یمن میں شادی کی تقریب پر فضائی حملہ ۰۰۰ ظالم چاہے کوئی بھی ہو!

عالمِ اسلام کی ترقی اور خوشحالی کیا کبھی ہوپائے گی یا ان ممالک کے عوام اسی طرح ڈروخوف کے سایہ میں زندگی گزارتے رہینگے۔ تیل کی دولت سے مالامال ممالک ان دنوں جس سنگیں صورتحال اور کشیدہ ماحول سے دوچار ہیں شاید اس کے تعلق سے چند سال پہلے ان ممالک کے حکمراں اور عوام سونچے بھی نہ تھے ہونگے کہ ایک دن ان پر ایسا بھی آئے گا کہ موت ان سرپر اس طرح منڈلاتی رہے گی۔ دنیا جس تیزی سے ترقی کرتی جارہی ہے عالم اسلام کے ممالک اتنی ہی تیزی سے دہشت گردی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ہر روز اسلامی دنیا کو دشمنانِ اسلام کسی نہ کسی سازش کا شکار بناتے ہوئے کروڑہا ڈالرس لوٹ لے رہے ہیں یا کروڑہا ڈالرس کی املاک کوتباہ و برباد کردیا جارہا ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران لاکھوں مسلمانوں کا جس طرح قتل عام ہوچکا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ عراق، افغانستان کی تباہی و بربادی کے بعد بہارعرب کے نام سے جس طرح عالمِ اسلام کو پھر ایک مرتبہ نشانہ بنایا گیا اور اسلامی ممالک میں شدت پسند تنظیموں نے جس تیزی سے آگے قدم بڑھایا اور پھر آہستہ آہستہ ان کی قوت میں کمی بتائی جارہی ہے یہ سب کون کررہے ہیں اور اس کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہے اس سلسلہ میں عام پڑھا لکھا شخص بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ دشمنانِ اسلام اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر اسلامی ممالک کو جنگ زدہ بنائے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اس سے انکی معیشت کا دروازہ تادیر کھلا رہے۔ ان دنوں سعودی عرب اور اسکے اتحادی ممالک یمن میں حوثی باغیوں کی بغاوت کو کچلنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود سعودی عرب اور اتحادی ممالک حوثی باغیوں پر فتح حاصل نہ کرسکے۔ جبکہ حوثی باغیوں کے حوصلے بلنددکھائی دے رہے ہیں انہیں کس طرح فوجی سازو سامان اور امداد مل رہی ہے یہ توذرائع ابلاغ کے ذریعہ واضح ہے۔ گذشتہ دنوں سعودی عرب کی اتحادی فورس نے شمالی یمن میں ایک شادی کی تقریب پر فضائی کارروائی کی جس کے نتیجے میں دلہن سمیت کم از کم 20افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شعبہ صحت سے منسلک اہلکاروں کے مطابق ایک ہفتہ میں یمن کی شہری آبادی کو ہدف بنانے کا یہ تیسرا واقعہ بتایا جارہاہے۔ اس کارروائی میں ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں ۔ بتایا جارہا ہے کہ 45دیگر زخمیوں میں دولہا اور 30بچے شامل ہیں ۔ جن میں چند کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔ خبروں کے مطابق انسانی جسموں کے اعضاء بکھرے پڑے ہیں ان ہی اعضاء کے قریب سبز قمیض میں ملبوس ایک لڑکا مرنے والے ایک شخص کی لاش سے لپٹ کر روہا ہے جو اس یتیم ہونے والے بچے کا باپ تھا۔ ایسے ہی کئی فضائی حملے عالمِ اسلام کے ان ممالک میں ہوچکے ہیں جن میں بعض جگہوں پر معصوم بچے شہید ہوگئے یا پھر جنکے والدین شہید ہونے سے یہ بچے یتیم ہوچکے ہیں ۔کسی بھی ملک کی فوج یا سیکیوریٹی ایجنسیوں کو یا پھر شدت پسند تنظیموں کوچاہیے کہ وہ عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے بجائے اصل دشمن کو اپنا ہدف بنائے۔ سعودی عرب کی اتحادی فورس نے اس سے قبل بھی شادی بیاہ اور تجہیز و تکفین و آخری رسومات کی ادائیگی کے موقع پر فضائی کارروائی کرعام شہریوں کو ہلاک و زخمی کیا ہے جہاں خوشی کی محفل غم کدہ میں مل گئی اور جہاں غم و رنج میں ڈوبے ہوئے تھے اس موقع پربھی فضائی کارروائی کرکے جنازے میں شریک ہونے والے عام شہریوں کو نشانہ بناکر ہلاک و زخمی کیا گیا۔ شام کی بشارالاسد کی فوج نے بھی اسکولوں اور ہاسپتلوں کو نشانہ بناکر مظلوم و عام شہریوں کو نشانہ بنایا ۔ اس طرح سعودی عرب ہو کہ شام یا کوئی اور ملک کی فوج ، عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے بجائے اپنے اصل مدّمقابل سے نبرد آزما ہونا چاہیے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یمن پر حملہ کرنے والی سعودی قیادت ہو یا شام میں اپوزیشن کے خلاف فضائی کارروائی کرنے والی بشارالاسد کی فوج یا پھر وہ نام نہاد جہادی تنظیمیں یعنی دہشت گردجوافغانستان، شام ، عراق ، لیبیاء وغیرہ میں اسلام کے نام پر اپنے ہی بھائیوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ان اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور شدت پسند تنظیموں کو چاہیے کہ وہ جس طرح ایک دوسرے پر حملے کرکے تباہی و بربادی مچائے ہوئے ہیں اس کے پیچھے عالمی طاقتوں کی جانب سے جو سازش رچائی گئی اسے سمجھیں۔عالمِ اسلام اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر سے بہتر تعلقات قائم کریں۔ اسلامی تعلیمات سے دوری یا پھر غرور و تکبرکا نتیجہ ہے کہ آج عالم اسلام اتنی بڑی تباہی و بربادی سے دور چار ہے ۔ اتنی تباہی ہونے کے بعد بھی حکمراں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے کسی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔اور دشمنانِ اسلام نہیں چاہتے کہ اسلامی قیادت مضبوطی کے ساتھ عالمی سطح پر ابھرے ۔ سعودی عرب کی قیادت عالمِ اسلام کے لئے مضبوط قیادت سمجھی جارہی تھی لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اپنے ویژن2030کے تحت تیل پر انحصار کرنے کے بجائے سعودی عرب کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے مملکتِ سعودی عرب میں جس طرح اسلامی ماحول کی جگہ آزادانہ ماحول فراہم کررہے ہیں اس سے ان کی شبیہہ خراب ہوتی جارہی ہے اور جو لوگ سعودی قیادت کو اسلامی قیادت تصور کررہے تھے اب ان کے دل و دماغ میں سعودی قیادت کے تعلق سے بھروسا اٹھ چکا ہیکہ وہ اسلامی قیادت کرپائینگے۔

حوثی باغیوں کی کارروائیاں
یمن میں حوثی باغیوں کے حوصلے دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں وہ جس طرح کی کارروائیاں کررہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انکے پیچھے واقعی ایران کی طاقت موجود ہے ۔ان دنوں حوثی باغی یمن میں تیل کے جہازوں کو بھی یرغمال بنارہے ہیں ۔یمن میں متعین سعودی سفیر محمد آل جابر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حوثی باغیوں نے تیل بردار 19 جہازوں کو روک رکھا ہے اور وہ انھیں الحدیدہ کی بندر گاہ میں داخل نہیں ہونے دے رہے ہیں۔آل جابر کی ایک ٹویٹ کے مطابق ایران کے حمایت یافتہ حوثی شیعہ باغیوں نے تیل بردار 19 جہازوں کو اپنے زیر قبضہ علاقے رمی المخطاف میں روک رکھا ہے اور وہ انھیں الحدیدہ کی بندر گاہ میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔ان کی اس حرکت پر یمن کے جامع انسانی امدادی مرکز نے بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔واضح رہے کہ حوثی جنگجوؤں نے 3؍ اپریل کو الحدیدہ کی بندرگاہ کے مغرب میں بحیرہ احمر کے بین الاقوامی پانیوں میں سعودی عرب کے ایک آئیل ٹینکر پر حملہ کیا تھا۔سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحادی فوج کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے اس وقت ایک بیان میں بتایا تھا کہ اتحاد کے ایک جنگی بحری جہاز نے فوری طور پر مداخلت کرکے حوثی جنگجوؤں کے حملے کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔یمن کے مغرب میں بحیرہ احمر پر واقع الحدیدہ کی بندرگاہ پر حوثی شیعہ باغیوں کا کنٹرول ہے۔بیرون ملک سے یمن میں انسانی امداد لے کر آنے والے بحری جہاز اور تیل بردار ٹینکر اسی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے ہیں۔اب دیکھنا ہے کہ حوثی باغی ان 19تیل بردار جہازوں کو چھوڑدیتے ہیں یا پھر کوئی اور کارروائی کرتے ہیں۔

کیا ایران جوہری طاقت نہیں بن سکتا ۰۰۰
کیا ایران اور امریکہ کے درمیان دشمنی ہے یا پھر امریکہ اپنے ہتھیار عرب ممالک کو بیچ کر کروڑہا ڈالرس جمع کرنے کے لئے یہ سب ڈھونگ رچایا ہوا ہے۔ اگر واقعی ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات خراب ہوتے تو امریکہ کسی بھی طرح عراق، افغانستان کی طرح ایران کا بھی وہی حشر کرتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے عالمی طاقتیں ایران کی طاقت و قوت سامنے رکھ کر اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو ڈرو خوف کے سایے میں اپنے ہتھیار کی ترسیل چاہتے ہیں۔ سعودی عرب جس طرح کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار خرید رہا ہے اس کے باوجود اسے یمن میں کوئی ایسی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جیسا کہ ایران حوثی باغیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے انہیں جنگی سازو سامان اور ہتھیار فراہم کررہا ہے۔حوثی باغی جس طرح سعودی عرب کے بعض شہروں پر میزائل حملے کرکے اپنی طاقت بتانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں اسے سعودی عرب کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ حوثی باغیوں کی قوت میں آئے دن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جبکہ سعودی عرب امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک سے ہتھیارخریدنے کے باوجود حوثی باغیوں کی بغاوت کو ابھی تک کچل نہیں پایا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہیکہ ایران اور امریکہ کے درمیان کیا واقعی کشیدگی ہے یا پھر امریکہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہوئے اسلامی ممالک کو طویل عرصہ کیلئے دہشت گردی کے سایہ میں جھونک کر اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ شام کے حالات پر جس طرح روس اور امریکہ ایک دوسرے کے مدّمقابل خطرناک مخالفت پر اتر آئے تھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی دکھاوا تھا اور اس کے پیچھے بھی ان دونوں ممالک کی جانب سے اپنی اپنی طاقت بتاکر ہتھیاروں کی نیلامی ہوسکتی ہے۔ امریکہ نے اپنی طاقت بتانے کے لئے آخر کار14؍ اپریل کو شام پر فضائی کارروائی کرتے ہوئے روس کی وارننگ کو نظرانداز کردیا اس کے باوجود روس امریکہ کے خلاف کسی قسم کی جوابی کارروائی نہیں کی۔ امریکہ ایران کو دھمکیوں پر دھمکیاں دیتا آرہا ہے اس کے باوجود ایران امریکہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شام میں بشارالاسد، یمن میں حوثی باغیوں اور عراق میں عراقی حکومت کو کسی نہ کسی طرح فوجی تعاون فراہم کررہا ہے۔ گذشتہ دنوں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہاکہ اگر امریکہ تاریخی جوہری معاہدے کو ختم کرتا ہے تو ایران یورینیئم کی افزودگی دوبارہ شروع کر دے گا۔