سینیٹ میں ووٹوں کی خریدوفروخت

بنی گالہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کاکہناتھا کہ سینیٹ الیکشن میں پیسے لے کرووٹ ڈالنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لے لیا ۔ ہارس ٹریڈنگ میں تحریک انصاف کے بیس ارکان اسمبلی ملوث پائے گئے جنہوں نے چارچارکروڑ روپے لیے۔عمران خان کاکہناتھا کہ اگران ارکان نے مطمئن نہ کیاتوپارٹی سے نکال دیں گے اوران کے نام قومی احتساب بیورکودے دیں گے۔ان کاکہناتھا کہ سینیٹ ملک کااہم ترین ادارہ ہے اورملک میں تیس ،چالیس سال سے سینیٹ الیکشن میں ووٹ بک رہا ہے۔وزیراعظم نے چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے جوکہااس پرافسوس ہوا،کیاانہیں نہیں پتہ تھا کہ تیس سال سے سینیٹ الیکشن میں ووٹ خریدااورفروخت کیاجارہا ہے۔انہوں نے ایکشن کیوں نہیں لیا۔کے پی کے اسمبلی میں ہمارے ساٹھ اراکین ہیں اورپارٹی تحقیقات کے مطابق بیس اراکین نے ووٹ بیچے اوروہ لوگ سینیٹ الیکشن میں کامیاب ہوئے جن کے بارے میں تصوربھی نہیں کیاجاسکتاتھا، جولوگ بکے نہیں انہیں داددیناچاہتاہوں ارکان نے اپناووٹ بیچ کرووٹرزکونقصان پہنچایا۔یہ ہے وہ عزت جوہم ووٹرزکودے رہے ہیں۔ہم نے سینیٹ انتخاب میں ووٹ بیچنے والے ارکان کے خلاف کمیٹی بنائی جن کے نام تحقیقات کے بعدسامنے آئے۔ہماراسسٹم رشوت لینے اوردینے کی اجازت دیتا ہے۔امریکی سینیٹ انتخابات میں سینیٹرزبکتے تھے ۔ بعد ازاں جب انتخابات بالواسطہ طریقے سے کرائے گئے تومعاملات ٹھیک ہوئے۔ہم ان تمام افرادکوصفائی کامکمل موقع دیں گے۔عمران خان کاکہناتھا کہ باقی جماعتوں کے لوگ بھی بکے ہیں ،کیاباقی جماعتیں اپنے کرپٹ ارکان کونکالنے کی اخلاقی جرات کریں گی۔دیگرجماعتیں اپنے ارکان کے نام سامنے نہ لائیں توہم ان کے ناموں کااعلان کردیں گے۔ہم نے ان کاپتہ بھی لگالیاہے۔ہم آئندہ انتخابات میں ٹکٹ دینے کے طریقہ کارکوبھی عوام کے سامنے ظاہرکریں گے۔کسی نے تحریک انصاف کے ٹکٹ کے حصول کے لیے پیسہ لگایا تووہ ضائع ہوجائے گا۔جب تک میں مطمئن نہیں ہوں گا، ٹکٹ نہیں دوں گا۔اس سے قبل سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی فروخت سے متعلق عمران خان کورپورٹ پیش کی گئی۔ جس میں دعویٰ کیاگیا کہ سینیٹ انتخابات میں ایک ارب بیس کروڑ سے ارکان اسمبلی کا ضمیر خریدا گیا۔رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی نے ساٹھ کروڑ روپے وصول کیے۔تحریک انصاف کے تیس ارکان کوہارس ٹریڈنگ کی آفرہوئی تاہم اس کے پندرہ ارکان کوہارس ٹریڈنگ کے دوران رقم کی ادائیگی کی گئی۔رپورٹ میں پیپلزپارٹی کے بھی کچھ ارکان کورقم کی ادائیگی کاانکشاف کیاگیا ہے۔ستائیس فروری کوکے پی کے اسمبلی کے تین ارکان نے گیارہ کروڑ چالیس لاکھ وصول کیے۔اٹھائیس فروری کوپشاورمیں پانچ ارکان اسمبلی نے چار، چارکروڑ روپے وصول کیے۔یکم مارچ کوپشاورمیں تین ارکان نے تین ،تین کروڑ روپے وصول کیے۔دومارچ کوپشاورمیں ہی مزیدتین ارکان نے تین تین کروڑ روپے وصول کیے ۔ دومارچ کوہی ایک خاتون اسمبلی رقم وصول کرنے آئی اس نے تین کروڑ لینے سے انکارکرتے ہوئے پانچ کروڑ کی ڈیمانڈ کی۔لاہورمیں میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے عمران خان کاکہناتھا کہ ووٹ بیچنے والوں سے متعلق جوفیصلہ کیاوہ تفتیش کی بنیادپرتھا ۔