نافذ ہوتا ہے۔ جمہوریت کے اندر انسان قوانین بناتے ہیں
جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوجاتے ہیں اور اسلام میں قرآن و سُنت کا
قانون ہے جو کہ قیامت تک اٹل ہے اور اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اور
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایسا قانون ہمارے لیئے فائدہ مند ہوسکتا ہے جو
کہ محض چند لوگوں کیلئے بنایا گیا ہو جس میں صرف ایک ہی طبقے کے لیئے افادہ
ہو۔ یا پھر ایسا قانون جو کہ فطرت کے عین مطابق ہے اور جس میں تمام طبقات
کے مفادات کو مدِ نظر رکھا گیا ہو۔جی ہاں شریعتِ اسلامی ہی وہ قانون ہے جو
کہ سب کے حقوق کا خیال رکھتا ہے اور اس نظام کے تحت کوئی بھی انسان دوسرے
انسان کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی زیادتی کر ہی نہیں سکتا۔
علامہ اقبالؒ اپنی ایک دوسری نظم دُنیائے اسلام میں جن حالات کا ذکر کرتے
ہیں ، اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم مُسلمانوں کی مجموعی حالت ابھی
تک وہی ہے کہ ہم خلافت کے ختم ہونے کے بعد سے مُختلف مُلکوں اور قوموں،
نسلوں اور رنگوں میں بٹ گئے ہیں ۔ علامہ کہتے ہیں کہ ضرورت ہے کہ دوبارہ
اسلامی نظام خلافت لانے کی تگ و دو کرنی چاہیئے کیوں کہ ہم فقط پاکستانی ہی
نہیں ایک مُسلم اُمت ہیں اور خلافت ہی وہ ڈھال ہے جو ہمیں متحد رکھ سکتی
ہے۔ اور اسلام ہی سے ہماری عزت ہے ۔ علامہ نے اسی نظم میں ہم مُسلمانوں کا
وہ بُنیادی اختلاف بھی مٹانے کو کہہ دیا کہ جو ہم دو ٹکڑوں یعنی سُنی اور
شیعہ میں بٹ گئے کہ خلافت پر پہلے کس کا حق تھا۔ بلکہ ہم نے اس نظام کو
نافذ کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیئے تاکہ مُسلمان دُنیا بھر میں جہاں بھی ہیں
ایک بار پھر متحد اور پُر امن زندگی گزاریں ۔ |