روز مرہ کے معاملات میں ہر لمحہ استعمال ہونا والا یہ
جملہ ،جو کہ بے شمار اپنے اندر حکمتوں کو سموئے ہوئے ہے لیکن اس جملہ کے
برعکس اس سے بے رغبتی اور نسیان (بھول) بہت بڑے چیلنج کا سامنا بن جاتی ہے
، تعلیم امت کی خاطر ہمیں وہ مضمون جو "ان شاء اللہ" کے تحت قرآن پاک میں
موجود ہے یاد آ رہا ہے جو کہ سورہ کہف میں مذکور ہے ،ہر انسان کا عقل و قلب
تحتِ قدرتِ الٰہی ہے اسی لئے اللہ پاک نے امت کو دین سکھانے کی خاطر بعض
اوقات کچھ اشیاء نبی پاک ﷺ سے بھلا بھی دیں ، یا ابھی تک ان کا علم عطاء
نہیں فرمایا تھا ۔ تو اسی کے پیش نظر بتانا یہ مقصود ہے کہ جب آپ ﷺ سے کفار
نے سوال کیا کہ اصحاب کہف کی تعداد کتنی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کل بتاؤں گا
تو آپ ﷺ "ان شاء اللہ" کہنا بھول گئے یا بھلا دئے گئے (تعلیمِ امت کی خاطر)
تو پندرہ دن وحی نازل نہیں ہوئی پھر پندہ دن کے بعد حکم ہوا کہ وحی رکنے کی
وجہ یہ ہے کہ آپ نے" کَل" کے ساتھ "ان شاء اللہ" نہیں کہا اس کو ضرور کہا
کریں ۔اس سے "ان شاء اللہ" کہنے کی اہمیت واضح ہوئی کہ اگر امام الانبیاء ﷺ
کو بھی یہ حکم ہے کہ ہر کام میں ان شاء اللہ ضرور فرمایا کریں تو یہاں سے
ہمیں اندازہ لگانا ہو گا کہ بارگاہِ رب العزت میں اس پر کتنی تاکید فرمائی
گئی ہے کہ پندرہ دن وحی نازل نہیں ہوئی،اس لئے ہر انسان کو اپنی زندگی کا
نصب العین بنانا ہو گا کہ ان شاء اللہ ضرور کہا کریں گے۔
اگر ہم اس کو دوسرے زاویے سے دیکھیں تو یہ ذکر الٰہی بھی ہے اور ذکر میں
بھی وہ ذکر جس میں اسم ذات موجود ہے جو تمام صفاتی نام پر ہر لحاظ سے فضیلت
رکھتا ہے جب کام اور وعدہ کے دوران ذکرِ الٰہی کیا جائے تو احادیث کی رو سے
اس کام اور وعدہ میں دین و دنیا کی حسنات اور کام میں برکت و آسانی ہو جاتی
ہے ۔
اس کے علاوہ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ جوج ماجوج کی قوم ہر روز دیوار کو
چاٹتی ہے جب تھوڑی سے رہ جاتی ہے تو کہتے ہیں باقی کل کر لیں گے ،لیکن کل
حسب سابق ہو جاتی ہے ،قرب قیامت ان میں ایک بچہ پیدا ہو گا وہ ان شاء اللہ
کہے گا تو اگلے دن دیوار اتنی ہی ہو گی جتنی رہ گئی تھی۔
اب اہمیت کے بعد ہم فقہی مباحث کی طرف آتے ہیں ؛ان شاء اللہ کہاں کہا جائے
اس کے متعلق امام عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزي المتوفیٰ 579 ھ اپنی
مایہ ناز تصنیف زاد المسير فى علم التفسير کی جلد 5 صفحہ 127 اور 128 مطبو
عہ بیروت 1408 ھ میں تین مقامات بیان کرتے ہیں
"(١) جب آپ ان شاء اللہ کہنا بھول جائیں پھر آپ کو بعد میں یاد آئے تو آپ
ان شاء اللہ کہہ لیں، یہ جمہور کا قول ہے۔ (یعنی جہاں کہنے کا محل تھا آپ
نے نہ کہا تو ہر اس جگہ کیونکہ کہنا چاہیے تھا آپ نے نہیں کہا اب آپ کو جب
