2 مئی2011 کو اُسامہ بن لادن کو ابیٹ آباد کے ایک گھر میں
امریکہ کے ہیلی کاپٹر حملے میں مبینہ طور پر ہلاک کر دیا گیا۔اُسامہ جو
عرصے تک ا مریکہ کی سی آئی اے کوَپوری دنیا میں جُل دے کر روپوش رہا اُس نے
امریکہ کے قلب میں جا کر نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں ٹوئن ٹاور پر
فضائی حملہ کر کے اُسے تباہ کیا اور اس کے نتیجے میں ہزاروں امریکی مارے
گئے۔ امریکہ کبھی یہ تعداد تین ہزار کبھی پانچ ہزار بتاتا ہے اور پوری دنیا
سے خصوصاََ اسلامی دنیا سے پچھلے سترہ سال سے اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی
اس نا کامی کا بدلہ لے رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ جابجا فوج کشی کر کے اپنی
بد فطرتی کا مظاہرہ کرتا تھا لیکن اس واقعے کے بعد تو جیسے اس نے قتل و
غارت کا نا قابل روک ٹوک لائسنس حاصل کر لیا اور وہ کھلے عام پوری اسلامی
دنیا میں دندنا رہا ہے۔بد قسمتی سے پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ کی جنگ
میں امریکہ کا بھر پور ساتھ دیا اور اس کی بھر پور سزا بھی کاٹی ۔نہ یہ
پاکستان کے لیے پہلا تجربہ تھا اور نہ امریکہ کا پہلی بار یہ رویہ تھا لیکن
پھر بھی یہ سب کچھ ہوا۔پاکستان اور افغانستان میں ایک ایسی خلیج حائل کردی
گئی کہ سترہ سالوں میں بھی نہیں پاٹی جاسکی اور اب بھی جب بہتری کے کچھ
آثار نظر آنے لگتے ہیں تو دوبارہ امریکہ اشارہ کر دیتا ہے اور افغانستان
ایک بار پھر ہتھے سے اکھڑ جاتا ہے اور اس کے کٹھ پتلی حکمران پاکستان کے
خلاف بیانات دینے لگتے ہیں۔ پاکستان اس صورت حال کا سامنا مسلسل کر رہا ہے
کہ جنگ امریکہ کی ہے اور اثرات پاکستان پر شدت سے پڑ رہے ہیں نہ تو اُسامہ
پاکستانی تھااور نہ پاکستان سے اس کے جہاز اُڑے تھے۔ امریکہ اپنے رویے کے
باوجود کبھی یہ نہیں کہہ سکا کہ یہ حملے پاکستان کی سر زمین سے کیے گئے
لیکن اس کا بدلہ ہر طرح سے پاکستان سے لیا گیا اور لیا جا رہا ہے۔ بہر
حال2مئی 2011کو امریکہ نے دعویٰ کیا کہ اُس نے ایبٹ آباد میں بلند وبالا
دیواروں والے ایک گھر میں کچھ نیوی سیل بھیج کر حملہ کیا اور اُسامہ کو مار
دیا گیا۔جلد ہی سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینٹا اور سیکرٹر ی آف سٹیٹ
ہیلری کلنٹن نے بھی بیان دے دیا کہ اس کام کے لیے اُنہیں ایک پاکستا نی
ڈاکٹر شکیل آفریدی کی مدد حاصل تھی جس نے ایک جعلی پولیو ڈراپس مہم کے
دوران اُسامہ کے خاندان کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے اور جب یہ نمونے مل
گئے تو یہ آپریشن کیا گیا ۔شکیل آفریدی پہلے بھی کچھ نیک نام نہیں تھا لیکن
یہاں تو اس نے انتہا کر دی اور جو اطلاع اُسے اپنے ملک کو دینی چاہیے تھی
وہ اُس نے ایک دوسرے ملک کو دی اور پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا
باعث بنا اور امریکہ کے لیے انتہائی اہم ہو گیا کیونکہ وہ بہت آسانی سے ان
کے ہاتھوں بِکا تھا ۔اس واقعے سے ظاہر ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات پر
انتہائی بُرے اثرات پڑے تھے اور ان میں شدید تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ اب بھی
ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک امریکہ تعلقات کی بحالی کے لیے جو نکات دیے ان میں
سرفہرست شکیل آفریدی کی امریکہ حوالگی تھا۔دوسرے الفاظ میں پاکستان سے
