گزشتہ روز پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن کے وزیر خزانہ مفتاع
اسماعیل نے اپنی حکومت کی طرف سے آخری بجٹ2018-19پیش کیا ۔جس کا حجم
59کھرب32ارب50کروڑ روپے مختص کیا گیا۔جس میں ترقیاتی بجٹ 20کھرب143ارب جبکہ
پی ایس ڈی پی کے لئے 800ارب روپے مختص کئے گئے۔وزیر خزانہ نے اپنی حکومت کی
طرف سے ترقیاتی کارکردگی پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دنیا کی 24ویں بڑی
معیشت بن چکا ہے۔بتایا گیا کہ مجموعی ترقی کی شرح 5.4فیصد ہے۔مارچ تک کے
سروے کے مطابق افراط زر3.8فیصد رہا، جبکہ شرح نمو 13سال کی سب سے زیادہ سطح
پر پہنچ کر5.79فیصد ہوگئی۔اسی طرح حکومت کے مطابق ٹیکس وصولیوں میں پانچ
سال کے دور حکومت میں 2ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔گزشتہ پانچ سال میں33ہزار
285کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔وغیرہ وغیرہ۔موجودہ حکومت سے معصومانہ سوال ہے کہ
اتنا سب کچھ بہتر ہونے کے باوجود عام عوام کیوں ناخوش ہے؟کیوں غریب !غریب
تر ہوتا جا رہا ہے؟آج بھی لاکھوں لوگ بے روزگار کیوں ہیں؟کیا 2ہزار ارب کے
ٹیکس سے کوئی بھی منصوبہ بندی نہیں کی گئی کہ بے روزگاری کم ہو؟کیا ہزاروں
نئی رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں میں بے روزگار لوگوں کے لئے کوئی نوکری
نہیں؟کیاان پانچ سالوں میں ملک میں حالات سے مجبور بے روزگار لوگوں کے لئے
بھی کوئی ادارہ بنا یا گیا، کوئی منصوبہ بندی کی گئی؟نہ جانے ترقی کہاں
ہورہی ہے۔شاید اشرافیہ کی نظر میں ہو رہی ہو۔کیوں کہ انہیں تو گاڑیوں کے
ٹیکس میں چھوٹ مل رہی ہے۔ان کے لئے معیاری سڑکیں بن رہی ہیں۔غریب کے لئے تو
روزگار کا حصول ہی افضل ہے۔
مانتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے بہت اچھا بجٹ پیش کیا۔سرکاری ملازمین کی
تنخواہیں بڑھا دیں پنشرز کی پنشنز میں اضافہ ہوگیا۔کھاد بنانے والی کمپنیوں
کے لئے ٹیکس میں چھوٹ ہو گئی۔زرعی مشینری پر عائد ٹیکس کم ہوگیا۔الیکٹرک
گاڑیوں پر عائد ٹیکس ختم کر دیا۔دودھ مکھن پنیر مچھلی مرغی کی خوراک سستی
کر نے کا اعلان کردیا۔ایل این جی لنڈے کے کپڑے جوتے اور میٹرس وغیرہ بھی
سستے کرنے کا اعلان کردیا۔کینسر کی ادویات،ایل ای ڈیز اور قرآن پاک کی
طباعت والے کاغذ پر بھی عائد ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان۔ہائبرڈ گاڑیوں پر
ڈیوٹی کم کر کے 50سے25فیصد کردیا۔وغیرہ وغیرہ۔بہت ہی اچھا اقدام ہے، اور
پاکستان کی ترقی کے لئے ایسے اقدامات ضروری ہیں۔مگر معصومانہ سوال پھر وہی
ہے کہ ،بے روزگاروں کے لئے کیا !کیا گیا؟پاکستان 21کروڑ کی آبادی پر مشتمل
ہے۔جس میں سے اکثریت غربت کی زندگی بسر کرہی ہے۔بہت سے لوگوں کو تو ہائبرڈ
اور الیکٹرک گاڑیوں کا کچھ علم نہیں کہ یہ کیا ہیں۔بہت سے تو گاڑی خرید ہی
نہیں سکتے۔دنیا بھر میں ملک کی اکثریت عوام کاپیشہ سرکاری ملازمت ہوتاہے
۔مگر ہمارے ہاں اکثریت عوام پرائیویٹ سطح پر کام کرتی ہے۔سب سے بڑی معیشت
زراعت کا حال دیکھ لیجئے چھوٹے کسان ذلت امیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں
قرضوں کا بوجھ ہے کہ ان کے سروں پر منڈھلاتا رہتا ہے۔ اب ایسے میں ،کیا
بھوکے ننگھے کسان زرعی مشینری امپورٹ کریں گے۔آپ کے دور حکومت میں صرف
کسانوں کو ایک ہی فائدہ ملا جو عام عوام تک بھی پہنچا وہ تھا کھاد پر براہ
راست سبسڈی مگر اب کھاد پر 10ارب کی سبسڈی کو ختم کر کے اس کے لئے صرف ایک
ارب ہی مختص کرنا سراسر زیادتی ہے۔سرکارنے کینسر کی دوا تو سستی کردی مگر
کینسر ہسپتال بنانا شاید ضروری نہیں سمجھا۔اکیس کروڑ عوام میں اتنے زیادہ
ہسپتالوں کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی شاید!
