آج کل یہ جملہ زبان زد عام ہے مجھے کیوں نکالا۔ ایک
انتہانی معصومیت سے پوچھا گیا سوال جس میں حیرانی ، تعجب اور استفسار کی وہ
کیفیت ہے جو دل کو پریشان کرکے رکھ دیتی ہےآپ جو کل تک ہمارےوزیراعظم
تھےاور ۳۰ سال تک اپنی قوم کے لیے دن رات محنت مشقت کرتے رہے، اس کے غم میں
پاگل ہوتےرہےاور اس قوم کے درد میں آپ اپنی اولاد سے بھی اتنا غافل ہوگئے
کہ آپ کو پتہ ہی نہ چلا کہ کس وقت آپ کے کم عمر بچے کھرب پتی ہوگئے ۔
اور اس کم ظرف قوم نےآپ کو یہ صلہ دیا کہ آج آپ کو یہ دن دیکھنا پڑا کہ
پورے مجمع میں پریشان حال بندے بندے سے پوچھ رہے ہیں مجھے کیوں نکالا کیوں
کہ آپ کے پاس قوم کی خدمت کی وجہ سے اپنے اسلاف کی تاریخ کو پڑھنے کا وقت
ہی نہیں تھا ۔ پھر آپ کو حضرت عمر فاروق کے اس واقعے کا کیسے پتہ چلتا جب
بھرے مجمع میں مال غنیمت میں آئی ہوئی چادروں کے بارے میں سوال کیا گیا کہ
سب کے حصے میں ایک ایک چادر آئی تو خلیفہ وقت نے کیسے دو چادروں سے تن
ڈھانپ لیا اور نہ وہ تنگی وقت کی بنا پر وہ جواب جان پائے اور
نہ وضاحت سن سکے جو انہوں نے اپنی رعایا کو دی کہ جسم مبارک بھاری ہونے کے
سبب ان کے بیٹے نے اپنی چادر اپنے باپ کو دے دی ۔ لیکن اس دور میں خلیفہ
وقت وضاحت دے سکتے تھے لیکن آج تو زمانہ ترقی کرگیا ہے ۔ قوم کون ہوتی ہے
سوال کرنے والی؟
ہمارے جدامجد بابا آدم کو جب اللہ تعالٰی نے ایک غلطی پر نکالا تو وہ اللہ
کے حضور میں روئے گڑگڑائے اپنے گناہ کی معافی مانگی ۴۰ سال دن رات روئے ،
توبہ زاری کی ۔ لیکن یہ نہ پوچھا کہ مجھے جنت سے کیوں نکالا ۔ کیوں کہ وہ
دربار اللہ کا تھا ۔ بندہ عام انسان نہیں اللہ کا پیغمبر تھا ۔غلطی کوئی
بہت بڑی نہیں بلکہ معمولی سی تھی۔ لیکن یہ عدالت تو دنیا کی ہے ، نکلنے
والا بشر ہےیہاں ایک نہیں اغلاط کا پلندہ ہے ۔ لہذا یہ سوال تو بنتا ہے۔
بھلا عوام روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے لڑ رہے ہیں پانی کے ایک ایک گھونٹ
کے لیے ترس رہے ہیں اس میں آپ کا کیا قصور ؟
عوام کے خون پسنے کی کمائی سے آپ نے اگر اپنی سات نسلوں کے لیے جائداد
اکھٹی کرلی تو آپ نے کوئی بہت بڑا گناہ کرلیا ؟
عوام اپنی اوقات بھول کر آپ سے سوال کرتی ہے کہ آپ خود تو لندن سے علاج
کرواتے ہیں ان کے لیے اچھے ہسپتال کیوں نہیں ہیں تو یہ عوام کی سوچ کا قصور
ہے جو اپنی اوقا ت بھلا بیٹھے ہیں اور اگر بستر نہ ہونے کی وجہ سے عورتیں
ہسپتال کے برآمدوں میں بچے پیدا کررہی ہیں تو اس میں بھلا آپ کا کیا
قصور!
آپ تو بادشاہ وقت ہیں بھلا بادشاہ اور رعایا کی کوئی مقابلہ ہے
بے وقوف قوم سزا ملی آپ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر جگہ لوٹ مار ، کرپشن ، چوری ، ڈکیتی ، راہزنی ، دھوکہ فریب عام ہے اور
اللہ کا فرمان ہے کہ جسی رعایا ہوگی ویسا حکمران ہوگا ۔
تو آپ تو ویسے ہیں جیسی رعایا ہے ۔ اگر رعایا خود کو ٹھیک رکھتی تو آپ
بھی ویسے ہی رہتے تو اکیلے آپ کو کیوں نکالا؟
شام ہوتے ہی ٹی وی کے ٹاک شوز میں مرد میزبان چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اور
خواتین میزبان سرخی پاٗوڈر کی تہیں چہرے پر سجا کر بوا وچولن کا
کردارنبھاتے ہوئے تمام سیاستدانوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا خوب
موقع فراہم کرتے ہوئے نہ صرف خود لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ عوام کو بھی ایسی
صورتحال میں مزہ دیتے ہیں۔ جب ہم ان نیک پاک ، خواہش و حرص سے مبرا ان
خواتین و حضرات کو کیوں نکالا کی مدبرانہ تشریح کرتے ہوئے سنتے ہیں۔
تو اپنے دلوں میں اس خواہش کو شدت سے پاتے ہیں کہ کاش ہمارے جج صاحبان ان
سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیں جو اس قوم کو مزید لوٹنے کے لیے لائن میں
اپنی باری کا شدت سے انتظار کررہے ہیں اور ان کو بھی اس کا موقع فراہم کریں
کہ یہ محمود و و ایاز یک زبان ہوکر پوری قوم سے سوال کریں
ہمیں کیوں نکالا |