مطالبہ کیا گیا کہ اپنا غدار اُس کے مالکان کے حوالے کیا جائے اور یو ں
اُسے ایک با عزت زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے لہٰذا پاکستان نے
ایسا نہ کیا اور شکیل آفریدی جسے لیون پینٹا اور ہلری کلنٹن کے اعلان اور
اعتراف کے بعد جلد ہی پاکستان نے گرفتار کر لیا تھا اور اس کو تینتیس سال
قید کی سزا سنائی گئی تھی جسے بعد میں تیئس سال کر دیا گیا ۔شکیل آفریدی نے
امریکہ کے لیے جو خدمات انجام دینی تھی وہ تو دیں لیکن پاکستان کے ساتھ
غداری پر وہ اِس سے بھی بڑی سزا کا مستحق تھا اور امریکہ کی طرف سے بہت بڑے
انعام کا لہٰذا امریکہ مسلسل اِس کو شش میں ہے کہ کسی طرف اُسے آزاد کروایا
جا سکے اور اسی لیے اُس نے حالیہ دنوں میں بھی یہ کوشش کی اور روسی اخبار
سپتنک کے مطابق وہ جیل توڑنے کی کوشش کی جہاں شکیل آفریدی قید ہے لیکن
پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اُس کے آڑے آئی اور یہ منصوبہ ناکام بنا
دیا گیا۔اخبار سپتنک کے مطابق آئی ایس آئی کے ایجنٹ نے یہ خبر بہم پہنچائی
جو سی آئی اے کے لیے بھی کام کرتا ہے یعنی یہ بات تو طے ہو گئی کہ سی آئی
اے آئی ایس آئی کو اتنی آسانی سے قابو نہیں کر سکتی اور نہ ہر پاکستانی
شکیل آفریدی ہے جو بِک جا یا کرے لہٰذا یہ ایجنٹ اپنے ہی ملک کے کام آیا
اور شکیل آفریدی کو جیل سے ایک اور محفوظ جگہ منتقل کر دیا گیا۔اخبار ہَذا
نے یہ خبر بھی دی کہ امریکہ نے شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کا تبادلہ
کرنے کی پیشکش بھی کی جسے پاکستان نے رد کر دیا کیونکہ اگر یوں غداروں کے
سودے ہونے لگیں تو کو ئی بھی غداری کرنے میں خوف محسوس نہیں کرے گا ۔ ویسے
بھی عافیہ صدیقی کے جُرم اور شکیل آفریدی کے جُرم کا کوئی موازنہ نہیں اول
تو عافیہ صدیقی کی رہائی بغیر کسی شرط کے ہونی چاہیے اور اگر تبادلہ میں ہی
ہو تو غدار سے نہیں بلکہ اپنی حفاظت کے لیے بندوق اُٹھانے جیسے جُرم کے
مجرم سے ہو یعنی عافیہ کے جُرم جتنا جُرم۔
شکیل آفریدی اِس وقت تک تو محفوظ ہے اور پاکستانی ذرائع کے مطابق اُسے کا
فی بہتر حالت میں رکھا گیا ہے لیکن اُس کی نگرانی پر خصوصی توجہ کی ضرورت
ہے امریکہ اب بھی اسی کو شش میں ہے کہ کسی طرح اُسے رہا کیا جائے اور یہ
بھی ضروری ہے کہ اُس جیسی سرگرمیوں کے حامل دیگر اشخاص پر بھی نظر رکھی
جائے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا کہ اِس بڑی غداری سے پہلے بھی وہ مشکوک
سرگرمیوں میں ملوث رہتا تھا اور اِس کے لشکرِ اسلام کے سربراہ منگل باغ سے
بھی تعلقات رہے ہیں۔ اِس جیسے لوگ قوموں کی بربادی اور بدنامی کا باعث بنتے
ہیں۔اُمید ہے جس طرح اِس بار آئی ایس آئی کامیاب ہوئی ہے اور ایک غدار آزاد
نہ ہو سکا اسی طرح آئندہ بھی اپنی خود مختاری کی حفاظت کی جائے گی اور اول
تو ایسے لوگوں کو پنپنے نہیں دیا جائے گا اور اگر بالفرض خدا نخواستہ کوئی
ایسا بے ایمان، غدارِ وطن اور ننگِ قوم نکل بھی آئے تو اس کے ساتھ آہنی
ہاتھوں سے نمٹا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ حکومت پاکستان
اور افواج پاکستان اس معاملے پر جس طرح اب تک ڈٹے ہوئے ہیں اسی طرح مضبوطی
سے جمے رہ کر اور ملک کی بقا کے ضامن بھی بنے رہیں گے اور اس کے دشمنوں کے
لیے لوہے کے چنے بھی جسے وہ کبھی نہ چبا سکیں۔
|