پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر و وزیر اعلیٰ پنجاب
شہباز شریف کا ایک ہفتے میں کراچی کا دوسرا دورہ اس بار مخالف سیاسی
جماعتوں میں ہلچل کا سبب بنا۔حالیہ دورے میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے
عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں۔
عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید سے ان کے گھر مردان ہاؤس میں
ملاقات ہوئی۔ جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادر آباد میں جاکر خالد
مقبول صدیقی سے ملاقات کی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر نے عوامی رابطہ
مہم میں ورکرز کنونشن سے بھی خطاب کیا۔انہوں نے کراچی کو نیویارک بنانے کا
دعوی بھی کردیا کہ اگر اگلی بار دوبارہ کامیاب ہوتے ہیں تو وہ کراچی کو
نیویارک بنا دیں گے۔ شہباز شریف کی کراچی میں ایک غیر فطری انتخابی اتحاد
بنانے کی کوشش ناکام اور سہ فریقی اتحاد کے امکانات کافی کم نظر آتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے پرتباک استقبال اور ایم کیو ایم بہادر آباد
آمد کے بعد چہ میگوئیاں ہوئیں کہ شہباز شریف کراچی کی سطح پر تحریک انصاف،
پاک سر زمین پارٹی اور پیپلز پارٹی کے مقابل ایک ایسے سیاسی اتحاد کے
خواہاں ہیں جو کراچی میں کامیابی حاصل کرکے پیپلز پارٹی کے لائحہ عملمیں
رکاؤٹ پیدا کرسکے۔ عوامی نیشل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی کی قریب ترین
حلیف رہ چکی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ پی پی پی کی جانب سے بعض وعدوں کے ایفا
نہ کئے جانے کے سبب اے این پی کا سیاسی و انتخابی رجحان نواز لیگ کی جانب
روبہ مائل نظر آرہا ہے۔ اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان کا”ووٹ کو
عزت دو“مہم میں نواز شریف کی کھلی حمایت سے سیاسی خاکہ نمایاں ہورہا ہے کہ
پی پی پی اور اے این پی کی قربتوں میں فی الوقت سیاسی دوریاں پیدا ہوچکی
ہیں۔ اے این پی کی صوبائی قیادت اپنا کوئی فیصلہ مرکزی صدر کی اجازت کے
بغیر نہیں کرسکتی۔ پہلے دورے میں نواز لیگ کے ساتھ اے این پی سندھ کے سیاسی
انتخابی اتحاد کی خبریں سامنے آئی لیکن بعد میں وضاحت دے دی گئی کہ ابھی
ایسا کوئی اتحاد نہیں ہوا۔ شہباز شریف کے دوسرے دورے میں ایک بار پھر ایم
کیو ایم اور اے این پی پر وعدوں کی بارش نچھاور کیں گئیں۔ اے این پی کی
انتخابی سیاست ماضی کے مقابلے میں کافی کمزور ہوچکی ہے شائد انہیں نواز لیگ
سے کچھ کمک مل سکے لیکن ایم کیو ایم بہادر آباد کا پاکستان مسلم لیگ ن سے
سیاسی اتحاد ان کے باقی ماندہ سپورٹرز اور ووٹرز کے لئے قابل قبول نظر نہیں
آتا۔ علاوہ ازیں ایم کیو ایم دھڑوں کے درمیان اختلافات اس نہج پر آچکے ہیں
کہ انہیں اب مزید سیاسی نقصانات بھی اٹھانا پڑیں گے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب جب سے پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر بنے ہیں ان کی
توجہ دیگر صوبوں کے جانب بھی مبذول ہوچکی ہے۔ جس پر انہیں حسب توقع تنقید
کا بھی سامنا ہے۔ اے این پی اور ایم کیو ایم ماضی میں نواز لیگ پر کافی
تنقید کرتی رہی ہیں۔ چونکہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا اس لئے سیاسی
اتحادوں کا بننا اور ٹوٹنا ایک عام سی بات ہے۔ اے این پی کراچی میں لسانی
سیاست کرتی رہی ہے اور ماضی کے کئی ادوار میں لسانی چپقلش کی بدولت اے این
پی نے بار بار مقبو لیت حاصل کی ہے۔ لیکن اس بار اے این پی کی سیاست میں
متنازعہ تنظیم کا کردار بڑا ہم نظر آرہا ہے۔ نقیب کیس کو لیکر اٹھنے والی
تحریک کی سرپرستی کی وجہ سے اے این پی اس وقت دو دھڑوں میں واضح منقسم نظر
آتی ہے۔بعض مرکزی رہنماؤں کی جانب سے متنازع تنظیم کی مکمل حمایت اور
صوبائی رہنماؤں کی جانب سے لاتعلقی کے اعلان نے اے این پی کارکنان میں بے
یقینی پیدا کی ہوئی ہے۔ اسی طرح اے این پی کی طلبا تنظیم بھی اپنی صوبائی
قیادت کے بعض فیصلوں میں تحفظات پر اضطراب کا شکار ہیں۔شہباز شریف اس وقت
ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور صوبائی بے جان سیاسی
ڈھانچے میں روح پھونکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نواز لیگ کے مرکزی رہنماؤں کے
ساتھ غیر رسمی گفتگو میں راقم نے شہباز شریف کے کراچی و پشاور میں نئی
سیاسی بھاگ دوڑ پر تفصیلی گفتگو کی۔ جس میں اعتراف کیا گیا کہ نواز لیگ
بلخصوص کراچی میں فعال کردار ادا نہیں کرسکی ہے۔ کراچی میں عوامی تاثر یہی
ہے کہ جب بھیپاکستان مسلم لیگ ن اقتدار میں آتی ہے کراچی میں امن قائم
کردیتی ہے۔ اس بار بھی پاکستان مسلم لیگ ن نے کراچی میں امن کے قیام کے لئے
