اب جو ماحول بن گیا ہے اس میں شفاف الیکشن ہونے کا
چانس مشکل ہے۔ن لیگ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔عوام سے ووٹ لیکر حکومت
بنانے والی اور ملک میں پاکستانی تایخ میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام کرنے
والی پارٹی کو ’’کھڈے لائین‘‘ لگانے والوں نے اس پارٹی کو کونے میں کرنے کے
لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اگر ہم ایسا کہہ دیں اس پارٹی کو سب نے ملی بھگت
سے سائیڈ لائین پر کیا ہے تو یہ کوئی غلط بات نہیں۔اگرچہ پی ایم ایل این نے
کچھ غلطیاں کیں لیکن اس پارٹی کے خلاف کتنی سازشیں کی گئیں اور تاحال جاری
ہیں ان کا انداز ہ لگانا بھی ضروری ہے۔ووٹ دینے والوں سے جب رائے لی جاتی
ہے توان کے مطابق پی ایم این ایل کے خلاف آنے والے فیصلے محض ایک ہی پارٹی
کے خلاف فیصلے ہیں۔ووٹرز کی رائے کے مطابق اگر یہی فیصلے باقی تمام پارٹیوں
پر لاگو کر دیئے جائیں تو باقی پارٹیاں بھی فارغ ہیں۔لیکن باقی پارٹیوں کو
تو صابن صرف سے دھو کر الیکشن جبوترے پر لایا جا رہا ہے۔
ایک منتخب وزیر اعظم کو نا اہل کرنے کا نقصان، نہ صرف نواز شریف کو ہوا ہے
بلکہ اس کی پارٹی سے کئی افراد نے موقع پرستی دکھاتے ہوئے لوٹا ازم کو
اپنایا ہے۔محض اس ایک فیصلے کی وجہ سے سینٹ الیکشن جس میں ہمیشہ حکومتی
پارٹی کا چیئرمین منتخب ہوتا ہے ،اب پیسوں اور کرپشن سے سنجرانی کے نام پر
ایک نیا چہرہ سامنے آگیا۔وزیرا علیٰ بلوچستان راتوں رات لوٹا ازم کی وجہ سے
معتبر ہو گیا۔ملک کی معیشت کا ستیا ناس ہو گیا۔کئی ٹھیکوں میں ٹھیکدارحکومت
کی عدالتی پیشیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی نقصان کر گئے۔چائنا جیسا قریبی
دوست ملک جس نے نواز شریف کی وجہ سے پاکستان کو سی پیک اور کئی بجلی کے
منصوبوں میں پیسہ انویسٹ کیا تھا اب پاکستان کو گھٹیا نظروں سے دیکھتے
ہیں۔پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔چیف جسٹس آف پاکستان کے سیاسی
ہونے سے کئی موقع پرست اور کرپٹ لوگوں نے حکومت کے خلاف ہو کر فوائد حاصل
کئے اور تاحال کر رہے ہیں۔
نیا پاکستان کو نعرہ دینے والے پرانا پاکستان بیچنے کے لئے پی پی پی جیسی
کرپٹ پارٹی کی جھولی میں آ بیٹھی۔عمران خان اگرچہ نواز شریف سے بڑا لیڈر
نہیں ہے پھر بھی موجودہ حالات کا فائدہ اٹھا کر کئی خوشامدیے پی ٹی آئی کو
دودھ دینے والی گائے بنانے کے لئے دن رات تگ و دو کررہی ہے۔میڈیا نے حسب
معمول 90فی صد غلط رول اد ا کیا، جیو نیوز اور جنگ کے علاوہ باقی میڈیا نے
صرف ن لیگ کی ٹانگیں کھینچیں حالانکہ ماضی کے حالات پی پی پی ،پی ٹی آئی
اور باقی تمام پارٹیوں کی کارکردگی اور کرپشن ان کی لائیبریری میں ویڈیو