بھی یاد آ جائے کہ فلاں بات کرتے وقت ان شاء اللہ نہیں کہا تو اب کیہ لیں)
(٢) اذانسیت کا معنی ہے، اذا غضبت یعنی جب آپ غضب ناک ہوں تو ان شاء اللہ
کہیں کیونکہ غضب کی وجہ سے نسیان ہوتا ہے۔ یہ عکرمہ اور ماوردی کا قول ہے۔
(٣) جب آپ کسی چیز کو بھول جائیں تواللہ پاک کو یاد کریں یعنی ان شاء اللہ
کہیں تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو وہ چیز یاد دلا دے۔"
ان شاء اللہ کہنے کا فائدہ کیا ہے؟ اس کا کچھ علم تو اس کی اہمیت سے آ چکا
ہو ہے اور مزید یہ کہ انسان کسی کام کا وعدہ کرے اور پھر وہ کام نہ کرسکے
تو اس کی وعدہ خلافی شرعی لحاظ سے نہیں ہو گی ،جیسے حضرت موسیٰ (علیہ
السلام) نے فرمایا تھا :"ستجدنی ان شآء اللہ صابراً " اگر اللہ نے چاہا تو
عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔(ہاں اس صورت میں یہ بات لازمی ذہن
نشین ہو کہ وعدہ کرتے وقت نیت وعدہ پورا کرنے کی ہو ساتھ پھر ان شاء اللہ
کہنے کا مذکورہ فائدہ حاصل ہو گا،ورنہ تو وہ واضح جھوٹ اور دھوکہ شمار ہو
گا)
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت خضر (علیہ السلام) کے بہ ظاہر غیر شرعی
کاموں پر اعتراض کرنے سے رِہ نہیں سکے تھے لیکن چونکہ انہوں نے ان شاء اللہ
کہا تھا اس لئے ان کے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
ان شاء اللہ میں ایک معرکہ آراء مسئلہ طلاق کا بھی ہے جس میں ہر طرف دلائل
موجود ہیں لیکن اختصار کے ساتھ ہم اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہیں آئمہ اربعہ
کی آراء چونکہ اس مسئلہ میں مختلف ہے اس لئے ہم یہاں آئمہ اربعہ کی آراء
بھی قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں : امام مالک و امام احمد کا مذہب یہ
ہے کہ جب کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا ان شاء اللہ تم کو طلاق ہے تو یہ
طلاق واقع ہوجائے گی جبکہ امام اعظم و امام شافعی کا یہ مذہب ہے کہ یہ طلاق
نہیں ہوگی۔(اور یہی زیادہ اقرب لصواب بھی ہے) کیونکہ اس نے مستقبل میں طلاق
دینے کا کہا ہے " ان شاء اللہ" ہمیشہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے یعنی اس نے
طلاق دینے کا ارداہ ظاہر کیا ہے کہ اللہ پاک نے چاہا تو میں آئندہ طلاق دوں
گا تو اس طرح طلاق واقع نہیں ہوتی )
طلاق کے علاوہ قسم کا مسئلہ " ان شاء اللہ" کے ساتھ بھی قابل توجہ ہے اس
سلسلہ میں ایک ہی اتفاقی صورت کو بیان کرتے ہیں کہ "اگر کسی شخص نے قسم کے
ساتھ ان شاء اللہ کہا تو اس میں اتفاق ہے کہ وہ قسم منعقد نہیں ہوگی"
اس کے علاوہ اہم فقہی اختلافی بحث یہ ہے کہ "ان شاء اللہ" کے ساتھ اگر کلام
متصل (جڑا)ہوا ہو تو کیا صورت ہو گی؟ اور اگر کلام منفصل (الگ) ہو تو کیا
حکم شرع لگے گا ؟ آئیں سمندرِ علمِ رسول ﷺ کے غوطہ زنوں کے نکالے ہوئے ہیرے