بیس لوگوں کوموقع دیا ہے کہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوکرصفائی دیں یہ ہمیں مطمئن نہ کرسکے توان کے نام نیب میں دیں گے۔شاہدخاقان عباسی سمیت دیگرجماعتیں بھی ووٹ بیچنے والوں کے خلاف ایسی ہی کارروائی کریں جس طرح ہم نے کی ہے۔پارٹی میں بکنے والے ارکان کے معاملے پرجولوگ آوازاٹھارہے ہیں وہ پہلے یہ بتائیں تیس سال سے جوسینیٹ انتخابات میں ایم پی ایز فروخت ہورہے تھے اس خاموش کیوں تھے۔سب کومعلوم تھا کہ سینیٹ انتخابات میں ایم پی ایزاورووٹ فروخت ہوتے ہیں لیکن سب جماعتوں کے سربراہ خاموش بیٹھے رہے۔اس سے پہلے جب سینیٹ انتخابات ہوئے تھے توہم نے کہاتھا اس نظام کوتبدیل ہوناچاہیے۔کیوں کہ یہ کرپشن کاموقع فراہم کرتاہے اورایم پی ایزکی قیمتیں لگائی جاتی ہیں۔ان کاکہناتھا کہ سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلا ہے اورمیں دوسری پارٹیوں کوچیلنج کرتاہوں کہ وہ بکنے والے ارکان اسمبلی کے نام سامنے لائیں ۔ترجمان تحریک انصاف کے مطابق بیس اراکین صوبائی اسمبلی کواظہاروجوہ کے نوٹسزجاری کردیے گئے جس میں ان سے پندرہ روزمیں تحریری طورپرموقف پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔پارٹی نے وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا کی سربراہی میں چھ رکنی انضباطی کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔ ترجمان کے مطابق تسلی بخش جواب نہ دینے والے اراکین کوپارٹی سے نکال دیاجائے گا۔ عمران خان کی پریس کانفرنس پرردعمل دیتے ہوئے کے پی کے اسمبلی کے اراکین نے کہا کہ ووٹ کے بدلے کسی سے پیسے نہیں لیے اورثبوت کے بغیرکارروائی کاکوئی جوازنہیں بنتا۔ایک ممبرصوبائی اسمبلی نے کہا کہ عمران خان کے پاس میرے خلاف پیسے لینے کے ثبوت ہیں توسامنے لائیں۔ایک رکن نے کہا کہ پارٹی نے مجھے نکال دیا ہے اب میں آزادہوں۔ایک رکن صوبائی اسمبلی نے کاکہناتھا کہ ووٹ بیچنے والوں کی فہرست میں اپنانام دیکھ کرحیرانی ہوئی، اپناووٹ نہیں بیچا۔میرے خلاف الزام ہے لیکن کوئی ثبوت نہیں۔انکوائری میں میراموقف نہیں لیاگیا۔شوزکازنوٹس کا جواب دوں گااورپارٹی کومطمئن کروں گا۔ ووٹ بیچنے کے الزام سے بچنے کے لیے وزیراعلیٰ کے پی کے کوایک روزپہلے ہی ووٹ نہ ڈالنے کابتادیاتھا۔وزیراعلیٰ خیبرپختون خواکے معاون خصوصی نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کے معاملے پرانکوائری ٹھیک نہیں ہوئی ،مجھے بلاکرنہیں پوچھا گیا۔تحریک انصاف کاورکرہوں اوررہوں گا، شوکاز نوٹس کاجواب دوں گا۔تحریک انصاف کی خاتون ایم پی اے نے کہا کہ میں نے ووٹ نہیں بیچا اورسینیٹ الیکشن میں پارٹی فیصلے کے مطابق ووٹ دیا۔ایک ممبر صوبائی اسمبلی نے ووٹ فروخت کرنے کاالزام مستردکرتے ہوئے کہا کہ ووٹ فروخت کرنے اورپارٹی سے غداری کاسوچ بھی نہیں سکتا۔ایک ایم پی اے نے کہا کہ میں عمران خان کے خلاف ہتک عزت کادعویٰ دائرکروں گا۔ایک خاتون ایم پی اے نے کہا کہ انصاف کے لیے عدالت کادروازہ کھٹکھٹائیں گے۔وزیراعلیٰ کے پی کے کواس بات کاعلم ہی نہیں کہ کس نے کس کوووٹ دیا۔