سینٹ کے الیکشن میں بدترین دھاندلی کے بعدملک میں اقتدار
و اختیار کی صورتحال تیزی سے خراب ہوتی جا رہی ہے۔سیاسی جماعتوں نے جلسوں
اور میڈیا کے ذریعے انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ میڈیا کی طرف سے ''سیلف
سینسر شپ'' شروع کرنے کی صورتحال میں 'جیو' اور 'جنگ' میڈیا گروپ نے بھی
جبر کے سامنے ''گھٹنے ٹیک '' دیئے ہیں۔پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے
لاہور جلسے میں 11نکات کی میڈیا سے بھر پور تشہیر کی جا رہی ہے۔ پاکستانی
میڈیا کے مکمل مغلوب ہونے کی صورتحال میں عوام کی توجہ سوشل میڈیا اور غیر
ملکی میڈیا کی جانب مرکوز ہو چکی ہے۔صحافتی اداروں میں سیلف سینسر شپ کا
رجحان نمایاں اور موثر طور پر قائم نظر آ رہاہے۔پاکستان کا کوئی بھی ادارہ
اورمحکمہ ہی کیا، سیاست کے علاوہ اہم ملکی امور پر بھی ایک ادارے( جو
پارلیمنٹ ہر گز نہیں ہے) کی مکمل بالا دستی نمایاں ہے۔دہشت گردوں،انتہا
پسندوں سے بڑھ کر ملک کے مختلف سیاسی عناصر کو ملک دشمن،دشمن ملک کے ایجنٹ
ہونے کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ ایک ادارے کی طرف سے ملک کو مکمل طور پر
کنٹرول کیئے جانے پر تنقید کرنے والوں کو'' غداران وطن'' قرار دینے کا بھر
پور پروپیگنڈہ ملک کی بنیادیں ہلا دینے کے بھیانک نتائج پر منتج ہونے کے
خطرات میں بھی اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔
ملک میں عشروں سے جاری حاکمیت کی کشمکش اب نئے اور بے نظیر نظارے دکھا رہی
ہے۔ساتھ ہی بدترین ڈکٹیٹر شپ کی طرح ملک کو ہٹ دھرمی اور'' من مانی ''کے
انداز میں مطلوبہ سمت دھکیلا جا رہا ہے۔عوام کو ایسے بیانئے پر ایمان لانے
پر مجبور کیا جا رہا ہے جس کا دلائل سے دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ دلیل کے
بجائے طاقت سے اہداف کا حصول پاکستان میں آزمودہ طریقہ کار ہے۔ملک میںسابق
جنرل پرویز مشرف کا مارشل لاء لگنے کے بعد ہر صحافتی ادارے کے سربراہ کو
بلا کر کہا گیا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ کیا شائع کرو اور کیا شائع نہیں
کرو،لیکن اگر ہمارے خلاف ہوا تو ....۔ ملکی میڈیا عوام کو، ملک کو درپیش
حقیقی خطرات اوردرپیش اہم مسائل سے آگاہ کرنے کے بجائے سیاسی کشمکش پہ چسکے
لیتے ہوئے' رننگ کمنٹری' اور حمایت و مخالفت میں ہی محدود نظر آتا ہے۔وہ
وقت شاید اچھا تھا کہ جب حکام سے بات کرنے سے پہلے جان و مال ،عزت و آبرو
کی حفاظت کی ضمانت طلب کر لی جاتی تھی اور ایسی ضمانت دے دی جاتی تھی۔آئین
وقانون کو پڑھ اور سمجھ کر اس کی اطاعت کرنے والے کتنے بے خبر،معصوم ہیں کہ
نہیں جانتے کہ ملک میں آئین و قانون بھی حکم و ہدایت کے تابع ہو چکے ہیں،اس
لئے آئین و قانون نہیں بلکہ حکم دینے والوں کے '' مائینڈ سیٹ'' کو سمجھنا
چاہئے کہ وہ کن باتوں پر خوش اور کن امور پر ناراض ہوتے ہیں۔ ایک بار