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دیا جس کے بدولت آج کراچی میں ایک
بھی نو گو ایریا نہیں ہے۔ لیکن نواز لیگ اپنی کارکردگی کا بھرپور فائدہ
نہیں اٹھا سکی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما کے ساتھ غیر رسمی ملاقات
میں انہوں نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں کراچی کی موجودہ حالات
اور پی پی پی کی جانب سے سندھ کے بنیادی مسائل حل نہ کئے جانے پر سخت افسوس
ہوتا ہے۔ تاہم شہباز شریف پرجوش نظر آتے ہیں کہ وہ اپنے اقدامات سے پاکستان
مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ کراچی سمیت سندھ کی عوام کا اعتمادجلد حاصل کرلیں
گے۔ شہباز شریف نے سندھ میں گروپ بندیوں کے حوالے سے واضح کہا کہ اختلافات
ہر سیاسی جماعت کے کارکنان میں ہوتے ہیں لیکن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جسے حل
نہ کیا جاسکے۔ انہوں نے ناراض رہنماؤں کو منانے اور کراچی میں نواز لیگ کو
متحرک و فعال بنانے کے لئے اپنے عزم کا اظہار کیا کہ آپ جلد ہی دیکھیں گے
کہ پاکستان مسلم لیگ ن کراچی سمیت پورے سندھ میں بھرپور قوت کے ساتھ ابھرے
گی۔ شہباز شریف کے پرجوش لب و لہجے اورصلح جو طبیعت کے سبب کم از کم اس بات
کی توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر نواز لیگ کا بیانیہ مفاہمتی رہا توناراض
رہنماؤں و کارکنان کے علاوہ اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسیمیں بھی تبدیلی
دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ اے این پی اور ایم کیو ایم کے حوالے سے دریافت
کیاکہ”آگ اور پانی کو ملانے کی کوشش تو نہیں ہے“ جس پر انہوں نے مسکرا کر
کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بہتر تعلقات ہونے چاہیں۔ ہم کراچی میں
مستقل و پائدار امن چاہتے ہیں۔ اگر اس کوشش میں حریف جماعتیں اپنے اختلافات
ایک طرف رکھ دیتی ہیں تو اس کا فائدہ پاکستان مسلم لیگ ن سے زیادہ عوام کو
ہوگا۔
میں اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان مسلم لیگ ن میں نواز شریف کی
برطرفی کے بعد جو اداروں کے خلاف سخت بیانیہ اختیار کیا گیا تھا اس کی وجہ
سے وقتی فائدہ تو ضرور ہوا ۔ چونکہ پاکستان مسلم لیگ ن ایک حادثاتی جماعت
کے طور پر وجود میں آئی تھی اس لئے نواز لیگ کارکنان کو نظریاتی بنانے میں
سہل پسندی کا شکار ہوئے۔ جس کے نتائج نواز لیگ میں اختلافات کی صورت میں
سامنے آتے رہتے ہیں۔ نواز شریف کے مقابلے میں شہباز شریف کا نیا بیانیہ
اداروں کے ساتھ ٹکراؤ نہ کئے جانے پر محیط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ مخالف
ایک ریلی نکالنے پر شہباز شریف نے اپنے تین عہدے داروں کو معطل اور خواجہ
آصف کی نا اہلی پر عدالتی فیصلے کو تسلیم کرکے پارٹی رہنماؤں کو واضح پیغام
دے دیا تھا کہ انہیں اب عدلیہ مخالف پالیسی میں اپنے بیانات و اقدامات میں
احتیاط کا دامن تھامنا ہوگا۔ شہباز شریف بخوبی جانتے ہیں کہ سندھ میں انہیں
سیاسی حالات اپنے موافق کرنے میں کافی محنت کرنا ہوگی۔ لیکن وہ اس بات پر
قائم ہیں کہ عوام انہیں ضرور کامیاب کرے گی۔ گو کہ سندھ کے سیاسی میدان میں
پی پی پی کا پلڑا بھاری ہے۔ لیکن پی پی پی کسی مشترکہ پلیٹ فارم بننے کی
صورت میں مضبوط اپوزیشنکا سامنا بھی کرسکتی ہے۔آصف علی زرداری کی مفاہمتی
جادو گری کے بدولت پرانے حلیفوں کو کسی بھی وقت بھی دوبارہ راضی کرلینا ان
کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ آصف علی زرداری کی سیاسی چالوں کو سمجھنے اور
سیاسی شطرنج میں کب کون سی چال چلنی ہے، یہ تو خود پی پی پی کے سینئر
رہنماؤں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے نگراں وزیر
اعظم کے لئے اپوزیشن لیڈر کی جانب سے دیئے جانے والے ناموں پر اتفاق سے
ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح تحریک انصاف کا ایک نکاتی ایجنڈا پاکستان مسلم لیگ
ن کو اقتدار نہ دینا ہے اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کو بھی واحد مقصد عمران
خان کو وزیر اعظم کی شیروانی پہننے سے روکنا ہے۔ دونوں حریف سیاسی جماعتوں
کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کا فائدہ پی پی پی سے بہتر کون اٹھا سکتا ہے
اور جب پی پی پی کی تمام سیاسی بھاگ دوڑ آصف علی زرداری کررہے ہوں تو اپنے
سخت حریف ق لیگ کو حلیف بنانے جیسی جادو گری کا مظاہرہ ماضی میں کرچکے ہیں۔
دیکھنا تو صرف یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کا اونٹ
کس کروٹ بیٹھے گا۔ کیونکہ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا۔ |