بتایا جارہا ہے کہ 25 سال کے بعد سیاسی لیڈرکا شمالی
وزیرستان کا یہ پہلا دورہ ہے جو بین ا لاقوامی لیڈر کی حیثیت سے قائد جمعیت
علماء اسلام مولانا فضل الرحمن نے کیا آج کل سنگین حالات میں دورے کی اجازت
ملنا اور جلسہ کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں اگر اعزاز کی بات کی جائے تو
سیاسی لیڈر کے طور پر یہ قائد جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن کو حاصل
ہے چونکہ اس سے پہلے کسی بھی سیاسی لیڈر اس علاقے کا دورہ نہیں کیا چند ماہ
قبل خبر گردش کررہی تھی کہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر وسینیٹر سراج الحق
شمالی وزیرستان کا دورہ کر یں گے اور شمولیتی جلسہ سے خطاب بھی کریں گے
تاہم عین وقت پر انہو ں نے دورہ منسوخ کیا اور موقف اختیار کیا کہ پولیٹیکل
انتظامیہ کی طرف سے جلسے کی اجازت نہ ملنے پر انہوں نے اپنا دورہ منسوخ
کردیا ہے اور تقریباًتین ماہ مکمل ہونے کے بعد بھی جماعت اسلامی کے مرکزی
امیر و سینیٹر سراج الحق نے تاحال دورہ نہیں کیا اور اب گذشتہ روز ایم ایم
اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بنوں سے قافلے کی شکل میں شمالی وزیرستان
پہنچے انہوں نے نہ صرف شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کا دورہ کیابلکہ
وہاں پر نظامیہ عیدک مدارسے میں علماء کرام اور طلباء سے خطاب بھی کیا اور
درجنوں حفاظ کی دستاربندی کی ان کے ہمراہ وفاقی وزیربرائے ہاؤسنگ اینڈورکس
اکرم خان درانی،صوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالجیل جان اور دیگر بھی تھے جہاں
پر انہوں نے جلسہ کیا اس علاقے کو کسی زمانے میں جمعیت علماء اسلام کے
شمالی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر کی حیثیت سے حاصل تھی اس موقع پر انہوں نے
دستار بندی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قبائل نے ہمیشہ امن کے قیام کے
لئے جدوجہد کی ہے لیکن اس کے باوجود قبائل کو خون میں نہلایا گیا محب وطن
قبائیلیوں کو وطن سے محبت کی سزا دی گئی 18سال بعد پابندی ہٹائی گئی ہے
قبائل کو ہمیشہ اسلام اور پاکستان سے محبت کی سزا دی گئی قتل وغارت گری اور
خون کی ندیاں بہاکر قبائلی عوام کو در بدر کیا گیا اور ان کو اپنا گھر بار
چھوڑنے پر مجبور کیا گیا آج شمالی وزیرستان کے عوام نے جس عقیدت ومحبت کا
اظہار کیا ہے اس سے ثابت ہوا کہ قبائل جبر اور ظلم تو برداشت کرسکتے ہیں
لیکن اسلام اور جمعیت علماء اسلام سے ان کی عقیدت کو ختم نہیں کیا جاسکتا
ہے انہوں نے کہا کہ آج میں تمام قوتوں کو امن کا پیغام دیتا ہوں آج کے بعد
ظلم وجبر کی تاریک راتیں ختم ہوچکی ہیں اور امن کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور
اپنے آنے والی نسلوں کا خیال کرتے ہوئے خونریزی کا سلسلہ بند کیا جائے
انہوں نے کہا کہ قبائلی عوام پر اسلام آباد سے فیصلے مسلط کرنے کے بجائے
عوامی رائے کا احترام کیا جائے،قارئین کرام اگر ہم اس دورے پر روشنی ڈالیں
تو مستقبل میں مولانا فضل الرحمن کو کیا فوائد ملیں گے شمالی وزیرستان پہلے
سے جمعیت علماء اسلام کا گڑھ سمجھاجاتا ہے اس وقت اس کے برعکس دیگر پارٹیوں
کے کارکنا ن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی ہر طرف سے جمعیت کی نعرے
لگارہے تھے 2002 سے شمالی وزیرستا ن کے حالات خراب ہونا شروع ہوئے جس کی
وجہ سے پورا ملک متاثرہوا اور خودکش دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع
ہوا اس دوران شمالی وزیرستان پر چند افراد نے قبضہ جمالیا تھا اور شمالی
وزیرستان کو دنیا میں دہشت گردوں کے ٹھکانے کے طور پر پیش کیا گیا چونکہ اس
وقت خیبر پختونخوا میں ایم ایم اے اوروفاق میں جنرل ریٹائرڈ مشرف کی حکومت
تھیں ملک میں ایسا حالات پیداہوئے تھے کہ لوگ ڈر کی وجہ سے گھروں میں محصور
ہوکر رہ گئے تھے ملک میں امن کی فضا بحال کرنے کیلئے پاک فوج کے ساتھ عام
شہریوں نے بھی قربانیاں پیش کی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ شمالی وزیرستان میں
پاک فوج نے ضرب عضب آپریشن کا آغاز کیا جو تین سال تک جاری رہا اب دوبارہ
سے شمالی وزیرستان میں امن بحال ہورہاہے اور بلاخوف لوگ چلتے پھرتے د کھائی
دیتے ہیں وہ بھی ایک دور تھا کہ پورے شمالی وزیرستان میں جے یو آئی کا طوطا
بولتا تھا لیکن ضرب عضب آپریشن کے دوران جے یو آئی کی سستی کی وجہ سے لوگ
جے یو آئی سے دور ہوئے اور شمالی وزیرستان میں دیگر پارٹیوں نے بھی سانس
لینا شروع کیا ان میں پی ٹی آئی خصوصی طور پر شامل ہے جمعیت علماء اسلام کی
پہلی انٹری اور جلسے کے انعقاد کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جمعیت علماء
اسلام نے کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کیلئے سوچنا شروع کردیا ہے اور
عوام کے دلوں میں گھرکرنے کیلئے تگ ودو شروع کی ہے جمعیت علماء اسلام کو اس
سلسلے میں محنت کرنی ہوگی اور لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے ماضی کی
غفلت اور سستیوں کا ازالہ کرنا ہوگا۔ |