پھر''قومی مفاد''( عوام کو کیا پتہ کہ قومی مفاد کیا ہوتا ہے، جو بتایا جا
رہا ہے عوام اسی کو ''قومی مفاد سمجھتے ہوئے اس کی تابعداری کریں) اس قدر
اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ قومی مفاد میں ہی ملک توڑنے کی نظیر بھی قائم کی
جا چکی ہے۔اب'' قومی مفاد'' ملک و عوام کو کیا کیا رنگ مزید دکھائے گا ؟ یہ
سوچنے کی زحمت کرنا ملک کے جبر پر مبنی نظام حاکمیت پر انگلی اٹھانے کی
خطرناک جسارت قرار پا سکتی ہے۔
جب سے پاکستان میں یہ اعلان کیا گیا کہ '' پاکستان کسی کی ڈکٹیشن'' پر نہیں
چلے گا ،اس وقت سے ملک کے اندر سے ہی ملک کو''ڈکٹیشن'' پر چلانا لازم
قراردیا جا چکا ہے۔قیام پاکستان کے وقت سے سنتے چلے آئے ہیں کہ پاکستان
سنگین خطرات کا نشانہ ہے۔تاہم بعد میں ان سنگین خطرات کی نوعیت بدلتی چلی
گئی ۔اب ملک کو درپیش سنگین خطرات باہر کے بجائے اندر سے زیادہ مہلک قرار
پا رہے ہیں۔مغلیہ خاندان سلطنت ہمیں اتنا عزیز ہے کہ نصاب میں اس کی تاریخ
سنہری انداز میں پیش کرنے کے علاوہ حاکمیت کے لئے بھائیوں،باپ کو ہلاک ،قید
کرنے کی شاہی رسموں کو بھی مملکت خداد اد پاکستان میں '' عین ایمان'' کا
درجہ دیا جاتا ہے۔ ملک میں غیر مسلموں کو مسلمانوں سے خطرہ ، سب کوفرقہ
واریت ،جنونیت ے خطرہ ، ملک کو دہشت گردوں سے خطرہ ، حکومت کو احتساب،
عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے خطرہ ، حکومت انتظامیہ، ،عدلیہ ،الیکشن کمیشن
سمیت بیشتر اداروں کو طاقتور ترین ادارے کی طاقت،ر ناراضگی اور سخت و عبرت
ناک کاروائی کا خطرہ ،سیاست کو اداوں سے خطرہ ،اداروں کو عوام سے خطرہ،عوام
کو اداروں سے خطرہ،طبقاتی نظام کی بالادستی سے ملک و عوام کو خطرہ،ملک میں
سیاسی کمزوری اور انتشار سے ملک کے وجود و استحکام کو خطرہ۔المختصر یہ کہ
پاکستان میں مختلف نوعیت کے خطرات کی طویل فہرست تیار ہو سکتی ہے۔
آئین و قانون کے مطابق عوامی پارلیمنٹ اور حکومت کے ذریعے ملک کی پالیسیاں
بنانا اور چلانا لازم ہے،لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ملک کے تمام اہم
داخلی اور خارجہ امور میں پارلیمنٹ اور حکومت کو ایک'' ڈمی چہرے '' کی طرح
مسلسل استعمال نہیں کیا جا سکتا۔افسوسناک صورتحال ہے کہ کئی سیاسی جماعتیں
پارلیمنٹ اور حکومت کی'' تابعداری'' کے محدود کردار کو تسلیم کر چکی ہیں
اور ان کے انتخابی ایجنڈوں سے ملک کی تقدیر کے اہداف مکمل طور پر حذف ہو
چکے ہیں ۔اکثر سیاسی جماعتیں اب'' پرانی تنخواہ'' پر ہی ''آمریت'' کے سائے
میں محدود اختیار رکھنے والی پارلیمنٹ و حکومت پر بخوشی راضی ہیں۔کیا خبر
آنے والے وقت میں حکومت اور پارلیمنٹ کا محدود اختیار آئین کا حصہ بنا دیا
جائے۔آمریت کے سائے میں پلنے والی جمہوریت مصنوعی پودے کی مانند ہی ہوتی ہے
جو ہر وقت سرسبز تو نظر آئے گی لیکن اس پہ پھل کبھی نہیں آ سکتا۔ |