22؍ اپریل کو نیویارک میں صحافت سے بات چیت کرتے ہوئے ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ اگر امریکہ 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے کو ختم کرتا ہے تو ایران بھر پور طریقے سے افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کرنے کیلئے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کو کبھی بھی یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایران جوہری بم بنا رہا ہے انکا کہنا تھا کہ ایران کوئی جوہری بم نہیں بنا رہا۔اب مسئلہ امریکہ کا کہ اس نے ایران پر الزام عائد کررہا ہے کہ ایران جوہری طاقت کی جانب بڑھ رہا ہے اس سے قبل امریکہ نے مرحوم صدر عراق صدام حسین کی حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کے ہونے کا الزام عائد کرکے خطرناک فضائی حملے کئے اورصدام حسین کو سزائے موت دے دی گئی۔چند سال بعد یہ تمام الزامات جھوٹے بتائے گئے اس کے بعد ان ظالم امریکی وبرطانوی حکمرانوں اور عہدیداروں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ عالمی سطح پر انکے خلاف آواز اٹھائی گئی۔

لیبیاء میں شدت پسندوں کے درمیان لڑائی ۰۰۰
لیبیا میں حالات سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے ہیں حکومت اورشدت پسندوں کی جانب سے عام شہریوں اور انکی املاک کو نشانہ بنائے جانے سے جانی نقصان کے ساتھ ساتھ معیشت بھی بُری طرح متاثر ہورہی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دنوں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں دو مسلح گروپوں کے درمیان تصادم کے دوران طرابلس کے ہوائی اڈے پر گولہ باری سے کم از کم 14 سول ہوائی جہاز تباہ ہوگیا۔ متاثرہ طیاروں کی قیمت 2 ارب ڈالر بتائی جارہی ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق مسلح عناصر کی طرف سے طرابلس کے معتیقہ بین الاقوامی ہوائی اڈے پر گولے اور راکٹ داغے گئے، جس کے نتیجے میں وہاں پر کھڑے ایک درجن سے زائدہوائی جہازوں میں آگ بھڑک اٹھی۔لیبیا کی سرکاری فضائی کمپنی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کمپنی کو معتیقہ ہوائی اڈے پر کھڑے طیاروں کے تباہ ہونے سے غیرمعمولی نقصان پہنچا ہے۔ اس حملے میں بعض طیارے مکمل طورپر تباہ بتائے جارہے ہیں جبکہ بعض کو نقصان پہنچا ہے۔کمپنی کا کہنا ہے کہ ہوائی اڈے کو دو مسلح گروپوں کے درمیان لڑائی کے دوران نشانہ بنایا گیا۔ لڑائی میں 3 ایئر بس A320 مکمل تباہ ہوگئے۔ ان کی مالیت 97 ملین ڈالر بتائی گئی جبکہ 95 ملین ڈالرکا A318 اور 90 ملین ڈالر مالیت کا A319 ماڈل کے دو طیارے تباہ ہوگئے۔A321 ایئربس کے دو طیارے جن کی مالیت 11 کروڑ ڈالر سے زائد ہے تباہ ہوگئے۔ نیز ایئر بس 300؍200 کی مالیت 333 ملین ڈالر، ایئر بس 300؍800 کی مالیت20 کروڑ 54 لاکھ، ایئر بس 300؍330 کی مالیت 20 کروڑ 59 لاکھ اور ایئر بس 900؍300 کی مالیت 20 کروڑ 90 لاکھ ڈالربتائی گئی یہ بھی تباہ ہوگئے۔اس سے قبل یعنی گذشتہ ہفتے دو مسلح گروپوں کے درمیان تصادم کے دوران البراق ایئرلائن کے بوئنگ کمپنی کے دو ہوائی جہاز گولہ باری سے متاثر ہوئے تھے۔خیال رہے کہ طرابلس گذشتہ کئی ماہ سے کشیدگی کی لپیٹ میں ہے جہاں ایک طرف حکومت اور شدت پسند آپس میں نبرد آزما ہیں وہیں بعض انتہا پسند تنظیمیں ایک دوسرے کے خلاف بھی لڑ رہی ہیں۔ طرابلس کا معتیقہ ایئر پورٹ وزارت داخلہ کے زیرانتظام ’اسپیشل ڈیفنس فورس‘ کے زیرکنٹرول ہے جب کہ شہر میں سرگرم تاجوراء نامی ایک گروپ بھی ہوائی اڈے پر حملے کرتا رہتا ہے۔شدت پسند تنظیموں اور حکومت کے درمیان انتقامی کارروائیوں سے عام شہریوں کی زندگی کو ہمیشہ خطرہ لگارہتا ہے ۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209613 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.