ایبٹ آبادپریس کلب میں حلقہ کے سینکڑوں افرادممبران ضلع وتحصیل کونسلزکے ہمراہ پرہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک ممبرخیبرپختون خوااسمبلی نے چیف الیکشن کمشنرسے ووٹ کی تصدیق کے لیے تھیلاکھولنے کامطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سازش کاشکارہوئے ہیں۔میں سازشی ٹولہ کانام لوں توخدشہ ہے کہ سینیٹ الیکشن کاتھیلاغائب ہوجائے گا۔ممبرصوبائی اسمبلی نے قرآن کریم ہاتھ میں اٹھاکرحلف دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی لسٹ کے مطابق ووٹ کاسٹ کیا۔ووٹ کی تصدیق کے لیے چیف الیکشن کمشنرکودرخواست دی ہے ۔عمران خان کے کہنے پرچارحلقے کھل سکتے ہیں تومیرے ووٹ کی تصدیق کے لیے تھیلاکیوں نہیں کھل سکتا۔اس میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ۔انہوں نے اس بات کااعتراف کیا کہ وزیراعلیٰ پرمکمل اعتمادہے ۔اسلام آبادسے ایک قومی اخبارمیں خبرہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کامبینہ طور پرحصہ بننے والے بیس اراکین صوبائی اسمبلی خیبرپختون خوانے وزیراعلیٰ کے پی کے کی سربراہی میں بننے والی چھ رکن انضباطی کمیٹی کومستردکرتے ہوئے شاہ محمود قریشی، اسدعمرسمیت دیگرسنیئرراہنماؤں پرمشتمل کمیٹی بنانے کامطالبہ کردیا ۔جب کہ تین خواتین اراکین اسمبلی کی جانب سے الزمات کومستردکرتے ہوئے قرآن پاک پرحلف دیے جانے کے معاملے نے نیارخ اختیارکرلیاہے۔کیوں کہ بحیثیت مسلمان کوئی قرآن پاک پرجھوٹاحلف اٹھانے کاسوچ بھی نہیں سکتا۔دوسری جانب ضمیرفروشی کے الزامات کی زدمیں آنے والے بعض اراکین سخت ذہنی پریشانی میں مبتلا ہیں اورہرطرف سے اٹھنے والی آوازوں سے بچنے کے لیے اپنی سیاسی سرگرمیاں محدودکردی ہیں۔خبریوں ہے کہ ووٹ بیچنے کے الزام کاسامناکرنے والے پی ٹی آئی ارکان نے سینیٹ میں ووٹ بیچنے کاالزام مستردکرتے ہوئے شوکازنوٹس کاجواب دینے کا اعلان کیاتھا۔شہرام میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ان اراکین نے اس معاملے پرچیف جسٹس آف پاکستان سے ازخودنوٹس لینے اورجوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی اپیل کردی۔پی ٹی آئی اراکین کاکہناتھا کہ چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن بنائیں ہمیں بھی جانچیں اورالزام لگانے والوں کوبھی جانچیں تاکہ دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوجائے۔ووٹ بیچنے کے الزام کاسامناکرنے والے بعض اراکین نے عمران خان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے شوکازنوٹس پھاڑ دیئے۔

سینیٹ میں ووٹوں کی خریدوفروخت کے معاملے پرسیاستدانوں کاردعمل بھی شامل کردیتے ہیں ۔ میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے وزیرمملکت برائے اطلاعات مریم اورنگ زیب نے کہا کہ عمران خان جواب دیں انہوں نے کس کے کہنے پرپارلیمنٹ میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔چوہدری سروربھی جواب دیں کہ انہوں نے چوالیس ووٹ کہاں سے اورکیسے لیے۔بکنے والوں کی جمہوری پارٹیوں میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔سراج الحق کہتے ہیں کہ سینیٹرزکی خریدوفروخت سے سینیٹ کی اخلاقی حیثیت ختم ہوکررہ گئی۔ایوان کے اندربیٹھے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے آنکھ نہیں ملاسکتے۔چندگھوڑے نہیں پوراپورااصطبل بک گیا۔جس طرح بکنے والے مجرم ہیں اسی طرح خریدنے والے بھی مجرم ہیں۔