اور پرنٹ میڈیا کی صورت میں محفوظ ہیں۔
احقر 1997ء سے کالم لکھتا ہے اور ہم لہو دل سے لکھ کے یہ بات کہہ رہے
ہیں۔زبردستی پی ٹی آئی کو لانے سے اس ملک کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں
ہے۔اگر زبردستی پی ٹی آئی کو ملک پر مسلط کر دیا گیا تو اس ملک پر
خدانخواستہ شام،ْمصر اور لیبیا جیسے حالات پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ایک گھر کی
مثال لیں جب کسی گھر کا شریف اور ایماندار سربراہ دھتکار دیا جاتا ہے ۔اس
کے بعد گھرپر بد اخلاق اور بد کردار شخص کی نگرانی مسلط کر دی جاتی ہے تو
یہی خدشہ ہوتا ہے کہ خدانخواستہ پورا گھرانہ یا تو کرپٹ ہو جائے گا یا اس
کا شیرازہ بکھر نہ جائے۔ہر کوئی اس بات کو با لکل سوچنے سے عاری ہے کہ یک
دم پوری ن لیگ کو خدانخواستہ ولن یا کرپٹ پارٹی قرار دے دیا گیا ہے۔ پی ٹی
آئی اس وقت اپنے گریبان میں جھانکے پی پی پی کی کرپٹ نمائندگی پی ٹی آئی
میں شامل ہو چکی ہے۔
جب مشرف نے ن لیگ کو دباؤ میں لیا تب ان لوگوں نے بار بار ویزا لینے سے
بچنے کے چکر میں اقامے لے لئے۔پاکستان میں عام بندے کو بھی پتہ ہے کہ گلف
یا سعودیہ میں دو تین سال لگاتار رہنا ہو تو اقامہ ہی لینا پڑتا ہے۔یہی
اقامے ہمارے قانون نے ان کے خلاف ثبوت بنا کر پوری ن لیگ سمیٹ ڈالی ہے۔
کہنے والے کہ رہے ہیں کہ قانونی طور پر ن لیگ پاس تین راستے ہیں جن کو اپنا
کر وہ دوبارہ عوام میں ووٹ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔پہلا وہی راستہ جس کی
وجہ سے ن لیگ خود تکلیف میں رہی اور جس وجہ سے ملکی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی
ہوئیں۔ ایک یہ ہے کہ ن لیگ عارضی حکومت بننے کے بعد طویل دھرنا دے اور
دوسرا یہ ہے کہ صدارتی آرڈینس کے ذریعے اس قانون کو غیر موثر کر دیں۔ تیسرا
راستہ بہت ناممکن سا ہے کہ اس قانون کو ہی پارلیمنٹ سے ختم کر ڈالیں جس کی
وجہ سے نا اہلی ہوئی لیکن وہ اس لئے ناممکن ہے کہ پی ٹی آئی اور پی پی پی
نے کرپشن سیسنجرانی جیسا سینٹر بنو ا لیا ہے۔ موجودہ ماحول میں الیکشن کیسے
شفاف ہونگے جب ایک پوری پارٹی کو سائیڈ پر کر دیا گیا ہے؟یہ سچ آج سامنے
آئے یا کل۔اگر ن لیگ نا اہل ہے تو سمجھو پاکستان کی ساری پارٹیاں ان سے
زیادہ نا اہل ہیں۔یہ ایک عام پاکستانی ووٹر کی سوچ ہے۔اب سوچ بدلو یا نظام
بدلو فیصلہ سب نے ملکر کرنا ہے۔ن لیگ نے لوڈ شیڈنگ سمیت کئی معاملات میں
بہت زیادہ ڈیلیور کیا ہے۔ن لیگ دوبارہ الیکشن جیت سکتی ہے،اگر ن لیگ نے
دوبارہ عوام سے ووٹ لینے ہیں تو ان کی مرکزی قیادت کو ہر سطح پر عوام کی
آشیر باد لینے کے لئے ان میں مکس اپ ہونا پڑے گا۔ |