اس وقت پورا ملک غصے سے بھرا ہوا ہے لوگ جگہ جگہ جلوس اور
ریلیوں کی شکل میں احتجاج کررہے ہیں مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں
میں ہوش ربا اضافے نےپہلے ہی سے لوگوں پر عرصہ ٔ حیات تنگ کررکھا ہے۔ فرقہ
پرستی کا جنون بڑھتا جارہا ہے ،ساتھ ہی فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری
ہے ۔کوئی بتائے کیایہی وبال جان کم تھے کہ اب ایک نئی افتاد پوری شدت سے
لوگوں کے دل دہلائے جارہی ہے۔ ملک میں عصمت دری کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے
اخبارات کا اچھا خاصا حصہ ایسی ہی ہولناک خبروں سے بھرا رہتا ہے۔آج خواتین
کی عصمت محفوظ نہیں ہے ان کا چلنا پھرنا دوبھر ہوگیا ہے ، کچھ خبروں کی یہ
مختصر جھلکیاںہیں جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ وبا کس قدر عام ہوگئی
ہے اور ہماری حکومتوں کے پاس اس کے تدارک کا کوئی حل موجود نہیں ہے،لااینڈ
آرڈر کا یہ سیلاب بلا کب تک جاری رہے گا اور ہم سب کب تک خس و خاشاک کی
طرح بہتے رہیں گے ۔
گذشتہ دنوں مانپاڑہ پولس اسٹیشن کی حدود میں ایک ۱۳؍ سالہ لڑکی کی عصمت دری
کی گئی اس معاملے میں ایک ۱۷؍ سالہ نابالغ لڑکے کو پولس نے گرفتار کیا حیرت
کی بات یہ ہے کہ ملزم کوئی اور نہیں گھر ہی کا ایک فرد ہے اور متاثرہ لڑکی
کا چچا زاد بھائی ہے اس نے چار ماہ تک یہ گھناؤنا کھیل جاری رکھا ۔یہ راز
اس وقت کھلا جب ڈاکٹروں نے لڑکی کو حاملہ قراردے دیا ۔دوسرا واقعہ اسی
تاریخ کو نالاسوپارہ میں پیش آیا جب ایک نابالغ لڑکی اپنی عزت بچانے کی
خاطر مکان کی چھت سے نیچے کود گئی اس واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ ایک ۳۵ ؍
سالہ نوجوان ۱۲؍ سال کی ایک لڑکی سےپتہ پوچھ رہا تھا لڑکی بڑےبھولے پن سے
متعلقہ جگہ کی نشان دہی کررہی تھی تبھی لڑکے نے اس سےچھیڑ چھاڑ شروع کردی
لڑکی حواس باختہ ہوکر بلڈنگ کے زینوں پر چڑھنے لگی اس نے پیچھا کیا بالآخر
وہ لڑکی ٹیرس پر پہنچ گئی وہاں سناٹا دیکھ کو نوجوان نے کچھ زیادہ پیش قدمی
دکھائی تو لڑکی نے خوف و گھبراہٹ میں ٹیرس سے چھلانگ لگادی نتیجے میں اس کی
ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی، آخر کار زخموں کی تاب نہ لاکر جان سے ہاتھ دھو
بیٹھی۔اسی تاریخ کو شب میں کوئی گیارہ بجے تھانے سے ایک لوکل ٹرین وی ٹی کی
طرف جارہی تھی، ٹرین کے ایک کوچ میں بیٹھی خاتون کو ایک نوجوان مسلسل چھیڑ
رہا تھا وہ شراب کے نشے میں دھت تھا اور اس لڑکی کے ساتھ نازیبا حرکتیں
کررہا تھا ، خاتون اپنے تحفظ کی کوشش کررہی تھی لیکن اس کی مدد کیلئے کوئی
بھی آگے نہیں بڑھا ۔بتایا جاتا ہے کہ اس وقت اس کوچ میں پندرہ سے بیس
خواتین موجود تھیں لیکن کسی نے بھی اس لڑکی کی مدد نہیں کی وہ اپنے تحفظ
میں ہاتھ پاؤں چلاتی رہی بالآخر اس کی ہمت او ر طاقت نے رنگ دکھایا ، وہ
سینہ سپر گئی اور اس نوجوان کو کوچ سے باہر نکال دیا ۔سردست اس واقعے سے دو
باتیں صاف ہورہی ہیں ایک تویہ کہ لیڈیز کوچ میں پولس تعینات ہوتی ہے لیکن
اس کوچ میں کیوں نہیں تھی جس سے پورے پولس انتظامیہ پر انگلی اٹھ رہی ہے
اور پولس کی نا اہلی ثابت ہورہی ہے ،دوسرے یہ کہ خود غرضی اور مطلب پرستی
ہم پر اس قدر غالب ہوچکی ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے غلط کام ہوتے
دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں ہم صرف اس وقت جاگتے ہیں اور جاگتے ہی نہیں
چیخنے چلانے بھی لگتے ہیں جب کوئی مصیبت خود ہم پر آن پڑتی ہے اور اس وقت
