حق پر عمل کرنے سے سینے میں ٹھنڈک اور دل کو قرار ملتا ہے

حق سے مراد قطعی اور واقعی چیز ہے اور یہ لفظ سچ، قرآن مجید ، عدل و انصاف اسلام، ٹھیک اور درست کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے پیش نظر مضمون میں حق سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات و فرامین ہیں یعنی دینی تعلیمات، مقصد یہ ہے کہ جو شخص دینی تعلیمات پر عمل کرتاہے اور ان کے مطابق عمل کرتا ہے تو اسکے دل کو سکون و اطمینان کی لازوال دولت نصیب ہوتی ہے اور سینے میں ٹھنڈک کا احساس ہوتاہے۔

اس کا ثبوت قرآن و حدیث دونوں سے ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ جان لو اللہ کے ذکر سے دلوں کواطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘(القرآن) اور ذکر کی کئی صورتیں ہیں مثلاً نماز روزہ تلاوت قرآن نوافل تسبیح، تحمید ، تہلیل اور تکبیر وغیرہ ،اور حدیث شریف میں حضرت انسؓ سے روایت ہے فرمایا نبی پاکﷺ نے کہ جس شخص میں تین چیزیں پائی جائیں وہ ایمان کی حلاوت کو محسوس کرتا ہے، پہلی چیز یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ اسکو دنیا و مافیہا سب سے زیادہ محبوب ہوجائیں اور دوسری یہ کہ وہ اگر کسی سے محبّت کرتا ہے تو صرف اللہ ہی کیلئے کرتا ہے اور تیسری یہ کہ وہ اسلام لانے کے بعد دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کو اتنا ہی برا جانتا ہے جیسا کہ وہ خود کو آگ میں ڈالے جانے سے نفرت کرتا ہے اور برا جانتا ہے ( رواہ البخاری)۔

دل کو سکون و اطمینان نصیب ہونا اور ایمان کی مٹھاس محسوس ہونا یہی تو وہ سینے ٹھنڈک ہے جو اللہ اور اسکے رسولﷺ سے محبّت کرنے اور انکی اطاعت کرنے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لوگ تلواروں کے سائے ، برستی گولیوں ،بارش اور اندہیروں میں بھی نماز ادا کرنے کیلئے مسجدوں کی طرف دوڑتے ہیں او ر بوڑھے و ناتواں لوگ جو اچھی طرح سے چل بھی نہیں سکتے وہ لاٹھی کے سہارے سے آہستہ آہستہ چل کر مسجد میں جاتے ہیں، اور وہ مریض جو بستر مرگ پر پڑا ہواہے وہ کہتا ہے کہ مجھے نماز ادا کرنی ہے اور اگر بول نہیں سکتا تو لکھ کریا اشارے سے کہتا ہے کہ مجھے نماز پڑھاؤ! سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو کس نے مجبور کیا اور وہ کونسی قوت ہے جو انہیں نماز کی طرف کھینچتی ہے؟ اسلئے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انکی ہستی کی بقاء شفاء اور سکون و اطمینان نماز اور ذکر ہی میں ہے۔

اسلام میں حقوق و فرائض کا بیان ہے۔ اور حقوق دو قسم کے ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ اب جو شخص خالق و مخلوق دونوں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے اور اپنے فرائض بطریق احسن نباہتا ہے تو اسے سکون واطمینان کی لازوال دولت نصیب ہوتی ہے۔ اور ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے مثلاً اگر کوئی جج اور قاضی حق و انصاف سے فیصلے کرتا ہے تو خود اسے اور فریقین دونوں کو سکون و اطمینان اور ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہیاور اس کے برعکس اگر وہ لالچ میں آکر یا کسی اور وجہ سے غلط فیصلے کرے تو دونوں کو سکون کی بجائے ایک طرح کی بے چینی اور جلن محسوس ہوتی ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص والدین کی خدمت کرتا ہے تو اسے سینے میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے ۔ او ر والدین کی دعائیں لیتا ہے اور اسکے برعکس اگر وہ والدین سے گستاخی سے پیش آئے تو پھر انکے دلوں سے بدعا نکلتی ہے اور غم و غصہ کی تپش پیدا ہوتی ہے اسی طرح دیگر حقوق کی مثال ہے۔ اور جو لوگ کفر و شرک میں مبتلا ہیں اور اللہ تعالی کی یاد سے غافل ہیں انہیں کبھی سکون نصیب نہیں ہوتا اور وہ بے چین ہی رہتے ہیں اور غم و تفکرات کی تپش میں جلتے ہی رہتے ہیں ۔

Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 320705 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More