ہم نے رضاربانی کانام پیش کیا لیکن زرداری نے اپنے ایک رکن کی حمایت نہیں کی۔میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے مولانافضل الرحمن کاکہنا تھا کہ عمران خان نے ان لوگوں کونکالاجنہوں نے دس روزپہلے خودعمران خان کوشوکازدیاتھا۔عمران خان کی جانب سے بیس ارکان کوپارٹی سے نکالنے کے فیصلہ کے بعدان کی اکثریت صوبہ میں ختم ہوچکی ہے اوران کاحکومت کرنے کاکوئی آئینی جوازموجودنہیں ہے۔وہ فوری طورپرصوبہ کی حکومت چھوڑدیں ، گورنرحزب اختلاف کی پارٹیوں کوحکومت بنانے کی دعوت دیں ۔یہاں پران کاکوئی اہم اورمنظورنظرآدمی ووٹ خریدتاہے تواس کے لیے جائزہے اورجولوگ پہلے سے ان کوچھوڑ چکے تھے اوران کے مایوس ہوچکے تھے ان کونشانہ بنادیاگیا ہے۔مولانافضل الرحمن کاکہناتھا کہ عمران کہتاہے کہ اس کی ٹوکری میں بیس گندے ٹماٹرہیں ،ہم کہتے ہیں تمہاری ٹوکری میں موجودتمام ٹماٹراورانڈے گندے ہیں ۔
عمران خان اس بات پرتعریف کے مستحق ہیں کہ انہوں نے خودپی ٹی آئی کے ووٹ فروخت کرنے والے اراکین خیبرپختون خوااسمبلی کے نام میڈیاکے سامنے بے نقاب کردیے ہیں۔عمران خان نے جس اخلاقی اورسیاسی جرات کامظاہرہ کیا ہے اس سے پہلے کسی نے ایسانہیں کیا۔چیئرمین تحریک انصاف نے دیگر سیاسی جماعتوں سے ایسی ہی اخلاقی جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اپنی پارٹیوں کے ضمیرفروشوں کوبے نقاب کرنے کادرست مشورہ دیا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیاووٹ بیچنا ہی صرف جرم ہے اورووٹ خریدناکوئی جرم نہیں ہے؟ کیوں کہ عمران خان نے ووٹ فروخت کرنے والوں کے نام تولیے ہیں ووٹ خریدنے والوں میں سے کسی کانام بھی انہوں نے نہیں لیا۔ سراج الحق درست کہتے ہیں کہ ووٹ خریدنے اوربیچنے والے دونوں مجرم ہیں۔پی ٹی آئی کی طرف سے ووٹ بیچنے والوں کوتوشوکازنوٹس بھی جاری کیے گئے ہیں ووٹ خریدنے والوں کوکوئی شوکازنوٹس جاری نہیں کیاگیا۔کہیں ایساتونہیں کہ پی ٹی آئی ممبران اسمبلی کے ووٹ بیچنے سے پارٹی کونقصان ہوا اس لیے ان کے نام بھی لیے گئے اورانہیں شوکازنوٹس بھی جاری کردیے گئے اس کے برعکس ووٹ خریدنے سے پارٹی کوفائدہ ہوا۔ اس لیے ووٹ خریدنے والوں کانام نہیں لیاگیا اورنہ ہی انہیں شوکازنوٹس جاری کیاگیا۔اس سے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں معاملہ ووٹوںیاممبران اسمبلی کی خریدوفروخت کانہیں بلکہ پارٹی کے سیاسی نفع ونقصان اورخیبرپختون خواسے پی ٹی آئی کے علاوہ دیگرسیاسی جماعتوں کے سینیٹرمنتخب ہونے کاہے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ کے پی کے سے دیگرسیاسی جماعتوں کے سینیٹرزکیوں منتخب ہوگئے۔ دوسراسوال یہ بھی سامنے آیا ہے کہ خریدے گئے ووٹوں اوران ووٹوں سے سینیٹرزمنتخب ہونے والوں کی آئینی اوراخلاقی کیاحیثیت ہے۔سوال یہ بھی سامنے آتاہے کہ ووٹ خریدکرسینیٹرزمنتخب ہونے والوں کی چیئرمین اورڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کی کیاحیثیت ہے۔ عمران خان کے مطابق ووٹ بیچناجرم ہے توخریدنابھی جرم ہوا۔عمران خان نے جن ووٹ فروشوں کے نام لیے ہیں ان اراکین اسمبلی نے ووٹ فروخت کرنے کے الزامات کومستردکردیا ہے ۔ سینیٹ میں ووٹوں کی خریدوفروخت کے معاملے پرالیکشن کمیشن یاعدلیہ کی جانب سے انکوائری کمیٹی بنائی جانی چاہیے ۔ ملک بھرمیں سینیٹ میں ووٹوں کی فروخت ثابت ہوجائے توبیچنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ، فروخت شدہ ووٹ کینسل کردیے جائیں ۔خریدے گئے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سینیٹرزکاانتخاب منسوخ کرکے ان نشستوں پردوبارہ ووٹنگ کرائی جانی چاہیے۔بلوچستان میں منتخب صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتمادکامیاب ہونے اورنئی حکومت قائم ہونے کے معاملہ کی بھی تحقیقات ہونی چاہییں کہ ممبران بلوچستان اسمبلی کاضمیربھی خریداگیا ہے یانہیں۔ اراکین بلوچستان اسمبلی کاضمیرخریدے جانے کی صورت میں ان اراکین اسمبلی کے ووٹوں سے منتخب صوبائی حکومت کی کیااخلاقی وآئینی حیثیت ہے اس کابھی تعین ہوناچاہیے۔

شناختی کارڈ کی فیس میں اضافہ
ایک قومی اخبارکی ویب سائٹ پرموجودخبرکے مطابق نادراکی جانب سے قومی شناختی کارڈ کی نئی قیمتوں کانوٹی فیکیشن جاری کردیاگیا ہے ۔ نئے شیڈول کے مطابق نئے نارمل آئی ڈی کارڈ کی فیس ارجنٹ ایک ہزارایک سوپچاس روپے جب کہ ایگزیکٹودوہزارایک سوپچاس روپے میں اجراہوگا۔شناختی کارڈکی نارمل توسیع چارسوروپے ،ارجنٹ ایک ہزارایک سوپچاس روپے جب کہ ایگزیکٹودوہزارایک سوپچاس روپے میں ہوگی۔اورسیزپاکستانیوں کے لیے شناختی کارڈ کی نارمل فیس چارہزاردوسوپچاس روپے ،ارجنٹ فیس چھ ہزارتین سوپچاس روپے جب کہ ایگزیکٹوفیس آٹھ ہزارچارسوپچاس روپے ہوگی۔ اورسیزپاکستانیوں کے لیے شناختی کارڈ کی نارمل فیس چارہزارچھ سوروپے ارجنٹ فیس چھ ہزارسات سوروپے جب کہ ایگزیکٹوکی فیس آٹھ ہزارآٹھ سوروپے ہوگی۔ نادراکی جانب سے شناختی کارڈ کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان کی غریب عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کاسبب بنے گا۔ پاکستانیوں کی اکثریت دیہاتوں میں رہتی ہے۔ دیہاتی لوگ کھیتی باڑی اورمال مویشی پال کرگزارہ کرتے ہیں۔ شہروں میں رہنے والے اکثرپاکستانیوں کی آمدنی محدودہے۔ قومی شناختی کارڈ توایک لازمی دستاویزہے۔ یہی کارڈ تواس بات کاسرکاری ثبوت ہوتاہے کہ حامل کارڈ پاکستان کاشہری اورریاست کی جانب سے جاری کیے گئے تمام حقوق کامستحق اورقوانین کاپابند ہے۔ چاہیے تویہ تھا کہ شناختی کارڈ کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی جاتی تاکہ کم سے کم آمدنی والے پاکستانی بھی شناختی کارڈ بنواسکیں۔اب جوپاکستانی تین سوروپے یااس سے کم روزانہ کماتے ہیں۔ ان کوشناختی کارڈ بنواناپڑجائے تووہ کیسے نادراکی نئی فیس اداکرسکیں گے۔ فیس ادانہ کرسکنے کی صورت میں وہ اہم قومی دستاویزشناختی کارڈ سے محروم رہ جائیں گے۔ شناختی کارڈ نہ ہونے کی صورت میں انہیں کیاکیامشکلات پیش آسکتی ہیں اس کاناداراکوبخوبی احساس ہوناچاہیے۔ہم اس تحریرکے توسط سے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف نادراکو شناختی کارڈ کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کی ہدایت کریں بلکہ شناختی کارڈ کی فیسوں میں کمی کی ہدایت بھی کریں تاکہ کم آمدنی والے پاکستانیوں کوشناختی کارڈ بنواتے ہوئے کسی پریشانی کاسامنانہ کرناپڑے۔ ٍ
 

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350763 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.