چاہتے ہیں کہ ہمارے دفاع کیلئے سبھی سامنے آئیں لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ
اس خود غرضی والے معاشرے کی تعمیر میں ہمارا کتنا حصہ ہے ۔انہی تاریخوں میں
ایک خبر سورت سے نکل کر اخباروں کی سیاہی بنی ۔خبر یہ تھی کہ گیارہ سالہ
مہلوک بچی کا جب پوسٹ مارٹم کیا گیا تو یہ رپورٹ سامنے آئی کہ اس پر
تقریبا ً ایک ہفتے تک مسلسل مظالم ڈھائے گئے اور اسے اجتماعی عصمت دری کا
نشانہ بنایا گیا اس کے جسم پر زخموں کے ۸۶؍ نشانات پائے گئے ،رپورٹ سے یہ
بھی انکشاف ہوا ہے کہ بچی کے عضو خاص پر بھی چوٹ کے شدید نشانات موجود ہیں
۔
مندرجہ بالاواقعات جو ہم نے نقل کئے ہیں وہ صرف ایک دن کے اور ملک کے ایک
حصے کے ہیں اخبارات اور ٹی وی چینل دیکھنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ
ملک کے دیگر حصوں میں عصمت دری کے واقعات کس قدر بڑھ گئے ہیں جو یہ بتاتے
ہیں کہ ملک میں لااینڈ آرڈر کا کتنا برا حال ہے اور ا س سے کہیں زیادہ
حیرت اس بات پر ہے کہ موجودہ حکومت اس تعلق سے بالکل خاموش ہے اور اس کی
جانب سے کوئی ایسی پیش رفت نہیں ہورہی ہے جس سے لوگوں کو اطمینان حاصل
ہوسکے کہ حکومت اس تعلق سے رنجیدہ اور پریشان ہے ۔اس کے برعکس گجرات ماڈل
کا پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹنے والے وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی
لیڈران و کارکنان نے کٹھوعہ اور اناؤ کی نابالغ بچیوں کے ساتھ اجتماعی
عصمت دری معاملے میں جس طرح کا رخ اختیار کررکھا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں
،پورے ملک میں اس طرح کے لگاتار بڑھتے واقعات نے ملک کے عوام کو انتہائی
تشویش میں مبتلا کردیا ہے ۔اناؤ کی لڑکی کے ساتھ زناکاری کا ارتکاب کرنے
والاکوئی عام آدمی نہیں بلکہ بی جے پی کا ایک ممبراسمبلی کلدیپ سنگھ
سینگرہے ،اسی طرح کٹھوعہ کی آصفہ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اسے عصمت دری کے
عام واقعات سے جوڑناغلط ہے بلکہ وہ سیدھا سادھا تعصب اور انتقامی معاملہ ہے
جس کا ارتکاب اس لئے کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو سبق سکھایا جاسکے کہ انہیں
یہ احساس ہو جائے کہ وہ اس ملک میں نمبر دو کے شہری ہیںاور انہیں اس ملک
میں اگر رہنا ہے تو آر ایس ایس، وشو ہندوپریشداور دیگر فرقہ پرست جماعتوں
کی مرضی کے مطابق ہی چلنا پڑے گا ۔ہندوستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں
ہوا کہ کسی مظلوم و معصوم بچی کے ساتھ عصمت دری اور بربریت کا معاملہ کیا
گیا تو اس کی حمایت کے بجائے ان زانیوں اور گناہگاروں کے حق میں جلوس نکالے
گئے ،کٹھوعہ میں ایسا ہی کیا گیا یہاں تک کہ اس بچی کی تدفین بھی وہاں نہیں
ہونے دی گئی ،مجبوراً اہل خانہ کو اس بچی کو دوسری جگہ دفن کرنا پڑا ۔آصفہ
کے اہل خاندان کو آبائی علاقہ چھوڑنا پڑا ،ان کا کہنا ہے کہ کٹھوعہ میں اب
ہمارے خاندان کا کوئی فرد محفوظ نہیں ہے ،ہماری مدد تو درکنار ظالموں کے حق
میں ریلیاں نکالی گئیں اور اب ہمیں محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم تنہا ہیں نہ
حکومت ہماری طرفدار ہے نہ ہی کوئی اور ۔یہ واقعات بتارہے ہیں کہ حالات کدھر
جارہے ہیں اور مستقبل میں کیا رخ اختیار کریں گے ،ایسے میں تمام ملی
تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مظلومین کو متحد کریں اور سرجوڑ کےبیٹھیں
،وقت کا تقاضا ہے کہ دلتوں ،مسلمانوں اور ملک کے سیکولر عوام کو اب متحد
ہوجانا چاہیئے ورنہ وہ دن دور نہیں جب۰۰۰ |