چلیں ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں سے سب سے بہتر بجٹ
پیش کیا گیا۔یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اس میں غرباء اور ملازمین کے لئے بڑی
رعائتی جھلک نظر آ رہی ہے۔مگر معصومانہ سوال ہے کہ ایسا بجٹ گزشتہ پانچ
سالوں میں کیوں پیش نہیں کیا گیا؟اب جب کہ حکومت کی مدت میں دو ماہ سے بھی
کم عرصہ رہ گیا ہے اتنا عوام دوست بجٹ کتنا معنی خیز ہوگا؟ دو ماہ کی مہمان
حکومت کا پورے سال کا بجٹ پیش کرنا اور پھر اپنے دور حکومت کا سب سے اچھا
بجٹ !آخر یہ معاملہ کچھ اور ہی لگتا ہے۔کہیں حکومت ایک تیر سے دو شکار
کھیلنے کی کوشش میں تو نہیں؟یعنی بجٹ سے عوام خوش اور الیکشن کمپین بھی
باخوبی۔یا پھر پیپلز پارٹی کی طرح بجٹ تو نام کا ہے اصل میں مختص رقم تو
الیکشن لڑنے اور اپنے زیر التوا پراجیکٹس کی تکمیل کے لئے ہے۔تاریخ گواہ ہے
پاکستان میں ہر منتخب حکومت نے سرکاری خزانہ استعمال کر کے ووٹ خریدنے کی
ہی سیاست کی ہے ،چاہے کسی آمر کی حکومت ہو یا منتخب جماعت کی۔
موجودہ حکومت سے بہت سے سوالات ہیں۔آج حکومت زراعت کا نام استعمال کرکے ووٹ
حاصل کرنا چاہتی ہے۔تعلیم اور صحت کا نام استعمال کرنا چاہتی ہے۔سی پیک کا
نام تو پہلے ہی استعمال ہورہا ہے۔مگر افسوس کہ حکومت نے اپنی کسی رپورٹ میں
تعلیم کی بہتری کے لئے بنائے جانے والے اسکول کالجز اور یونیورسٹیز کی
تعداد نہیں بتائی۔صحت کے حصول کے لئے بنائے گئے ہسپتالوں کے بارے میں کچھ
نہیں بتایا۔آخر ایسا کچھ کیا ہوگا تو رپورٹ مرتب کریں گے۔ دنیا بھر
میں،لاہور شہر سے چھوٹے ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں متعدد کالجز
یونیورسٹیاں اور ہسپتال موجود ہیں۔مگر ہمارے سب سے زیادہ ڈیولپ صوبہ پنجاب
کا یہ عالم ہے کہ پورے صوبے کے شہروں سے عوام آج بھی لاہور کے واحد ہسپتال
میں ہی علاج کے حصول کے لئے آتی ہے۔ایسا ہی عالم تعلیم کا ہے لوگ پورے
پنجاب سے لاہور ہی یونیورسٹیز کے لئے آتے ہیں۔اب جبکہ حکومت دو ماہ کی
مہمان ہے۔ایسے میں صحت کے لئے مختص 37ارب اور ایچ ای سی کے لئے مختص47ارب
روپے سے کیا ہوجائے گا۔اکیس کروڑ آبادی کے بڑے ملک جہاں اکثریت نوجوان ہوں
اور ان کی بھی اکثریت بے روزگار ہو۔ وہاں یوتھ کے لئے 10ارب بہت زیادہ نہیں
وہ بھی دو ماہ کی حکومت کی طرف سے۔معصومانہ سوال ہے میٹرو بس، سڑکیں اور
اورنج لائن ٹرین تعلیم وصحت کے متبادل ہو سکتی ہیں۔؟افسوس کہ حکومت زراعت
،صحت اور تعلیم جیسے بہت سے سیکٹرز کا بجٹ استعمال کر کے بھی ایک توانائی
کے مسئلے کو حل نہیں کر سکی۔جتنا بجٹ موجودہ حکومت کے دور میں تعمیرات پر
خرچ ہوا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سی پیک پر چائنہ نہیں بلکہ صرف پاکستان ہی
خرچ کر رہا ہو۔باقی رہی بات زراعت کی تو گندم کی فروخت کے لئے باردانہ حاصل
کرنے والے کسانوں کو ہی مل لیجئے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے
گا۔حقیقت میں حکومت کی طرف سے پیش کیا جانے والا ترقیاتی سروے اور بجٹ صرف
اور صرف عوام کو دیا جانے والا ایک بہلاوہ ہے۔باقی پاکستان کے سارے ادارے
آپ کے سامنے ہیں ۔گزشتہ سالوں کی کارکردگی کا اندازہ لگاتے ہوئے موجودہ
حکومت کو پرکھ لیجئے۔بجٹ کے بہلاوے میں نہ آئیے گا ۔کیوں کہ دو ماہ کی
حکومت کا،سال کے بجٹ کا کوئی جواز نہیں بنتا، اور نہ ہی یہ حکومت اس بجٹ کے
ثمرات عوام تک پہنچا سکتی ہے۔ذرا سوچئے! |