آزادی کشمیر کا ایک عہد

دو سال قبل 26 اپریل 2016 ء کے روز تحریک زادی کشمیر کے ایک عہد کی تکمیل ہوئی جب جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد جناب امان اﷲ خان پچاسی سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ریاست جموں کشمیر کی آزادی کے لئے ان کی جدوجہد اور عظیم کردار کا اعتراف اْن کے نظریاتی مخالفین کو بھی ہے۔ اس طویل جدوجہد میں انہوں نے اپنے اصول نہ بکنے، نہ جھکنے اورنہ رکنے کی عملی تصویر پیش کی۔بلا شبہ انہوں نے آزادی کشمیر کی جدوجہد کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ اب نہ کوئی ریاست جموں کشمیر کی تقسیم کرسکتا ہے ا اور نہ ہی جموں کشمیر کے عوام کی منشا کے بغیر کوئی حل ممکن ہوگا۔ انہوں نے ریاست جموں کشمیر کی آزادی کے لیے جو فارمولا دیا وہ اس مسئلہ کے مستقل حل اور برصغیر میں مستقل امن کا ضامن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اس انداز میں حل ہونا چاہیے کہ نہ تو پاکستان و بھارت کی فتح و شکست کا تاثر ملے اور نہ ہی کسی کی قومیحمیت مجروح ہو۔ اس مقصد کے لیے پوری ریاست جموں کشمیرکو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دیا جائے اور دس سال بعد وہاں آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کرائی جائے اور ریاست جموں کشمیر کے عوام جمہوری انداز میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں کی انہوں نے پاکستان اور بھارت میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا ہے یا آزادا و خود مختار رہنا چاہتے ہے۔یہی وہ اصول اور طریقہ ہے جس پر عمل کرکے مسئلہ کشمیر کو حل کیا جاسکتا ہے اور فریقین کو اس پر غور کرنا چاہیے خصوصاََ بھارت کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے۔ امان اﷲ خان مرحوم ریاست جموں کشمیر کی تمام اکائیوں کے درمیان ایک پل اور رابطہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ وادی کشمیر ہو یا جموں، آزادکشمیر ہو یا گلگت بلتستان، ہر جگہ ان کا نظریہ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیااور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کشمیری جدوجہد آزادی سے وابستہ ہیں۔ ریاست جموں کشمیر میں جاری موجودہ تحریک آزادی1988 میں ان کی قیادت میں ہی شروع ہوئی۔ جسمانی طور پر تو وہ آج موجود نہیں لیکن وہ ہر کشمیری کے دل میں بستے ہیں۔ وہ ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختاری کے داعی تھے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان سے اْن کی محبت کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی اور وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ہم پاکستان کے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم کا وہ بہت احترام کرتے تھے اور اْنہیں اپنے لئے مشعل راہ قراردیتے تھے۔ و ہ قا ئد اعظم کی کشمیر پالیسی کی روشنی میں اپنے خود مختاری کے نظریہ کی وضاحت کرتے تھے۔ اْن کی قیادت میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ تحریک آزادی کشمیر کا ہروال دستہ بن گئی۔ پاکستان کی اکثر حکومتوں کے ناروا سلوک اور قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود انہوں نے مملکت پاکستان یا نظریہ پاکستان کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی نہ کہا۔انہوں نے اختلاف رائے کے لیے حکومت اور ریاست کے فرق کو بہت اچھی طرح واضح کیا اور یہی درس انہوں نے اپنے کارکنوں کو دیا۔ انہوں نے ایک عام آدمی کی طرح اپنی زندگی میں جدوجہد کی اور ہر طرح کے نامساعد اور مشکل حالات میں ہمت نہیں ہاری۔ اْن میں کچھ ایسی خوبیاں تھیں جو دورحاضر کے بہت سے سیاسی رہنماؤں اور سرکردہ شخصیات میں مفقود ہیں۔ اْن سے میری پہلی ملاقات 1986ء میں عارف کمال بٹ کی رہائش گاہ پر لاہور میں ہوئی تھی۔ اس پہلی ملاقات کے بعد پھر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا اور ان سے ہمیشہ قریبی تعلق رہا۔ اْن کی شخصیت میں نہ بناوٹ تھی اور یہ ہی ریا کاری۔ بہت سے سیاسی رہنماؤں اور دیگر شخصیات سے ملنے کا تفاق ہوا ہے لیکن امان اﷲ خان جیسا خلوص، عاجزی، اعلیٰ اخلاق اور ملنساری کم ہی لوگوں میں دیکھنے کو ملی۔ وہ ہرایک ملنے سے بہت احترام سے پیش آتے اور اس میں بڑے یا چھوٹے کا فرق روا نہ رکھتے تھے۔ اپنے کارکنوں کے نام یاد رکھتے تھے اور اکثر انہیں ٹیلی فون بھی کرلیتے تھے۔ ان میں اعلیٰ انسانی اوصاف اور ایک قائد کی خوبیاں موجود تھیں۔ کسی لالچ یا خوف نے انہیں اپنے مقاصد سے دور نہ کیا اور وہ ہر فورم پر اپنا نقطہء نظر بیان کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ سیاسی جدوجہد میں غلطیاں اور ایسے فیصلے بھی ہوجاتے ہیں جن کے نتائج مضررساں ہوتے ہیں۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد کی حیثیت سے انہوں نے اپنے فہم کے مطابق وہی فیصلے کیئے جو تحریک آزادی کے لیئے بہتر ہو سکتے تھے۔ ان کی وفات پر سرنگر میں کرفیو کا نفاذ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں امان اﷲ خان کا نظریہ سے کس قدر پھیل چکا ہے۔ سری نگر، سوپور، بارہ مولہ، ہندواڑہ، اننت ناگ، پلوامہ اور ریاست جموں کشمیر کے اور بہت سے علاقوں غائبانہ نماز جنازہ اور تعزیتی اجتماعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ کشمیری عوام کے دلوں میں اْن کے لئے کس قدر محبت اور احترام ہے۔ وہ ریاست جموں کشمیر کے تمام باشندوں کے حقوق کے علمبرادر تھے اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق کے مخالف تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اسلام نظریہ حیات پر مکمل یقین تھے۔ انہوں نے دومرتبہ عمرہ اور روضہ رسول پاکﷺکی زیارت بھی کی۔ اپنی کتاب جہد مسلسل کی پہلی جلد کے صفحہ47 پر وہ لکھتے ہیں کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور قدروں پر میرا پختہ ایمان ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب عمرہ کرنے گئے تو خانہ کعبہ کو دیکھ کر فرط جذبات سے میرے آنسو نکل گئے اور ہچکی بندھ گئی۔ طواف، ہجر اسودکو بوسہ دینے اور نماز کی ادائیگی کے دوران بھی دل و دماغ کی ایک عجیب سی کیفیت رہی۔ جب میں نے مسجد الحرام کی پر جلال عمارت کو اندر اور باہر سے دیکھا تو میرا سر فخر سے بلند ہوگیاکہ مسلمان بھی ایسے عظیم ورثہ کے مالک ہیں۔ یہ عمارت اپنے جمال اور جلال دونوں حیثیتوں سے یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے گرجا گھروں سے کہیں ارفع ہے۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں نماز کی ادئیگی کے بعد جب روضہ مبارک کے پاس سے گذارا تو دل و دماغ کی میں شدت کی کیفیت طاری ہوگئی۔ انہوں نے اپنی کتاب جہد مسلسل میں کامیابی کی کسوٹی کے لئے جو اہم رہنماء اصول دیے ہیں جن پر عمل کرکے ہر کوئی زندگی میں کامیابی اور عروج حاصل کرسکتا ہے۔ اْن صولوں میں خلوص، منزل کا تعین، مسلسل محنت، جھوٹ سے احتراز، ثابت قدمی، خود اعتمادی، قوت برداشت، اخلاقی جرات، کسرِ نفسی، مشکلات سے استفادہ، یقین محکم، قول و فعل میں ہم آہنگی، بلند نظری، خود احتسابی، دوسروں پر اعتماد، میانہ روی، مناسب معلومات، وسیع النظری، انصاف پسندی، خود داری ، منلساری اور زندہ دلی شامل ہیں۔ انہی اصولوں کے تحت وہ باعزت زندگی گذار کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ اگرچہ اْن کی زندگی میں اْنہیں کامیابی کی منزل نہ ملی مگر وہ اپنی جدوجہد سے اطمینان تھے۔ ان کی جدجہد جاری ہے اور قافلہ آزادی یٰسین ملک کی قیادت میں رواں دواں ہے اور مادر وطن کی آزادی کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا ایک دن ان شاء اﷲ اس کی تعبیر ضرور سامنے آئے گی اور ریاست جموں کشمیر میں بھی آزادی اور امن کا سورج طلوع ہوگا۔

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 276 Articles with 264355 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More