جواہرات پر نظر ڈالتے ہیں۔جو کہ علمی مارکیٹ کے مشہور دانا اور صاحبِ رائے
تاجر ،ابو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمي الرازي الملقب
بفخر الدين الرازي خطيب الري المتوفى 606 ھ کی دکان میں مفاتيح الغيب (
التفسير الكبير) کی جلد 7 صفحہ 452 ،الناشردار إحياء التراث العربي بيروت،
الطبعة الثالثة ، 1420ھ پر اپنے حسن سے قارئین کی توجہ کو یکسو کئے ہوئے
ہیں:
(١) ائمہ اربعہ اور اکثر فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ اگر کلام کے ساتھ متصل ان
شاء اللہ کہا جائے تو استثناء درست ہوگا ورنہ نہیں۔ مثلاً اس نے قسم کے
ساتھ متصل ان شاء اللہ کہا تو قسم منعقد نہیں ہوگی اور کچھ دیر بعد ان شاء
اللہ کہا تو قسم منعقد ہوجائے گی۔
(٢) جب تک وہ مجلس میں موجود ہے اس کا ان شاء اللہ کہنا معتبر ہوگا اور
مجلس کے بعد معتبر نہیں ہوگا، یہ امام حسن بصری اور امام طاؤس کا قول ہے
اور امام احمد سے بھی ایک روایت ہے۔
(٣) حضرت ابن عباس ، مجاہد اور سعید بن جبیر نے یہ کہا کہ اگر اس نے ایک
سال بعد بھی ان شاء اللہ کہا تو معتبر ہوگا۔
زمانہ جانتا ہے کہ مذہب احناف کو اللہ پاک نے جو عزت و عظمت دی ہے اور کسی
بھی فقہی مذہب کو وہ مقام و مرتبہ نہیں ملا کیونکہ عقلی و نقلی دلائل کی رو
سے قرآن و حدیث کے ساتھ یہی مذہب زیادہ جڑا ہوا ہے ،امام رازی اسی مذکورہ
مقام کے ساتھ ایک دلچسپ اور عظمتِ احناف و تدبرِ صاحبِ بانی احناف کے حوالہ
سے لکھتے ہیں کہ "ایک مرتبہ خلیفہ منصور کو یہ بات پہنچی کہ امام ابوحنیفہ
نے حضرت ابن عباس کے مذہب کی مخالفت کی ہے۔ اس نے امام اعظم کو بلا کر باز
پرس کی اور کہا تم ہمارے دادا کے مذہب کی مخالفت کرتے ہو؟ امام اعظم نے
فرمایا اے امیر حضرت ابن عباس کا مذہب تو آپ کے لئے نقصان دہ ہے۔ منصور نے
پوچھا وہ کیسے ؟ امام اعظم نے فرمایا ایک شخص دربار میں آ کر آپ کے ہاتھ پر
بیعت خلات کرے گا اور باہر آ کر کہہ دے گا ان شاء اللہ تو پھر یہ بیعت لازم
نہیں ہوگی۔ منصور یہ جواب سن کر بہت متاثر ہوا اور امام اعظم کی تحسین کی
"۔
اور لگے ہاتھ یہ بھی گو ش گزار کرتا جاؤ ں کہ فی زمانہ ایس ایم ایس ، اور
دیگر اردو ،و رومن کمپوزر ان شاء اللہ کی کمپوز کے حوالہ سے بڑی غلطی کرتے
ہیں ان سے درخواست ہے کہ بتائے گئے طریقہ کو ہی اپنایا جائے ورنہ معنی میں
بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہو جائے گا ،کو شش کریں رومن (انگلش) لکھنے والے بھی
ان شاء اللہ اردو ہی میں لکھا کریں لیکن اگر ضرور با ضرور رومن ،انگلش میں
لکھنا ہی ہو تو اس طرح in sha Allah لکھیں insha Allah لکھنا غلط ہے اسی
طرح اردو میں انشاء اللہ لکھنا بھی غلط ہے، "ان" کو الگ "شاء" کو الگ اور
لفظ" اللہ" کو الگ لکھیں ۔
سید عمادالدین(متخصص فی الفقہ ،ایم فل ریسرچ سکالر)
|